ماما عبداللہ جان ایسی شخصیت کہ جس نے اپنے اردگرد موجود دوستوں کا حافظہ اور ہاضمہ کمزور ہونے نہیں دیا ، اُنہیں جھکنے اور بکنے نہیں دیا، گمنامی کی موت مرنے نہیں دیا، بھڑکتے اور چنگھاڑتے ہوئے کسی کو بلا وجہ لقمہ او ر تھپکی نہیں دی۔ باکمال بننے کے لیے بے کمالوں سے کبھی نفرت نہیں کی بلکہ ان کی تربیت اور اصلاح کو اپنا مِشن بنا یا۔ وہ کسی اور پر دکھ درد جتانے کی بجائے اپنا دکھ خود سہتے رہے۔ وہ انصاف کی فراہمی اور طبقاتی فرق مٹانے کے حامی تھے۔ وہ ہر مخلص استاد اور رہنما کی طرح روز دوسروں سے ملنے سے پہلے ایک مرتبہ خود سے ملتے اور ہمکلام ہوتے تھے۔ دوسرو ں میں شرتلاشنے سے پہلے اپنے آپ میں تلاشتے تھے جِسے خود احتسابی کہتے ہیں۔ بھلا ایسے آئینہ نما شخص کو کیوں نہ سوچا جائے، سمجھا جائے۔ اس پر لکھا جائے پڑھا جائے ، پرکھا جائے، اپنے آپ کو ان سے جوڑا جائے۔
یہ1985 کی با ت جب بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے بلوچی، براہوئی اور پشتو کی باقاعدہ کلاسوں کا آغاز ہوا۔ میری خوش قسمتی کہ میں اس اولین کھیپ میں ریگولر طالب علم کے طور پر شامل تھا۔ ماما عبداللہ جان ، نادر قمبرانی اور میر عاقل خان مینگل کو قریب سے دیکھنے ، سننے اور ان کے خیالات کو جاننے کا موقع ملا۔ ایسے مستقل مزاج اور محبت بانٹنے والے بزرگوں سے واسطہ کیاپڑا کہ میں خود میں بزرگی محسوس کرنے لگا۔ ایک شعر ہے کہ
دا شرف ئے چا امو دروش نا
نے ٹی درویشی خناٹ اینواگہ
1986 میں ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کرنے اور مجھے ’’ براہوئی ادب میں ترقی پسند رحجانات‘‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھنے کی ذمہ داری دی گئی۔ جس کے طفیل ملک و بیرون ملک سے اعلیٰ پائے کے ادیب دانشوروں سے ملاقات کا موقع ملا۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی، زینت ثناء سمیت ایک درجن سے زائد بلوچی، براہوئی اور پشتو کے ادیب دانشور اس کا روان میں شامل تھے جس کی نگرانی خود ماما عبداللہ جان کررہے تھے۔اس موقع پر گفتگو کے نام سے مظہر جمیل کی ملک کے نامور ترقی پسند دانشوروں کے انٹرویوز پر مبنی تالیف بھی چھپی جس میں ایک سوال کے جواب میں ماما عبداللہ جان نے کہا’’ 1951,ِ 1952 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک شاخ کوئٹہ میں باقاعدہ قائم ہوئی۔ جس کے طفیل بلوچی براہوئی اور پشتو کے اپنے اپنے انجمن تشکیل دیے گئے۔ کوئٹہ شاخ میں اردو کے دانشور بھی شامل تھے۔یہاں سے بلوچی ادب اور شاعری میں نئے نئے خیالات داخل ہوئے۔ اس سے پہلے سرداری نظام، جرگہ اور ایف سی آر کے خلاف لکھا جاتا تھا۔
پھر فکر کا دامن وسیع ہونے لگا۔ جاگیرداری، سرمایہ داری، سامراج، طبقاتی کشمکش ، امن اور بین الاقوامی مزدور تحریک جیسے عالمی مسائل ضبطِ تحریر میں آئے‘‘۔
ماما عبداللہ جان جمالدینی نے نہ صرف اس تحریک کا ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ دیا بلکہ اپنے اردگرد سیاسی اور سماجی مسائل کے ادراک کا شعور بھی بانٹتے رہے۔ انہوں نے مادری زبانوں میں علم کے آسان حصول کو ہی ذہنوں کی تعمیر کا بہترین وسیلہ تصور کیا اور وہ ہمیشہ سائنس کی برکات کے سامنے رکاوٹوں کے خلاف رہے۔
ماما کی جدوجہدکا زمانہ بھوک و افلاس کا زمانہ تھا۔ اس کا احساس اس لیے بھی کم تھا کیونکہ سادہ لوگ تھے ذہنی عیاشی کی انہیں لت نہیں پڑی تھی۔ بھوک سے زیادہ انہیں عزت نفس کے ٹوٹنے، بکھرنے ، روندے جانے کا غم لاحق تھا۔ جبھی تو ان میں سرفروشی تھی۔ وہ آزاد فضا میں سانس لینے کی تگ و دو میں تھے۔ جس کا واحد حل ادب، سائنس اور فلسفہ میں مضمر تھا۔ ظلم ناانصافی، ریاکاری، جیسی بیماریاں پھیل رہی تھیں۔ جس کے لیے لٹ خانہ جیسے ایک علمی لیبارٹری کا قیام نا گزیر تھا۔لٹ خانہ کے ہیروز نے استقامت کے ساتھ جہالت کے خلاف جنگ لڑی۔ جہالت کے پروردہ اور پردہ نشینوں کے زخمی ہونے کی اطلاع تو تھی۔ لیکن ان کا منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے ابھی اس کا اعلان باقی تھا۔ نائن الیون کے بعد ماضی کی غلطیوں اور مظالم کے افسانے زبان زدعام ہوئے۔ جس سے ماما اور اس کے نظریاتی ساتھی سرخرو ہوئے۔ لیکن ابھی امن کا ہونا باقی ہے۔جس کے لیے آج بھی لٹ خانہ کا تسلسل سنڈے پارٹی، سنگت اکیڈمی آف سائنسز، سمو راج ونڈ کی صور ت میں استحصالی اور ظالمانہ رویوں کے خلاف آواز بلند کرنے اور علم و شعور پھیلانے پر اس میں شاملِ کاروان کے ساتھی کار بند ہیں۔ماما عبداللہ جان کتاب لٹ خانہ میں یوں رقم طراز ہیں’’ قانون قدرت ہے وہی زندہ رہ سکتا ہے جس میں زندہ رہنے کی سکت و قوت ہے ‘‘۔ اور ماما کو یہ بھی علم تھا یہ قوت سماجی شعور کی محتاج ہے ۔ جس کے لیے انہوں نے علم کو اس کے روح کے ساتھ قبول کرنے کی ہمیشہ تلقین کی۔ اور زندگی کے آخری لمحوں تک ان اداروں اور تنظیموں کی سرپرستی کرتے رہے۔ یہ ایک بولتے استاد اور بیدار انسان کا فیضان محبت ہے کہ علم کی سچائی کے علمبردار اسی جذبے سے کتابوں کے تراجم، نئی نئی تخلیقات، مسائل و مشکلات پر مباحث ، مذاکرے اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر کررہے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے