ہمارے معاشرے میں عورت کو ہمیشہ سے کم تر مخلوق سمجھا جاتا رہا ہے۔اتنی حقیر کہ جب چاہو چیونٹی کی طرح پاؤں تلے روند دو۔ یہی حال رضیہ کا تھا۔قصور بس اتنا کہ عورت کہ روپ میں اس بے حس دنیا کے چنگل میں پھنس گئی۔بچپن سے ہی مرد کو عورت ذات سے برتر پایا۔گھر میں جب بھی کچھ آتا تو اماں سب سے پہلے بیٹوں کو دیتیں۔ہر لحاظ سے اس کی باری بعد میں آتی کہ یہاں عورت کو ہمیشہ دوسرے درجے پہ رکھا جاتا ہے۔
عید پر بھائیوں کہ دودو جوڑے بنتے اور اس کو وہی پچھلی عید والا پہننا پڑتا۔اور دوسری چیزوں کی طرح عیدی بھی بھائیوں کی نسبت کم ملتی۔غرض اماں ابا اس کے ماں باپ کم اور اس کے بھائیوں کے زیادہ تھے۔لیکن صبر کیا کہ شائد خزاں رت بہار میں بدل ہی جائے۔لیکن اس خیال کی ڈالی ابھی تک ہری ہی ہے۔
اس نے ہمیشہ جو چاہا وہی نہ پاسکی۔وہ پڑھنا چاہتی تھی لیکن زمانہ جاہلیت کا اثر رکھنے والا یہ معاشرہ عورت کی تعلیم کو قبول نہیں کرتا۔یہاں عورت کی تعلیم کوگناہ سمجھا جاتا ہے۔عورت کی تعلیم اسے مجرم بنا دیتی ہے۔لیکن جاہل سوچ رکھنے والا مرد ہر سزا سے بازیاب رہتا ہے۔پڑھائی کے خواب کو چکنا چور کرکے اسے ہاتھوں سے چننے کا حکم صادر کردیا گیا تھا۔خوابوں کے ٹوٹے کانچ کو انگلیوں کی پوروں سے چننا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے یہ تو وہ جانتا ہے جس کے خواب قسمت کے پتھروں سے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔
بچپن میں وہ بانو اور سکینہ کے گھر جایا کرتی تھی۔وہاں وہ ان کی سنگت میں جو وقت بتایا کرتی تھی اس کے لیے وہ ہمیشہ ٹھہر جانے کی دعا کیا کرتی تھی۔لیکن آزادی کے یہ دن بھی چھین لیے گئے۔موسمِ بہار میں چہچہاتی اس چڑیا کے پر کاٹ کے اسے گھر کے قفس میں مقید کردیا گیا۔عورت کی آزادی کو بھی تو نہیں برداشت کرسکتا یہ سماج۔آزاد فضاؤں میں سانس لینا تو صرف مرد کا ہی حق سمجھا جاتا ہے۔بیس سال کی عمر میں گھر کے قفس سے نکال دیا گیا لیکن اس قید خانے کو بدلا گیا تھا۔پیا سنگ وہ سسرال آگئی۔جہاں اس نے باقی کی سزا کاٹنی تھی۔
شروع شروع میں سسرال والوں نے بہت عزت دی۔بہت مان دیا۔وہ سمجھتی تھی کہ وہ وقت آگیا ہے جسے خزاں کے بعد بہار کا نام دیا جاتا ہے۔جسے تپتے صحرا میں سایہ کرنے والا بادل سمجھا جاتا ہے۔بنجر زمیں پہ اگنے والا شائد کوئی سبزہ۔لیکن چاندنی بھی تو صرف چار دن ہی کی ہوتی ہے۔وقت گزرتا گیا اور محبت کی چاندنی دھیمی پڑتی گئی۔پہلے پہل تو شوہر بھی نخرے اٹھاتا اور ہر بات مانتا۔لیکن مرد کی محبت کا بھی کیا بھروسہ۔دنیا میں بہت کم مرد ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے دل میں عورت کے لیے محبت و عزت ہمیشہ کے ٹھہر جاتی ہے۔ورنہ زیادہ تو کا تو دل ہی کھلے برتن کی مانند ہوتا ہے۔ایسا برتن کہ جس کا صرف و صرف پیندہ ہی ہوتا ہے۔محبت صرف ابتدائی دنوں کے لیے قیام کرتی ہے اور پھر خواہش کے پورا ہونے کے بعد خیر آباد کہہ دیتی ہے۔
اب تو بے شک وہ سارا دن کاموں میں لگی رہے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔پرواہ تھی تو بس اتنی کہ سب کو اپنے کام وقت پر چاہیئے۔اورپرواہ ہو بھی کیسے سکتی تھی؟ وہ تو عورت ذات تھی۔ایک کٹھ پتلی تھی جس کی ڈور مرد کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے۔وہ جب چاہے جیسے چاہے جدھر چاہے ڈور کھینچ دے۔عورت کو تو بس ناچنا ہے ان اشاروں پہ۔چاہے زبردستی ہی سہی۔
شوہر کام کرتے ہیں اور کما کر بیوی کو کھلاتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ الٹے طریقے سے رائج ہے۔یہاں مرد کا پیٹ بھرنے کے لیے عورت کو باہر نکلنا پڑتا ہے۔رضیہ بھی یہی کرتی تھی۔اس کے غیرت مند مرد کی غیرت تب سو جاتی تھی جب وہ محنت و مزدوری کرنے گھر سے باہر نکلتی تھی لیکن اگر وہ ویسے ہی کسی مرد سے بات کرتی پکڑی جاتی بے شک وہ رشتے میں اس کا چچا زاد بھائی ہوتا۔تو وہ اس کے جسم کی تمام ہڈیا ں توڑ ڈالتا۔ہمارے ہاں مرد کی غیرت بھی عجب شے ہے،جب سونا چاہیے تب جاگ رہی ہوتی ہے اور جب جاگنا چاہیے تب گہری نیند کی چادر اوڑھ کو بے خبر سوئے رہتی ہے۔
حمل کے دوران بھی وہ لوگوں کے گھروں کا کام کیا کرتی تھی۔سارا دن کام کرتی اور شام کو کھانا اچھا نہ ملنے پر شوہر کے ہاتھوں خوب پٹتی۔چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اس کا شوہر آپے سے باہر ہوجاتا اور اس کے جسم پر نیل ڈال دیتا۔ایک اتنا غیرت مند مرد عورت پر ہاتھ اٹھانے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے؟یقین مانیے ایسے مرد صرف جنس میں ہی مرد کہلاتے ہیں۔مردانگی کا تو ان میں مادہ سرے سے پایا ہی نہیں جاتا۔
اللہ نے اس کی سن لی تھی۔اور ماشاء اللہ اس کے آنگن میں دوپھول کھل چکے تھے۔اب اس کی ذمہ داری بڑھ چکی تھی۔مگر اس کا عیاش شوہر اس کی تمام کمائی عیاشیوں میں اڑا دیتا اور وہ ہمیشہ کی طرح صرف آنسو پی کر ہی رہ جاتی۔اولاد کے آنے اسے اس کے سب رنج، سارے دکھ ساری تکلیفیں رفع ہوچکی تھیں۔وقت گزرتا گیا اور وہ اولاد کی خاطر سب کچھ برداشت کرتی گئی کہ ایک دن اس کے بیٹے اس کا مضبوط سہارا بنیں گے۔اب وقت آن پہنچا تھا کہ اس کے گھر میں بہوؤں کی صور میں بیٹیوں کے آنے کا۔بہوئیں گھر آگئیں اور رضیہ کے گھر سے جانے کو وقت آن پہچا۔سارے مان لمحوں میں چکنا چور ہے گئے تھے۔
یہ مرحلہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے ایک ماں کے لیے کہ وہ جن کے لیے اپنی ساری زندگی دکھوں کے گروی رکھوا دیتی ہے وہی بڑھاپے میں اس کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کردیتے ہیں۔سہارا دینے کی بجائے ہر بیساکھی توڑ دیتے ہیں۔والدین کو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔گھر کی چھت فراہم کرنے کی بجائے اولڈ ہاؤس چھوڑ آتے ہیں۔یہی رضیہ کی قسمت تھی۔عورت کی بھی کیا قسمت ہوتی ہے۔اپنا گھر ہونے کا باوجود وہ گھر پر اپنا حق نہیں رکھتی۔جب گھر کی ضرورت ہوتی ہے تب اولاد بے گھر کردیتی ہے۔
اولڈ ہاؤس کے دالان میں کھڑے ستون کے ساتھ بیٹھے وہ اکثر یہ سوچتی تھی کہ کاش وہ اپنی اولاد کو جنم نہ دیتی۔کاش وہ دو بھائیوں کی بہن نہ ہوتی۔کاش کہ وہ عورت نہ ہوتی۔