احمد میاں نے پراٹھے کے آخری لقمے سے پلیٹ میں انڈے کی بچی کھچی زردی پونچھتے ہوئے کہا ، ’’بیگم اب چائے دے بھی دو۔‘‘ اور قریب پڑی کرسی سے اخبار اٹھا کر آنکھوں کے سامنے میز پر رکھ لیا۔ شہ سرخی پر سرسری نظر ڈالی جو وزیراعظم کا بیان تھی کہ ساری دنیا پاکستان کی اہمیت تسلیم کرنے لگی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اس کی ذیلی سرخیوں میں لکھا تھا کہ معاشی ترقی کی راہ ہموار کر دی ہے۔ لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے مختلف منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں۔ توانائی کا بحران حل کرنا پہلی ترجیح ہے۔ پیشانی کے ساتھ موجود خبر کی صرف سرخی دیکھی جس میں انکل سام کے ہونہار بیٹے نے تقاضا کیا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لئے مزید کارروائی کرکے کمٹمنٹ کا ثبوت دے۔ پھر ان دو خبروں کے درمیان پھنسی دو کالمی تصویر کے نیچے موجود ایک چو قالبی سرخی پر نگاہ کی جو کچھ یوں تھی کہ دفاع ناقابل تسخیر: زمین اور فضا سے اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا تجربہ کامیاب‘‘۔ انہوں نے ذیلی کی طرف دھیان کیا ہی تھا کہ بیگم ایک ہاتھ پیٹ پر ٹکائے اور دوسرے میں چائے کا کپ پکڑے سر پر سوار ہو گئیں اور احمد میاں کو آج کے ضروری کام اس طرح بتانے لگیں جیسے ہدایات دے رہی ہوں لیکن وہ اخبار پر نظریں جمائے ہوں ہاں کر رہے تھے۔ وہ بیگم کے احکامات سن رہے تھے نہ کچھ پڑھ رہے تھے، دو کشتیوں پر سواری جیسی صورتحال تھی۔ وہ چند منٹ تو چپ چاپ سنتے رہے، پھر مسکراتے ہوئے گویا ہوئے۔
’’بیگم! آج دفتر سے چھٹی ہے، سب کام باری باری نمٹا دوں گا۔ ذرا آرام سے چائے تو پی لینے دو۔‘‘
’’کام خاک نمٹائیں گے۔ بات تو سن نہیں رہے۔‘‘
’’تمہاری ہی سنتا ہوں، قسم سے۔ یقین نہیں تو میری اماں مرحومہ سے جا کر پوچھ لو۔ ‘‘ احمد میاں نے اس ادا سے کہا کہ عالیہ بیگم اپنے گول مٹول چہرے پر رخائی کھینچتے ہوئے بولیں، ’’اچھا۔ اچھا۔ ٹھیک ہے۔‘‘ اور واپس کچن میں چلی گئیں۔ احمد میاں نے نظریں دوبارہ اخبار پر جمائیں اور ایک تین کالمی سرخی پڑھی جو پڑوسی ملک کی طرف سے دیا گیا دھمکی آمیز بیان تھا ۔
وہ چائے کے گھونٹ بھرتے رہے اور سرخیاں نگلتے رہے۔ صفحے کے آخر میں انہیں ایک چھوٹی سی سنگل کالمی خبر نظر آئی جس کی سرخی اس طرح تھی کہ ’’پاکستان مردہ بچوں کی پیدائش میں دنیا بھر میں سرفہرست آ گیا‘‘ احمد میاں نے متن کی دو سطریں پڑھیں اور تیسری پر ’’بقیہ54 صفحہ 6 ‘‘دیکھ کر اوراق الٹائے اور خبر کا باقی حصہ پڑھنا شروع کیا کہ پاکستان میں ہر سال دو لاکھ چونتیس ہزار بچے حمل کے آخری تین مہینوں کے دوران میں وفات پا جاتے ہیں۔۔۔ ‘‘ احمد میاں پڑھتے پڑھتے رکے اور بیگم کو آواز دی ۔جواب میں ’’جی ۔۔۔‘‘ سن کر آخری تین ماہ میں زیادہ احتیاط کرنے کے متعلق بتاتے ہوئے مزید اوراق پلٹ کر آخری صفحہ پر پہنچے۔ اسے دیکھنے کے بعد دوبارہ پہلے صفحے پر آئے اور اوپر سے نیچے تک نظر دوڑائی کہ کہیں کوئی خبر چھوٹ تو نہیں گئی۔ انہوں نے میزائل کے تجربے کی خبر کے ساتھ لگی تصویر ذرا غور سے دیکھی اور چند لمحے کچھ سوچنے کے بعد صفحہ الٹ کر اپنے شہر کی خبریں پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔