تمہاری بستیوں کو چھو کے گزری ہے نظر میری
مری سانسوں نے کی ہے گفتگو ان رہگزارو ں سے
تمہاری خامشی کے سامنے سے جو گزرتی ہیں
مہذب و ادیوں سے جنگلوں میں جا نکلتی ہیں
ہزاروں طرح کے منظر
نظر میں جذ ب کرتی ہیں
دہانِ گنگ سے قصے ابلتے ہیں زمانوں کے
کہ جن میں بے کسی سورنگ میں تصویر ہوتی ہے
فضاؤں میں اسیری جاگتی ہے
اور ہوا زنجیر ہوتی ہے
مِرے پیروں کے چھالے
دشت کی آواز ہوں جیسے
چیختے خواب کے انداز کے
غماز ہوں جیسے
برہنہ راز ہوں ایسے
جنہیں صدیاں
نہاں رکھنے کی کوشش میں
عیاں تر کرکے جاتی ہیں
وفا کے ریگ زاروں میں
تھکن اب تک نہیں جاگی
سراب اور آب میں تفریق
اب ہے کارِ لا حاصل
بنی ہے تشنگی احساس سیرابی کا
مدت سے