بلوچستان میں تعلیم پاکستان کے دوسرے حصوں کی نسبت بہت پیچھے ہے ۔ پالیسی سازوں کے پیش نظر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔یہاں عام طور پر تعلیم کے بارے میں ما قبل جاگیرداری سماج کے تصورات اور اقدامات موجود ہیں۔ سماج کے اندر دلیل و استدلال اور گفتگو کو تشدد پر بالادستی کی تربیت تو درکنار ،یہاں تو والدین ’’ اِس کا گوشت پوست تمہارا، اور ہڈیاں ہماری‘‘کہہ کر استاد کو بچے پر ڈنڈے باری جیسا تشدد کرنے کا اجازت نامہ دے ڈالتے ہیں۔ یوں بچے کے اندر پرامن انسانیت کی اہمیت اجاگر تو خیر کیا ہوگی ، ہم تو سکول ہی میں اُسے ایک سادیت پسند آدمی بنا دیتے ہیں۔
بلوچستان میں ایسا کوئی بھی گروہ نہیں ہے جو لوگوں کو اکٹھا کر کے بلوچستان کی تعلیم پر بحث ومباحثہ کرے ۔ ٹیچر ایسوسی ایشنوں کے رہنما صرف ٹرانسفر ، پوسٹگز ، فنڈ اکٹھا کرنے کے مسائل اور آنے ٹکے کی جنگ میں ملوث ہیں ۔ وہ خود عوامی تعلیم کی ترویج وترقی میں رکاوٹ ہیں ۔ اس لیے گلی گلی کوچہ کوچہ میں پرائیوٹ سکول ، کالج، ٹیوشن سینٹرز،لینگوئج سینٹرز اور مدرسے موجود ہیں ۔ ان موسمی کھمبی قسم کے تعلیمی اداروں کو کوئی چیک نہیں کرتا ۔ جس کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کے مالک اپنی من مانی کرتے ہیں اورانہوں نے تعلیم جیسے مقدس اور پیغمبرانہ پیشے کو ایک سرمایہ دارانہ صنعت بنا کے رکھ دیا ہے۔یہ صرف اپنی تجوریوں کو غریبوں کے خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے بھرنے میں مصروف ہیں۔انہیں تعلیم سے کوئی غرض نہیں ہے۔
اگر حکومت مفت اور سائنٹیفک تعلیمی نظام مرتب کرتی تو کوئی بھی شخص اپنے بچوں کو ان بھیڑیوں کے حوالے نہیں کرتااور یہ جعلی تعلیمی گورکھ دھندا اور نجی تعلیمی دوکانیں خود بخود بند ہوجاتیں۔ اس لیے بلوچستان میں کوئی بھی صحیح تعلیمی نظام تسلسل سے نہیں چل سکا ہے ۔کیوں کہ قانون پر ذاتی پسند کو فوقیت حاصل ہے ۔ سائنس ٹیچر سے لے کر ڈائریکٹر سطح تک اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔اور تعلیمی نصاب مکمل طور پر پرانا،دقیانوسی،غیر سائنسی، فرسودہ ا ور غیر متعلقہ ہے ۔
ہمیں اساتذہ ، دانشوروں اور متعلقہ شہریوں کو اکٹھا کر کے بلوچستان میں عوامی تعلیم کے نفاذ کے لیے کام کرنا چاہیے ۔ ہمیں لوگوں کو اس مسئلے پر منظم کرنا چاہیے۔ ہم تعلیمی مسائل، ضروریات اور ترجیحات کی فہرست بنائیں گے اور اس سلسلے میں ہم اس مسئلے کا نعم البدل اور حل تلاش کریں گے ۔ ہم سنجیدہ شہریوں کو اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ ملوث کر کے ایک فورم، ایک کمیٹی تشکیل دیں گے۔ جس کی مدد سے ہم سائنسی اور مفت تعلیم کے نفاذ کے لیے جدوجہد کریں گے ۔ ہم مادری زبان میں تعلیم کی ترویج کے لیے جدوجہد کریں گے ۔
ہم جانتے ہیں کہ اس عظیم مقصد کا حصول اتنا آسان بھی نہیں ہے اور اس میں عوامی تعلیم دشمن عناصر کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ اس سلسلے میں پرانے عقائد اور فرسودہ روایات کا استعمال کریں گے اور اپنے فرسودہ ، ناقص اور غیر سائنسی نصاب کو تحفط دیں گے ۔ وہ لوگ گوسٹ سکولوں ، امتحانی نقل، اساتذہ کی غیر حاضری، نجی تعلیم، سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولتوں کے فقدان، تعلیمی اداروں میں سیاسی اثررسوخ اور بے جا مداخلت کا دفاع کریں گے ۔ اور ہمیں ان سب مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔
ہم اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویزو مطالبات پیش کرتے ہیں:
تجاویز و مطالبات:
-1ایک ہی کلاس میں اور اگلی کلاس میں ایک موضوع کی ریپی ٹیشن نہ ہو۔ اور سختی سے ہر ڈسپلن کی کتاب میں اس سے متعلقہ مواد موجود ہو۔
-2سکول کے چھ سالوں میں بچہ اس سطح تک پہنچے ، جس میں آج کل آٹھویں جماعت میں پہنچتاہے۔
-3تعلیم مفت، سائنسی اورمادری زبان میں، اور دسویں جماعت تک لازمی ہو۔
4۔ٹیکسٹ بک بورڈ کی تشکیل از سر نو کی جائے، جس میں ماہرین تعلیم، ماہرین نفسیات اور تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ اساتذہ شامل ہوں۔ ہر کتاب اسی ادارے کے تحت سرکاری پرنٹنگ پریس سے شائع ہو۔ اشاعت کے بعد کتابوں کو محکمہ تعلیم کے حوالے کیا جائے جو انہیں ہر سکول میں بچوں میں مفت تقسیم کرے۔
5۔ہر سال نصاب تعلیم پر نظرثانی کی جائے اور اسے جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق مرتب کیا جائے ۔ اس میں نئی نئی سائنسی ایجادات ، اکتشافات اور مظاہر سے مطابقت ہو اورکتابیں رنگین تصاویر سے مزین ہوں۔
-6پرائمری سطح تک صرف تین کتابیں ہوں: انگلش، سائنس اور میتھ۔ ہیومینٹی، سائنسی اور ٹکنیکل تعلیم پر روزِ اول سے زور دیا جائے۔ سکول میں بنیادی انسانی حقوق بالخصوص عورتوں کے حقوق کے بارے میں جانکاری ملے۔ چائلڈ ابیوز پر بات ہو۔ نا شناس اور افسانوی کرداروں کے بجائے بچوں کو اُن کے اپنے ہیرؤں ، داناؤں اور شاعروں ادیبوں کے بارے میں پڑھایا جائے۔ اسی طرح بلوچستان میں سمندری حیات، لائیوسٹاک معدنی وسائل ،اور آرکیالوجی کی دریافتوں کو پڑھانا اشد ضروری ہے۔
-7لائبریری،سائنس لیبارٹر ی، کمپیوٹر لیب،میڈیکل سینٹر، کھیل کا میدان ،کھیلوں کے سامان، میوزک، پیٹنگز، ورکشاپس کا ہر سکول میں بندوبست ہواوربچوں کی عمر اور ذہانت کی سطح کے مطابق انہیں سکول کے اندر یہ سہولتیں میسرہوں۔ اور انہیں ان سرگرمیوں کے لیے کافی وقت دیا جائے۔ٹائم ٹیبل اس طرح ترتیب دیے جائیں کہ بچوں کی دلچسپی کسی صورت کم نہ ہو۔
ؑ -8سکول بلڈنگ میں کشادگی ، صحت مندی ،صفائی اور محفوظیت کا خاص خیال رکھا جائے۔ بچوں کی مختلف نصابی وہم نصابی سرگرمیوں کے لیے تمام سہولتوں کا بندوبست ہو۔ سکول آبادی سے بہت قریب ہو اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی کم سے کم ضرورت ہو۔
-9ٹیچرز کی بھرتی میں خواتین ٹیچرز کو اہمیت اور فوقیت دی جائے ۔ اُن کی تعلیمی ڈگری قابلیت اور تنخواہیں بڑھاتے رہنا چاہیے۔ان کی بھرتیاں ٹرانسپیرنٹ اور میرٹ پر ہوں۔ اُس کی سماجی حیثیت بڑھائی جائے۔ انہیں مراعات دی جائیں، انہیں رہائش، صحت اور ٹراسپورٹ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔نیز ان کو بہت اچھا سروس سٹرکچر مہیا کیا جائے۔
-10بچوں کی نصابی اور ہم نصابی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ٹیچرزبہت تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں بچوں کی نفسیات سے مکمل آگہی ہو۔ سکول میں بچوں کے لیے مناسب کھلونوں، فلموں،آڈیو وژوئل آلات اور ڈراموں سے ہمہ وقت آگاہ کیا جائے اوران کے ذریعے انہیں تعلیم دی جائے ۔ وہ نصاب کے متعلق ہر وقت اپ ٹو ڈیٹ رہیں۔
-11مقامی حکومتوں سے ہم کاری میں ہر سکول کی ایک عوامی تعلیمی کمیٹی ہو جس میں والدین، سماجی کارکن ، سیاسی ورکر اور ماہرین تعلیم شامل ہوں جو بچوں کی تربیت کے معیار، سہولتوں کی فراہمی اور مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہوں۔ اس کمیٹی کو انتظامی اور فنانشل اختیارات حاصل ہوں ۔ ان کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہو۔
-12بیت بازی، لفظ سازی،مضمون نویسی، پیٹنگز ، کھیلوں ، میوزک،ڈرامہ اور تقریری مقابلے سکول کے اندر اور بین السکول سطح پرمنعقد ہوں۔ ۔
-13امتحانات کو ہوّا نہ بنایا جائے۔ بالخصوص سالانہ امتحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔سالانہ امتحانات کے نظام بجائے سمسٹر سسٹم نافذ کیا جائے ہر سمسٹر 6ماہ پر مشتمل ہو اور ہر تین ماہ میںMid Semester کا کورس ختم کیا جائے اور دوسرے تین ماہ میںFinal کورس ختم کیا جائے۔ اور مسلسلevaluation سسٹم وضع کیا جائے۔ ڈگری ’’Oriented‘‘ ہونے کے بجائےlearning Oriented ہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے