سائنس ،فرد کو اہمیت دیتے ہوئے بھی مرشد سازی کے دریا کے آگے بند بناتے رہنے کا کام جاری رکھتا ہے۔اکیسویں صدی کے اوائل کی تیسری دنیا ‘تنظیم اور پارٹی جیسے لازمی اور بنیادی عوامی اداروں سے تقریباً محروم کردی گئی ہے۔ اور اس پہ ایک ایسی جاگیردارانہ جمہوریت انڈیل دی گئی ہے جس میں پورا معاشرہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آزادانہ منافع کاری کی باندی بن چکا ہے ۔یہ دنیا اب پیسہ بٹورنے کیلئے گلا کاٹنے والا مقابلے کا میدان بن چکی ہے ۔ وار لارڈز‘ انتظامیہ ‘عدلیہ اور مقننہ مکمل طور پر بڑے وارلارڈ زکی چاکری اور قبضہ میں چلے گئے ہیں۔ اور ایک ایسا سیاہ پس منظر قائم ہوگیا ہے جہاں آس پاس اور خود بلوچستان کے اندر عمومی پسپائی‘مایوسی ‘بدامنی‘اجداد پرستی ،بد ہیئتی، مکر، کینہ، پستی، مستی، سُستی، بے شرفی، شکست خوردگی، ناامیدی ، سنگین تنہائی، اورمردم آزاری کا پرچم سربلند ہے ۔ تقریباً سارے کے ساے دانشور اسی فضاکی آبیاری میں بقا دیکھ رہے ہیں ۔سٹیٹس کو والی ایک ہی قوت کے دو حصے ہو کر آپس میں غرّانے کے جاری عمل میں عوامی قوتیں بھی شامل ہوچکی ہیں۔
سماج کے بنیادی داخلی تضادات پر مباحث موقوف ہوچکے ہیں ، بلوچستان میں زرعی اور چرواہی معیشت اور اس سے وابستہ اکثریتی آبادی نصاب بدرکیے جاچکے ہیں۔ پوشاک بدل بدل کر ضیائی فلسفہ کودوام بخشا جارہا ہے۔ اور بلوچستان کوصنعتی سمت پکڑنے کی آرزو اور کوششوں کو نظریہِ پاکستان ، ملاّ ایکسپورٹنگ، خندقوں،چٹانوں،غل غپاڑے،اوردھند و کہر سے دو چار کردیاگیا ہے ۔ تمدنی مراکز اندھیارے کی عبرت گاہیں بنے ہوئے ہیں۔
اس پس منظر کے باوجود نوجوان نسل کو روشن فکری ،آدم دوستی ،عالمگیر محبت اور سماجی انصاف کا متبادل دکھانے کی امیدیں ختم ہوئیں ،نہ کاوشیں۔ کہ یہ قافلہ مضمحل و منتشر تو ہے مکمل معدوم نہیں ہے۔قافلے مدہم ہوتے ہیں معدوم کبھی نہیں ہوتے۔گوکہ اس قافلے کا حوصلہ بڑھانے‘اسے’’شاباش ،شاباش‘‘ کہنے اور ہمت کرو آگے بڑھو‘ چلاّنے والا سی آر اسلم لاہور کو ویران کرگیا ہے ‘ژوب میں سلیازی کا بلند اولمپیائی لیمپ بھی گُل ہو چکا،کرم خان روڈ کا خدائیداد اپنی کلینک بند کرچکا ، کرم خان روڈ کا خدائیداد اپنی کلینک بند کرچکامگرسریاب میں فیض آباد پہ طویل عمری کے نیم شل اعضا کے ساتھ ایک پرومیتھیئس ابھی مشعل تھامے موجود تھا‘ زندہ تھا، دم غنیمت تھا ۔ یہ شخص ہماری تحریک کی غلطیوں بھرے دیروز ، از سرنو جائز وں اور صف بندیوں پہ مامورامروز‘ اور اس تحریک کی واضح سمتوں پہ وقار کے ساتھ چلنے والے فردا ،کے بیچ ربط تھا۔ یہ ربط ہمیں بہت عزیز تھا کہ ہماری اپنی شناخت نصف صدی سے اِسی کارواں سے ہے۔۔۔۔۔۔ بلوچستان میں اس ربط کے کارواں کا سربراہ عبداللہ جان جمالدینی تھا۔۔۔۔۔۔ جو ابھی ستمبر2016 کو انتقال کرگیا۔
ٹالسٹائی کے ناو ل’’وار اینڈ پیس‘‘ کے سمجھنے میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس ناول میں کردار وں کی تعداد 500 ہے۔بلکہ ہر ایک کردار کے نام کے تین تین چارچار حصے ہیں ۔ ناول نگارکہیں ایک نام استعمال کررہا ہوتاہے توکہیں دوسرا ۔ یہی کنفیوژن اس ناول کو دوتین باربڑھنے پہ مجبورکرتا ہے ۔ جب میں نے یہ شکایت سی آراسلم سے کی تھی تو اس نے بتا یاتھاکہ خوداس نے یہ ناول نوبار پڑھا، تبھی جاکر وہ اس سے مکمل طور محظوظ ہوسکا تھا۔اُس کا انکشاف تھا کہ فیض صاحب کویہ کتاب جیل میں تیرہ بار پڑھنی پڑی تھی۔ سی آر اسلم صاحب نے مجھے اس کاحل یہ بتایاکہ ناول کے سارے کیر یکٹر زکے پورے ناموں کی ایک فہرست بنا ؤں اورناول پڑھتے وقت سامنے رکھوں تاکہ نام کاجوبھی حصہ استعمال ہو،اسے پہچاناجاسکے۔
ہمارے ممدوح عبداللہ جان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔اُس کا نام والدین نے عبداللہ رکھا تھا۔ عبداللہ سے وہ عبداللہ جان ہوا اور پھر میر عبداللہ جان ۔اِس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے نام ہیں۔ اس کا کاایک نام’’ میر صاحب ‘‘ہے۔ یہ بلوچوں میں بڑائی ،بزرگی اور احترام کی علامت ہوتا ہے ۔ بے تکلف دوست اُسے صرف’’عبداللہ جان‘‘پکارتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ’’جمالد ینی صاحب‘‘ کہتے ہیں۔
اُس کاایک نام البتہ اوربھی ہے: ’’ماما‘‘۔ ہوا یوں کہ جب میں پنجاب یونیورسٹی میں پوسٹ گریجوئیشن کررہا تھاتواُس سے خط و کتابت شروع ہوئی تھی۔میں اُسے کبھی میرصاحب لکھتا، کبھی جمالد ینی صاحب، کبھی پر وفیسر صاحب اورکبھی کبھی پورانام یعنی میر عبداللہ جمالدینی لکھتا۔ مگر وہ اپنے ہر خط کے آخرمیں ’’ تئی ماما ‘‘(تمھارا ماما)لکھتا۔
لفظ’’ماما‘‘ بلوچوں میں بہت محترم گرداناجاتاہے ۔یہاں ہرشناسااور ناشناس بزرگ کو ’’ماما‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔بڑی عمر کے لوگوں کو چھوٹے ،اسی رشتے سے مخاطب کرتے ہیں ۔مجھے میر صاحب کے اس لفظ میں بے پناہ اپنا ئیت محسوس ہوئی لہٰذامیں نے اسے اسی نام سے مخاطب کرناشروع کردیا۔۔۔۔۔۔ ’’ماما‘‘۔جومقبول ہوتے ہوتے آٹھ دس سال کے اندر اتنا عام ہوا کہ پھر یہ ہر شخص کی زبان پر چڑھ گیا ۔ حتی کہ اس کے ہم عمر بھی ہم سے اس کی طبیعت پوچھتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ ماماکاکیاحال ہے ؟‘‘
گو کہ اس کے پاس نئے آنے والے لوگ اس کی خدمات ،بڑائی اور بزرگ سنی دیکھ کراسے ’’بابا‘‘بھی پکارتے، مگر کچھ ہی دنوں بعد وہ بھی ’’ماما‘‘ بولنے لگتے ۔بلوچستان میں’’بابا‘‘توصرف میرغوث بخش بزنجوکے لیے مخصوص ہے ۔بالکل اسی طرح جس طرح لفظ ’’بابو‘‘ صرف عبدالکریم شورش کی پہچان ہے۔
ماما کی والدہ صاحبہ لفظ عبداللہ کو بہت زیادہ میٹھا بنا کر ’’عبدَکو‘‘ کہتی تھی ۔اور جب ممتا کاپیار مزید جوش مارتا تو وہ اسے عبدَکو سے ’’عبدَکو جان‘‘ کہنے لگتی ۔ اس کے تایا ،خان بہادر شکر خان کے تئیں وہ ہمیشہ ’’بزگر ئے زھگ‘‘(کسان کے بیٹے) رہا ۔ وہ اسے دور سے بلا کر کہتا :
’’بزگر ئے زھگ ! بگّوئے بہ جن من ترا شاہی اے دیاں‘‘(کسان کے بیٹے ایک بگو(گلے کو آلہ موسیقی بنا کر دھن پیدا کرنا) (2)گاؤ میں تمہیں ایک دونی دوں گا )۔
اور جب ماما بگّو(بغو) گاتا اور دو نّی وصول کرتا تو ساتھ بیٹھے ہوئے اس کا والد اسے سخت ملامت کرتا کہ:
’’پیسہ لے کر گاتے ہو!!‘‘۔
بلوچوں میں رشتو ں کانام لے کر نہیں پکارا جاتا بلکہ ہم رشتے کے احترام میں دیا گیا لفظ بولتے ہیں ۔ مثلاً والد کو ’’ابّا‘‘، والدہ کو ’’آئی‘‘ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ مگر نوشکی والے ایسا نہیں کرتے۔مثلاًاگروالد کھیتوں پہ گیا ہو توہم باقی سارے بلوچ کہیں گے ’’ ابا کھیتوں پہ گیا ہے ‘‘ ۔ مگرنوشکی والے بلوچ انگریزوں کی طرح ڈائریکٹ Fatherاستعمال کرتے ہیں ۔’’ پث آفے لوٹی ‘‘(باپ پانی مانگتاہے )۔یعنی ’’اباّ‘‘ پانی مانگتا ہے کے بجائے ’’باپ ‘‘پانی مانگتاہے ۔لہذاماماکی اولاد اُسے ’’پث‘‘ ہی بولتی ہے ۔نوشکی اوراس سے ملحقہ افغانستان اورایران کے بلوچ علاقوں میں یہی دستور مروج ہے ۔
نوشکی کے بلوچوں میں ایک اور خاصیت بھی ایسی ہے جو دیگر بلوچوں میں موجود نہیں ہے۔ وہ لوگ اپنی پیاری شخصیت کے نام کے بعد لفظ ’’جان ‘‘ لگادیتے ہیں ۔اور وہ یہ لاحقہ بلا امتیازِ صنف اورعمر کے استعمال کرتے ہیں۔ یہ لفظ وقارکے اظہار کا ذریعہ بھی ہوتاہے اوربے پناہ اپنا ئیت کامظہربھی ۔عبداللہ کے ساتھ ’’جان ‘‘ اسی لیے تولگاتے ہیں ۔نوشکی کے بلوچ حتیٰ کہ ’’ خدا‘‘ کے لئے بھی ’’خدا جان‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ خدا سے اس قدر پیار اور اپنائیت میں نے کسی اور زبان میں نہیں دیکھی۔ مکران کے لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ مگر وہ ’’ جان ‘‘ نہیں ’’ واجہ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ وہ لوگ نام کے بعد ’’ واجہ‘‘ لگانے کے بجائے نام سے پہلے ’’ واجہ‘‘ لگاتے ہیں۔ وہاں ’’ جناب‘‘ کے لئے مستعمل لفظ ’’ واجہ‘‘ خدا کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں :واجہ خدا (جنابِ خدا)۔
البتہ مشرقی بلوچی میں ’’ واژہ‘‘ صرف سردار کے لیے استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی بہت ہی غلامانہ ذہنیت کے لوگوں کی طرف سے ۔ وہاں واژہ ’’ آقا‘‘ کے معنوں میں لیا جاتا ہے جو صرف دوسرے درجے کے شہری استعمال کرتے ہیں۔ کسی انسان کے لیے ’’ واژہ‘‘ کا استعمال فیوڈلزم سے پہلے کے سماج میں قطعاً نہیں ہوتا۔
ماماکی رفیقہِ حیات بلوچی روایات کے مطابق اُسے نام لے کرنہیں پکارتی تھی ، اورنہ ہی اپنی طرف سے دیئے گئے پیار کے کسی اورنام سے پکارتی تھی ۔بلکہ وہ ساری بلوچ بیویوں کی طرح اپنے خاوند کو اپنی اولاد میں سب سے بڑی اولاد کے باپ کے بطور پکارتی تھی ۔ مامی ،ماما کو ’’ نورجہانئے پث‘‘ (نورجہاں کے ابا)کے نام سے مخاطب کرتی تھی۔ نورجہاں ماماکی سب سے بڑی اولاد ہے۔