سائیں کمال خان شیرانی کا غلام گل شیرانی کو پشتو میں لکھا گیا ایک خط:

.(پیارے گل کے غلام! (غلام گل
کاش کہ تم واقعی گل کے غلام ہوتے، گل کا سچا غلام!! ۔ایسا ہوتا تو پھر تمہاری گفتگو، قول و فعل اور عادات و اطوار بہت مہین، نرم، پاکیزہ اور خوشبو بھرے ہوتے۔ ہیں ناں؟۔ تم اپنی خوش اور دلپزیر بْو سے ہر کسی کو بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتے اور وطن کے نوجوانوں کے جم گھٹے آپ کے اردگرد جمع ہوتے، نوجوانوں کا اس طرح جمع ہونا علم و روشنی کا ایک حسین سادہ سا جنریٹر ہوتا جس کی کرنیں ہمارے اس سادہ، خشک، تاریک و سیاہ، نفرت انگیز اور دْکھی ماحول کے ہر اندھیر بھرے کونے تک پہنچ پاتیں۔ یہ کرنیں نہ صرف ہمارے عزیزوں کی اندرونی قباحتیں اجاگر کرتیں، بلکہ ان کے دلوں میں نفرت و لالچ کی بے انتہا خودغرضیوں اور خودپرستیوں کی متزلزل کوششیں اور جذبے بھی ان نوجوانوں پر آشکار کرتے جو آپ کے اردگرد جمع ہوتے اور ان کی مدد سے ہی اپنے عوام کے وسیع طائفوں میں پھیلاتے، تاکہ یہ کرنیں ہر کسی پر اس طرح اثرانداز ہوں جس سے انہیں اپنی یہ بدصورت، نفرت انگیز و دْکھی ماحول اور ان کے دلوں کی وہ باطنی انتہائی خودغرض، جھوٹی، بدنیتی پر مبنی بالکل جانوروں جیسی جہالت اچھی طرح عیاں ہوتی، جن کی بدولت وہ اپنے اس ظاہری اور باطنی ماحول سے اس طرح بدظن ہوجاتے کہ پوری طرح حواس کھو بیٹھتے اور انہیں ایسا متحد کرنے کی روشنی میں آپ سے مدد کے لئے اتنے اصرار اور بے قراری سے منتیں کرتے کہ خدا کے لئے ہمیں اپنی یہ بدصورت اور نفرت انگیز حالت بدلنے کا رستہ بتا دیں، ہم اس حالت سے یکسر دل برداشتہ ہوچکے ہیں، ہمارا اس حالت میں دم گھٹتا ہے، ہماری رہنمائی کریں تاکہ ہم کچھ نہ کچھ مردانگی، شر و فساد سے خالی ذرا سی گزارے کی انسانی زندگی اپنے لئے ڈھونڈیں۔ یہ سمجھ سکیں کہ زندگی میں آسودگی اور تعمیر تب پیدا ہوسکتے ہیں کہ انسان خودخواہی کے تگ و دو سے اپنے آپ کو بچالے اور اکھٹے ایک دوسرے کی مدد سے سب کی خیر و فلاح کے رستے ڈھونڈیں۔ یہ چھوٹا سا نقطہ اتنا واضح ہے کہ انسانی زندگی کے فلاح و نشوونما کی بالکل بنیادی ضرورت ہے، ہم کیوں اس چھوٹے سے نقطے کو نہیں سمجھ پاتے اور ایک ساتھ "ہر کوئی سب کے خلاف Each against all” ایک نہ تمام ہونے والی جنگ میں بہت بْری طرح پھسے ہوئے ہیں۔ ٹیڑھی گردنیں نفرت بھری آنکھوں سے ایک دوسرے کو ترچھی نظروں سے دیکھتے ہیں، بے ادبی معاف جیسے جانور ایک مردار حیوان کو کھانے کے لئے جمع ہوئے ہوں۔ ہمارے عزیزوں، رشتہ داروں، خاندانوں اور قبیلوں کا ایک دوسرے کے ساتھ سلوک، اٹھنا بیٹھنا اور رویہ بالکل ہوبہو ایک مرے ہوئے حیوان کے اوپر جمع جانوروں جیسا ہوتا ہے۔ وہی ترچھی نفرت بھری نظریں، وہی بھڑبھڑانا، وہی شر شور، وہی چیخنا اور آہ و فریاد تو اور کیا۔
تو اے دین کے غلام! (غلام دین)۔
کاش کہ تم واقعی دین کے غلام ہوتے!! کاش تم ذرا سا اس پہ غور کرتے کہ دین کسے کہتے ہیں اور مذہب کیا ہوتا ہے؟ دین و مذہب میں فرق کیا ہے؟ اور دین کے اس مذکورہ چھوٹے سے بنیادی نقطے کے بارے میں رہنمائی اور تقاضا کیا ہے؟ دین اس بنیادی انسانی مسئلے پہ کیا روشنی ڈالتا ہے؟ کیا رہنمائی فرماتا ہے؟ ہمارے سماج میں دین کے نام پر دن رات گھروں اور مسجدوں، گلی کوچوں اور ہر جگہ اکھٹے ہوئے لوگوں کے درمیان کتنا مسلسل بحث و تکرار جاری اور اٹکا ہوا ہوتا ہے اور جتنا ہمارا سماج دین کی ظاہری رسومات و عادات میں دن رات مصروف رہتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی کونے میں بھی دین کی ظاہرداری اور ریاکاری اتنی زیادہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ہم سے زیادہ ظالم، جھوٹے، لالچی، ایک دوسرے سے متنفر اور اپنے ہی ہمجنس انسانوں سے بیزار و بیگانہ نمونہ انسانوں کی دنیا میں شاید پیدا نہ ہو۔ یہ کیوں؟ یہ کیوں؟
آپ نے اولمپک کھیلوں کا نام سنا ہی ہوگا۔ یہ قدیم یونان کا دستور تھا کہ ایک خوبرو طاقتور جوان مشعل جلا کے ہاتھ میں اٹھالیتا اور دوڑتا ہوا دور کسی اور جوان تک پہنچا دیتا اور وہ پھر آگے تیسرے تک لے جاتا، اسی طرح اس ملک کے تمام نوجوان اکھٹے ہوجاتے اور ایک وسیع میدان میں اپنے جمع ہوئے ہم وطنوں کے لئے اسی سٹیڈیم میں مختلف قسم کے تماشے اور کھیل دکھاتے۔ اب جب زمانے اور اپنوں کے ہاتھوں رنجیدہ سفیدریش انسانوں نے یہ مشعل جلتی ہوئی تمہارے حوالے کردی اور خود وہ تھکے ماندے، دل برداشتہ اور اپنوں کے ہاتھوں ڈانٹے اور ملامت کیے ہوئے شکست و ریخت کی حالت میں گھٹنوں کے بل گرنے والے ہیں تو ان کی حالت قابل رحم ہے نہ کہ ہنسی و مذاق کی کیونکہ انہوں نے نہایت ہی مشکل حالات میں آپ لوگوں تک یہ مشعل جلتی ہوئی پہنچائی، اپنے ہاتھوں سے گرنے نہ دی، مشکلات تو انہوں نے بے انتہا جھیلیں۔ چالیس پچاس سال یعنی نصف صدی پہلے یہاں بہت ہی بے رحم، ناسازگار اور تھکن بھرے حالات تھے اور سماج کے "عزیزاں” بھی خدا کی فضل سے آج کل کی بہ نسبت بہت زیادہ جہالت اور بھوک و افلاس کے سخت ترین عذاب میں مبتلا تھے اور یہ سفیدریش رہنما تعداد میں بھی باقی عزیزوں سے بہت کم تھے، تو کیا حیران کن نام اْن کو نہ دیے گئے ہونگے اور کتنا ان کا ہنسی مذاق نہ اڑایا گیا ہوگا اور خود ان کی زندگی میں بھی انسانی سہولیات کی کتنی کمی لاحق ہوئی ہوگی، اس کے لئے اپنے ذہن میں ہمارے معاشرے کی چالیس پچاس سال پرانی تصویر بنانے کی ضرورت ہے جو شاید تم لوگوں کے لئے ممکن نہ ہو۔ 171اگر ان "باتوں” کی اشتہا تم لوگوں میں تھی تو باقی پھر کبھی187
آپ کا کمال خان

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے