زر بی بی تیز تیز گئی اور نواسی کو اٹھا لیا ۔ اسے زور سے زمین پہ پٹخ دیا اور اسے ڈانٹنے لگی۔
’’کتنی جھوٹی ہو تم؟ ۔ تم نے نہیں کہا تھا کہ بیٹا ہے ؟۔ تم مرگئی ہوتیں ایسا جھوٹ بولتے ہوئے ۔ بوڑھی عورت تمہیں شرم نہ آئی ایسا جھوٹ بولتے ہوئے ؟ ۔میں ہی مسخرہ رہ گئی ہوں تمہارے لیے ؟ ۔میرے سرپہ کلاہ رکھتی ہو؟‘‘۔
’’یہ بیٹی ہے ‘‘۔ ’’ پھر ایک بیٹی ‘‘۔ ’’یہ چھٹی بیٹی ہے ‘‘۔
’’ بغیر بیٹے کی عورت ، بغیر ریوڑوالے چراہے کی طرح ہوتی ہے‘‘۔
’’بے چاری ناز وپہ خدا ترس کھائے ۔ خدا اسے اپنی کوکھ سے بھائی د ے دے ۔ بغیر بھائی کی بہن ہے ‘‘۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہر کوئی اپنی جانب سے ترس کھا رہا تھا۔ لیکن اگرساس (زر بی بی) کا بس چلتا تو نازو اور ننھی دونوں کو زندہ نگل لیتی ۔ وہ پھر پھٹ پڑی ’’شر خاتون کو ملاحظہ فرمائیں۔ جھوٹ بول کر اور مجھ جیسی بڑھیا کو جل دینے کی قصوروار ہوئی‘‘۔
’’بی بی، مجھے معاف کردو ۔ میں ناف کاٹ رہی تھی کہ آپ نے پوچھا ، میں جلدی میں تھی ۔ اگر خدا نخواستہ ناف ٹھیک نہ کٹتی تو کیا حشر ہوتا ۔ ڈاکٹر ، ہسپتال تو یہاں ہیں نہیں ۔ نازو کو کچھ ہوا تو ہم کیا کرسکتی ہیں؟‘‘۔
’’نازو کوکچھ نہیں ہوگا ۔ وہ بیٹی پیدا کرنے کی عادی ہے ۔ میرا منہ کالا کرتی رہتی ہے ۔ میرے بیٹے کو لاوارث کرتی ہے ‘‘۔
بڑی جیٹھانی طنزیہ ہنسی کہ’’ اچھا ہے ہمارے بیٹوں کو غربت کی حالت میں گھر ہی میں بیویاں دستیاب ہوتی جارہی ہیں‘‘۔ کسی نے اس کی بات کو اہمیت نہ دی ۔ بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے ایک بولی۔’’ زیادہ باتیں نہ کرو ۔ لاؤمجھے دیدو ۔ انشاء اللہ اگلی بار بیٹا پیدا کرے گی‘‘۔
’’اے بی بی ۔ میں نے ہر طرح سے اپنا منہ کالا کر کے دیکھا ہے ۔ میں نے اسے کیا کیا نہیں کھلایا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے ، سبزک ( دوائی کا نام) میں نے دیا ۔ پکا ہوا انڈہ میں نے کھلایا ، کچا انڈہ میں نے کھلایا ، گھی میں نے دیا ، نرینہ ہر ن کا پتا میں نے کھلایا ۔ اور کس کس چیز کا نام لے کر تمہارا سر چکرادوں ۔ مجھے جو بھی مشورہ کسی نے دیا میں نے اسے دے دیا ۔ مگر وہ تو خود بے بخت ہے ، بد بخت کو کون کہہ سکتا ہے نیک بخت؟ ۔ اس کی ایسی قسمت کہاں کہ بیٹا پیدا کر کے اسے لوریاں دے ؟۔ مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا کہ بی بی نازو پھر بیٹی لائے گی۔ بیٹے والی ماں کا چہرہ تو چودھویں کے چاند کی مانند ہوتا ہے ۔ مگر نازو کا چہرہ تو یوں لگتا تھا جیسے کسی نے راکھ چھڑک دی ہو‘‘۔
اس نے نوزائیدہ کو زمین پر پٹخ دیا، کھڑی ہوگئی اور ایک کونے میں دنوں ہاتھ سرپہ مار کر بیٹھ گئی۔ بیٹھی ہوئی عورتوں میں سے ایک نے بچی کو اٹھا کر گود میں رکھ لیا اور کہا’’نازو، بے چاری ، اس کے لیے کپڑے لتے بنائے ہیں کہ نہیں؟ ‘‘۔
نازو نے ریل کی بوگیوں کی طرح قطارمیں رکھے ہوئے صندوقوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا کہ اس میں ہیں۔
’’عورت بچاری تو مفت میں تہمت کا شکار ہوتی ہے ۔ جو بیج بویا جائے گا وہی فصل تیار ہوگی۔ جَو کاشت کرو گے تو جَو اٹھاؤ گے ، گندم کاشت کر و گے تو گندم ملے گا‘‘۔
’’نہیں نہیں ، بہن ۔ میرے بیٹے کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ نازو سے پوچھو وہ خود کتنے بھائیوں کی بہن ہے ،بولو نازو‘‘۔
’’توبہ کرو، زر بی بی ، توبہ کرو۔ شیدو کی ماں نے یہی کہا تھا۔ پھر کیا ہوا شیدو؟ ، کہاں گئیں وہ بہت ساری بیٹیاں ؟ ۔ میری تمہاری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے ۔ بیٹیاں بڑی ہوگئیں ، شادی شدہ اور گھر والی ہوگئیں۔ پھر ایک ایک کر کے ایسے مرتی گئیں کہ ایک اندھی لڑکی بھی اس کے نام کی نہ رہی ۔ ناز بی بی زندہ تھی، اس نے یہ سب اپنی آ نکھوں سے دیکھا ۔ وہ کفِ افسوس ملتی رہی ۔ خدا تک کس کے ہاتھ پہنچ سکتے ہیں؟ ۔توبہ ہے خدا کے قہر سے ‘‘۔
’’نہیں زر بی بی ۔ یہاں تم غلط ہو۔ نازو کی ماں نے اپنی پوری کوشش کی مگر بیٹا یا بیٹی اس کی قسمت میں نہ تھی۔ سب مرگئیں۔ کتنے پیروں ، ملاؤں کے دم درود تعویزوں کے بعد کہیں خدا کو ترس آیا جو یہ اکیلی نازو بچ گئی۔ شکر ہے اس کے دم سے اس کے ماں باپ کا نام لیا جاتا ہے ‘‘۔
نازو کے دل میں آگ لگ گئی۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ کہنے لگی:
’’شاید خدا نے مجھے انہی دنوں کے لیے زندہ رکھا۔ اے کاش میں بھی انہی کی طرح مر جاتی‘‘۔
’’بس بس خو د کو پریشان نہ کر ، سوچ سوچ کر مر جاؤ گی۔ جیسے خدا کی مرضی ، تم نے کون سے پیسے دیئے کہ پریشان ہوجاؤ کہ بیٹا نہ ہوا ۔ کل یہ بیٹیاں تمہارے لیے خود کووار دیں گی۔ تمہاری مدد گا ربنیں گی۔دُرّین نے یہی کیا تھا۔ چوتھی بیٹی پیدا ہونے پہ خود کو دوہتڑ مارتی رہی، مارتی رہی ، سردی والے بخار میں مبتلا ہوئی اور ساتویں دن قبر میں چلی گئی۔ پھر بنا کیا؟ ۔اس کے بچوں کو بھائی کی بیوی نے پالا پوسا ، تمہاروں کو کون پالے گا، بے چاری؟‘‘۔
وائی اور بیٹھی ہوئی دوسری عورتوں نے زچہ وبچہ کو بستر پہ لٹایا ، تیمارداری کی ۔ ساس نے پھر بھی اپنے ہاتھ تک نہ ہلائے ، سراپا غصہ سے اٹھی ، دروازے کو زور سے مارا اور باہر نکل گئی:
’’ بی بی حوصلہ ۔ دروازے کواس طرح توپ سے مارنے میں بچے کا سر ٹوٹے گا‘‘ ۔دائی نے کہا۔
’’جہنم میں جائے ‘‘۔ ساس نے کہا۔
جان محمد نے دروازے کی آواز سنی تو تیزی سے دوسرے کمرے سے نکلا۔
’’ہاں ، ماں ، کیا ہوا؟‘‘۔
’’بیٹی اور کیا؟ ‘‘۔’’ لالو۔۔۔۔ اولالو۔ آجاؤ دکان چلے جاؤ اور وہاں سے گڑ خرید لاؤ ‘‘۔
’’گڑ کیوں، اماں؟‘‘ ۔
ماں نے غصہ بھری نگاہوں سے بیٹے کی طرف دیکھا :’’کیا مصری اور مٹھائی خریدے جائیں کہ واجہ جان محمد کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے ؟‘‘۔
جان محمد سمجھ گیا کہ آج ماں ، بات سننے کی نہیں ہے ۔ وہ تیزی سے واپس کمرے میں داخل ہوگیا۔
ماں نے لالو کو روانہ کردیا اور خود آگئی ، خاموش اور ملول ، جان محمد کے قریب بیٹھ گئی۔ کافی وقت گزرا مگر نہ تو بیٹے نے بات کی اور نہ ماں نے ۔ ماں کی اداسی تو ظاہر تھی ، جان محمد بھی دل میں ملول تھا۔
اسی لمحے کمسن نور بخت دوڑتی ہوئی آئی اور باپ کے گلے لگ گئی : ’’ بابا۔ چو چو کا نام کیا رکھو گے ؟ ‘‘۔
دادی وہاں سے بول اٹھی :’’ اس کا نام ہے بی بس ۔ اب بیٹی سے بس ‘‘۔ بی بس اور بیٹی سے بس‘‘
’’اس کا نام ہے زربخت ۔ اس طرح دادی کے نام کا حصہ بھی اس میں شامل رہے گا‘‘۔
جان محمد کی بات سے گویا ماں کی قمیص میں بلی گھس گئی ہو۔ وہ پاگلوں کی طرح کھڑی ہوگئی اور بیٹے کا کندھا پکڑا ۔
’’جانو خدا کا واسطہ ہے ، اب بس کرو ۔بخت تمہارے پاس نہیں ہے ، نام رکھنے سے بختاورنہ ہوگے ۔ یہ جان بخت ، ناز بخت ، دربخت ، نور بخت ، شاد بخت ، ان جیسے بد بخت نام اور کتنے ہوں گے ؟ ‘‘ ۔
’’بہت ہیں اماں ، فکر نہ کرو‘‘۔
ماں نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کردیا۔ جان محمد ہنسنے لگا:
’’اماں ، اماں خیر ہے ۔ میرے تمہارے ہاتھ میں ہوتا تو ان چھ کی چھ بیٹیوں کو بیٹا بنا لیتے ۔تمہیں تو ایسا نہیں سوچنا چاہیے ۔ تم تو خود عورت ہو‘‘۔
’’میں نازو کی طرح کی عورت نہیں ہوں ۔ مجھے خدا نے سر سبز کیا۔ میں بیٹوں کی ماں ہوں ۔ مجھے تو تم پہ تر س آرہا ہے ‘‘۔
’’بیٹی خدا کی رحمت ہے ‘‘۔
’’میں خدا پر خیرات ہوجاؤں۔ رحمت برسانے اس نے صرف تمہارا گھر دیکھاہے ؟‘‘۔
’’توبہ کرو اماں، توبہ کرو۔ میرا ایک دوست ہے ۔ خدانے اسے مال ، دولت ، صحت ، عزت، ہرچیز دے رکھی ہے مگر اولاد نہیں دی ۔ وہ کہتا ہے کہ خدا میری ساری دولت لے جاتا اور مجھے اولاد دے دیتا ، بیٹی ہی دے دیتا مگر دے دیتا ۔ اب تو کہتا ہے کہ اپنے لیے یتیم خانہ سے ایک بچہ لاکر پالے گا‘‘۔
’’تم اسے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کیوں نہیں دیتے ؟۔ تمہاری بیوی نے بیٹیوں کا ایک انبار دیکھ لیا ہے ۔ سال بعد تمہارے لیے ایک اور لادے گی‘‘۔
جان محمد کو سخت برا لگا۔ ماں کی اس بات نے اُسے جلا بھنا ڈالا ۔ وہ محض سر بلانے لگا۔
’’سرکیوں ہلا رہے ہو ، میں غلط کہہ رہی ہوں ؟ ۔پتہ نہیں نازونے تم پہ کیا جادو کر دیا کہ یکے بعد دیگر ے چھ بیٹیاں لانے کے بعد بھی تمہارے دل میں ہے اور آنکھوں پہ ہے ۔ اپنی جوان اورقد نکالتی ہوئی بیٹیوں کے لیے شوہر کہاں سے لاؤگے ؟‘‘۔
جان محمد کو ایک بار جیسے جوش آگیاہو۔ وہ پھٹ پڑا ۔’’تم کہو، انہیں کیا کروں ؟ ۔ان سب کو قتل کردوں ، گولی ماردوں ؟۔ تم کہتی ہو ، بیٹا ۔ بیٹا ۔ کیا کردے گا بیٹا ؟۔ بادشاہی تاج میرے سر پر رکھے گا ؟۔ بڑھاپے میں ضعیف وناتواں ہوجاؤں گا تو بیٹا اور بہو میرا ہاتھ پکڑیں گے اور گھر سے باہر پھینک دیں گے ۔ تمہیں اپنا بھائی نور محمد یاد نہیں ؟۔ اس نے جان تمہارے گھر میں دے دی ۔ حالانکہ اس کے تو چار بیٹے تھے ، پھر؟‘‘۔
’’میں بد قسمت ماں ہوں ۔ تمہاری لاوارثی میرے لیے ایک درد ہے ‘‘۔
’’میری فکر نہ کرو۔ میری بیٹیاں میری وارث ہیں۔ وہی میرے بیٹے ہیں ۔ کچھ دنوں بعد نازو کو بڑے ہسپتال لے جاؤں گا اور بچے بند کرنے کا آپریشن کراؤں گا۔ بیٹیوں کے لیے شوہروں کا غم نہ کرو ، تمہارے پوتوں کے ساتھ نہیں بیاہوں گا انہیں۔کون سامیرا مال ومتاع محل ماڑی ہیں یا کروڑوں کا کاروبار ہے کہ جب مروں گاتو لوگ لے جائیں گے۔ یامیری نہریں بہہ رہی ہیں ۔ باپ سے ورثے میں ملی میراث تمہارے ان دو بیٹوں کے ہاتھ میں ہے ، وہ ان کا پیٹ نہیں بھرتی ۔ میں تو اپنی سفید پوشی والی نوکری کروں گا۔ چار پیسے بچالو ں گا۔ اپنی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلاؤں گا۔ وہ میرا بیٹابنیں گی ۔تم جاؤ، ذرااپنے ان دونوں بیٹوں میں سے ایک کے گھر میں سال چھ ماہ تو گزارو۔ دیکھتا ہوں بہوئیں تمہیں نازو کی طرح رکھ تو لیں۔ کیوں ان کے ہاں نہیں رہ سکتی ہو؟۔ تم یہاں اس لیے نہیں رہ رہی ہو کہ میں تمہارا بیٹا ہوں ، بلکہ اس لیے رہ رہی ہو کہ نازو تمہاری بھتیجی ہے ، تمہاری بیٹی ہے ، تمہیں اپنی ماں گردانتی ہے ‘‘۔
جان محمد کے غصے اور چیخوں سے ماں نرم پڑگئی۔ جان محمد نے چادرکندھے پہ ڈالی ، غصے سے بھرا اٹھ کھڑا ہوا۔ جوتے غلط پاؤں میں ٹھونسے اور گھر سے باہر نکلا ۔ ماں نے آواز دی ۔ ’’ابا ، میری جان ، تم نے جوتے غلط پیروں میں پہنے ہیں‘‘۔