کتاب کا نام: سپارٹیکس
ترجمہ: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: ۳۲۰
قیمت : ۴۹۵ روپے
مبصر : عابدہ رحمان
——————————————–
سپارٹیکس، ایک غلام ابنِ غلام کی روم میں ایک عظیم بغاوت کی داستان جسے ہاؤورڈ فاسٹ نے لکھا اور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ترجمہ کیا۔ ایک عظیم بغاوت جس نے سلطنت روم کو تہہ و بالا کر دیا ۔ اس بغاوت نے غلاموں کے گلے کے طوق ایک جھٹکے سے دور پھینک دیے اور پاؤں کی زنجیروں کو توڑ کر روم کے آقاؤں کی کمر پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ بلبلااٹھے ۔
ناول کی ابتدا میں بتایا گیاہے کہ رومن حاکموں نے نشانی کے طور پرسڑک کے ساتھ ساتھ6000 غلاموں کو پہاڑوں کے دامن میں مصلوب کر دیا اور پھر آخر میں سپارٹیکس کو بھی صلیب پر چڑھا یا گیالیکن جاتے جاتے وہ کہہ گیا کہ ،’’ میں واپس آؤں گا اور ہزار بن کر۔‘‘ ۔
سپارٹیکس جو غلام خاندان کی تیسری پشت سے تھا۔ وہ بہت سارے دوسرے غلاموں کے ساتھ معدنیات کی کانوں میں پہنچ گیا ۔جہاں غلام، انسانیت کی ایسی تذلیل سے دوچار تھے کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ گلوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیر لیے ننگ دھڑنگ وہ کانوں میں مشقت کرتے، تنگ و تاریک اور بدبودار بیرکوں میں رہتے، کڑکتی دھوپ میں اپنی پیٹھ پر کوڑے کھاتے اور خوراک کے نام پر انھیں دلیا، ٹڈی اور جَو کی روٹی کا ٹکڑا دیا جاتا۔ وہاں سے کاپوا کے گلیڈیٹر سکول کا مالک لینٹولس اسے خرید کر لے آیا ،جہاں اسے لڑائی کی تربیت دی جانے لگی جو اکھا ڑے میں تپتی ریت پرجوڑوں کی صورت میں سلطنتِ روم کے عیاش ، بے حس اور بے کار آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے موت تک لڑواتا۔ یہ لوگ روم میں ایک سیاسی اور معاشی قوت بن چکے تھے۔ جانوروں کی طرح کاپوا کے گلیڈیٹروں کی مانگ ہر اکھاڑے میں بہت تھی۔
روم کو تماشا دکھانے کے لیے کشت وخون کا اک ایسا بازار گرم تھا کہ جہاں انسانوں کو کٹتے، مرتے دیکھ کر قہقہے لگائے جاتے۔ روم میں غلام کی محنت، روم کی سڑکوں اور اس کی ساری ترقی میں نظر آتی تھی۔ غلاموں کو پیداوار کا آلہ کہا جاتا تھا۔زرعی زمینوں پر کام کر کے پیداوار بڑھانے میں غلام محنت کشوں کے پسینے کی خوشبو تھی لیکن اس پیداوار میں ان غریب غلاموں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا۔ ان کی خرید و فروخت جانوروں کی طرح ہوتی تھی۔ لیکن ہر چیز کی جس طرح ابتدا کا وقت ہوتا ہے ،اسی طرح اس کا ایک اختتام بھی ہوتا ہے۔
سپارٹیکس ، ہر عوامی لڑائی کی رہنمائی کا سمبل ہے۔ وہ عام انسان کہ جس کا عام ہونا ہی خاص قرار پایا۔ وہ سکول جہاں زندگیاں قصائیوں کی نذرہو جاتی تھیں ، وہاں اس نے اپنی طاقت ور لیڈر شپ میں غلاموں کو زندگی اور انسان سے محبت کی چھتری تلے متحد کرنا شروع کر دیا ۔یہ وہ وقت تھا جب اس عظیم بغاوت نے جنم لیا۔ مظلوم و محکوم طبقہ غلام ، جس پر جانوروں کو برتری حاصل تھی جب اس عظیم عام انسان نے ان کو اعتماد بخشا تو ان کی آنکھوں میں زندگی کی چمک نظر آئی۔
سپارٹیکس ،ہر مظلوم و محکوم طبقے میں موجود ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طور وہ لوگوں کو اعتماد بخشتا ہے۔ ایک صحیح انداز میں صحیح رخ پر اس کی رہنمائی کرتا ہے اور یہی چیز ایک عظیم انقلاب کی راہ ہم وار کرتی ہے۔
گلیڈیٹر سکول کے بے شمار غلام سپارٹیکس کے قریب ہوتے چلے گئے۔ وہ لمحہ جب سپارٹیکس نے کہا ،’’ میں آزاد ہوں‘‘ تو اس لمحے وہ واقعی آزاد تھا کہ اصل آزادی روح کی آزادی ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان سوچ لیتا ہے اور اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں آزاد ہوں ، تب وہ طبعی آزادی کی جدوجہد کرتا اور کر سکتا ہے اور یہی کچھ سپارٹیکس نے کیا۔
گلیڈیٹر سکول کے سارے گلیڈیٹرز اور باورچی خانے کے سارے غلام ، سپارٹیکس کی قیادت میں نکل پڑے اور رومن فوجیوں سمیت تمام حاکموں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ سکول سے نکل کر وہ مختلف پلاٹون میں تقسیم ہو گئے ۔آس پاس کے سارے غلام اور غریب کسان اس عظیم باغی فوج کا حصہ بنتے چلے گئے۔
سپارٹیکس ، جس نے انہی کے ایک فوجی کو سینٹ اپنے پیغام کے ساتھ بھیجا کہ ،’’ اس گلے سڑے روم سے لوگ بے زار ہو چکے ہیں جہاں وہ جانوروں کی خصلت یعنی انسانوں کو لڑوانا ، عورت کی تذلیل، انسانیت کی تذلیل، جہاں خون کا نظارہ تمہارے لیے تفریح ہے۔ یہ ہے اس آلے کی آواز جو تم غلام کو کہتے ہو۔ ہمارے خلاف اپنی فوجیں بھیجو کہ ظالم ابد تک نہیں رہ سکتا ،اس کو گرنا ہی ہے۔‘‘
ویرینیا جو سپارٹیکس کی بیوی تھی اور قدم قدم پر اس کے مشن میں اس کے ساتھ تھی۔ جسے سپارٹکس سے محبت تھی اور جو کہتی تھی کہ،’’ سپارٹیکس ایک عام انسان تھا ،لوگ اسے عام انسان سے افضل کہتے ہیں لیکن اگر وہ عام انسان سے افضل ہوتا تو وہ کبھی اچھا انسان نا ہوتا۔‘‘
سچ بھی یہی ہے کیوں کہ ایک عام انسان ہی دوسرے عام انسان کے دکھ درد کو اسی طرح محسوس کر سکتا ہے جس سے وہ گزر رہا ہوتا ہے اور اسی کے پاس ان مشکلات کو حل کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ عام انسان سے ا فضل لوگ کبھی بھی پریشانی، مسئلے اور دکھ کو نا محسوس کر سکتا ہے اور نا ہی حل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ ناول میں ایک لکھا ہے کہ ،’’ ہم بھوک کی باتیں کرتے ہیں مگر ہمیں اس کا تجربہ بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہم پیاس کے بار ے میں باتیں کرتے ہیں مگر ہم کبھی پیاسے نہیں رہتے۔ ہم محبت کی باتیں کرتے ہیں مگر محبت کرتے نہیں۔ ہمارے ہاں مسرت کی جگہ تفریح نے لے رکھی ہے اور جوں ہی ایک تفریح غیر دلچسپ ہو جاتی ہے تو ہم ایک اور تفریح کی تلاش کرتے ہیں جو پچھلی سے زیادہ دلچسپ ہو۔‘‘
رومن حاکم زبردستی نا تو سپارٹیکس کو شکست دے سکے اور نا ہی ویرینیا کی محبت حاصل کر سکے۔
سپارٹیکس کو در اصل شکست ہر گز نہیں ہوئی کیوں کہ اس نے تعمیرِ امید کی۔ ایک ایسی امید جس نے اس وقت کے غلاموں کی تو رہنمائی کی ہی لیکن اس نے ہر دور کے مظلوم اور محکوم لوگوں کو ایسا اعتماد بخشا کہ جس کی بنیاد پر وہ ہر ظالم سے لڑنے کو سینہ سپر رہے گا۔ طبعی موت اصل موت نہیں، کیوں کہ بہت سے مردہ معاشروں میں ایسے ظالم موجود ہوتے ہیں جو طبعی طور پر تو زندہ ہیں لیکن دراصل وہ مر چکے ہیں۔ لیکن سپارٹیکس زندہ رہے گا، جب تک ظلم رہے گا کیوں کہ ہر دور میں اور ہر معاشرے میں ظالم کے مخالف ایک سپارٹیکس پیدا ہوتا رہے گا۔ اور غلاموں کی جدوجہد کی تاریخ میں سپارٹیکس کا نام ہمیشہ چمکتا رہے گا۔