بابائے بلوچی کہلانے والے بلوچستان کے ممتاز صاحبِ طرز ادیب، ترقی پسند مفکر ، خرد افروز معلم ومحقق اور انتھک مساعی پسند عبداللہ جان جمالدینی کے بارے میں یہ روایتی جملہ کہ ’’ وہ 19ستمبرکو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے ہیں اور ان کی وفات سے پیدا ہونے والاخلا کبھی پْر نہ ہو سکے گا۔‘‘ ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ کیونکہ موت کا بھاری پتھران جیسی شخصیات کے فکر وعمل ، ان کے کیے ہوئے کام اور آدرشوں کو گزند پہنچانے سے قاصر ہی رہتا ہے۔ البتہ یہ ستم ظریفی اپنی جگہ کہ اتنی بڑی ادبی وسیاسی فکر کی حامل شخصیت کی رحلت کی خبر کو میڈیا پر وہ توجہ نہ مل سکی جس کے وہ بجا طور پر حقدار تھے۔لیکن طبقات کی دنیا پر واردعبداللہ جان جمالدینی بھلا ان باتوں کی پرواہ ہی کب کرتے تھے۔
عبداللہ جان جمالدینی 8مئی 1922کو بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوشکی میں پیدا ہوئے۔کیا ماہ وسال ہے۔ مئی کا مہینہ جس سے یکم مئی 1886کے شکاگوکے بانکے مزدوروں کی یاد وابستہ ہے۔سرمائے پر محنت کی غیر مختتم فتح کی نوید کا دن۔ وہی مئی جب 1944میں سوویت جانبازوں کے ہاتھوں ہٹلر کی فسطائیت شکست فاش سے دوچار ہوئی اور اس کی سطوت کی علامت ریشتاغ پر درانتی اور ہتھوڑے سے مزین سرخ پرچم لہرایا گیا۔اور پھر 1922کا سال ! سوویت یونین کی تشکیل کا سال ، اس خواب کی تعبیر کے مجسم ہونے کا سال جو ہر طبقاتی سماج میں دیکھا گیا ، اس کے لیے جدوجہد کی گئی۔ایک طرف سرکاٹنے کی رسم دہرائی گئی تو دوسری جانب سربریدہ تنوں پر نئے سر اگانے کا ہنر آزمایا گیا۔سپارٹیکس ، مانی ، مزدک ، صوفی شاہ عنایت ، بے شمار نام ان گنت تحریکیں۔
جدید بلوچی ادب پر عبداللہ جان جمالدینی نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انھوں نے فکرو شعور کی نت نئی راہوں کا تعین کرتے ہوئے ایسے رحجانات متعارف کرائے جن کے باعث بے شمار اذہان سے جہل وتعصب کے جالے صاف ہوئے۔انھوں نے بابائے سندھ کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی طرح نائب تحصیل دار کے منصب کو اپنے مقصد کی راہ میں رکاوٹ جانا اور اس سے دستبردار ہو کرسائیں کمال خان شیرانی ، ڈاکٹر خدائیداد ، بہادر خان جیسے متعدد صاحبان فکر ونظرہمکاروں کے ہمراہ ’ لٹ خانہ تحریک‘کا پودا لگایا اور اسے ایک ثمر آور درخت میں ڈھلتے دیکھا۔وہ گزشتہ ربع صدی سے ’بلوچستان سنڈے پارٹی ‘ کے نام سے جاری ان ہفتہ وار فکری نشستوں کے روحِ رواں تھے جس میں بلوچستان کے نامور ادیبوں، شاعروں، دانشوروں ،تعلیمی وسماجی امور کے ماہرین سے لے کر طالب علموں تک کوئی بھی شریک ہو سکتا ہے۔ لٹ خانہ، مرگ ومینا ، لینن کی کتاب ’’ دیہات کے غریب‘‘، بلوچستان میں سرداری قبائلی نظام کا پس منظر‘ اور شمع فروزاں سے لیکر ماہتاک ’’سنگت ‘‘تک عبداللہ جان جمالدینی کا کیا ہوا بے شمارکام خوابوں کے رنگین اور پر تعیش شیش محل کی دین نہیں بلکہ سنگین حقائق زاروں میں کڑی تپسیا، علمی تیقن اور محنت کار انسانوں سے اٹوٹ بندھن کا نتیجہ ہے۔
عبداللہ جان جمالدینی وطن پرستی کے ایک ایسے استعارے کا نام ہے جو اپنی قوم ،اپنی زبان کی طرح دوسری قوموں اور زبانوں سے بھی اتنی ہی محبت کرتے تھے۔ ان کی مساعی سے بلوچستان میں قائم ہونے والی پہلی یونیورسٹی میں بلوچی شعبے کا سنگِ بنیاد رکھا گیاتو وہیں براہوی شعبے کا قیام بھی انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔
انھوں نے 94سال میں بہت کچھ دیکھا۔ حزن اور مسرت کے بہت سارے لمحات۔ شہزداہ عبدالکریم اور ان کے ساتھیوں کاپابندِ سلاسل کیے جانا ، نوروز خان کو مصالحت کے نام پر پہاڑوں سے اتار کر ساتھیوں سمیت حوالہ زنداں کرنا ،ان کے بیٹوں کا سکھر و حیدر آباد جیل میں زینتِ دار بننا ۔ بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشن، اپنے وطن کے بیٹوں کی پاگزیدہ متورم لاشیں ، جبری گمشدگیاں۔
لیکن یہ تمام مناظر انھیں فسطائیت اور نسل پرستی کا ہمنوا نہیں بنا سکے۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ مشرقی یورپ میں محنت کاروں کا جشن فتح ، چیئرمین ماؤ زے تنگ کی قیادت میں گراں خواب چینیوں کا سنبھلنا ، کم ال سنگ ، ہوچی من،، کاسترو اور نور محمد ترہ کئی جیسے انقلابیوں کی فتح یابی، ایشیا سے جنوبی امریکا اور افریقہ تک صبح پرستوں کی عظیم کامرانیاں جس کے شعور کا حصہ ہواس کے شانوں پر ایک طرف اپنی مظلوم قوم کا بوجھ تو دوسری جانب محنت کش طبقہ ہی براجمان نظر آئے گا۔یہی ان کا سب سے بڑا وصف تھا۔
عبداللہ جان جمالدینی نے صرف ادب کی کاکلیں ہی نہیں سنواریں بلکہ وہ بابائے بلوچستان غوث بخش بزنجو کے کارواں کا حصہ رہے۔
بلوچستان جہاں قبائلی سردار سیاست کے ہر رخ پر چھائے ہوئے ہیں ،جہاں ریاستی جبر ہے،جہا ں امریکا وچین سے لے کر ایران ، سعودی عرب اور انڈیا تک کی پراکسی جنگیں ہیں اور ترقی کے نام پر وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہے وہاں عقل وخرد کی بات کرنا اور اپنا تاریخی کردار ادا کرنا عبداللہ جان جمالدینی جیسے بڑے انسانوں ہی کا کام ہے۔ وہی تاریخی کردار جوسامراجیت ،سرمایہ داری، جاگیراداری ،مذہبی انتہا پسندی اور نسل پرستی کے خلاف ترقی پسندی ،خرد افروزی اور بشر دوستی کی عظیم علامت ہے۔
عبداللہ جان جمالدینی ایک خاموش سپاہی تھے جنھیں انقلابی نظریات پر، اس کی فتح پر غیر متزلزل یقین تھا اور وہ آخر دم تک ثابت قدم رہے۔1991میں اشتراکی حکومتوں کے خاتمے کے بعد جب بڑے بڑے ’’ سند یافتہ انقلابی راہنما ، دانشور اور شاعر‘‘ اسے امن کی نوید قرار دے رہے تھے ، مغرب سے نئی کرنوں کے ظہور کی پیشن گوئیاں کر رہے تھے ، مارکسزم ،لینن ازم سے توبہ تائب ہو رہے تھے ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں کی نمائندہ جماعتوں کی حلقہ بگوشی اختیار کر رہے تھے ، خانقاہوں میں پناہ ڈھونڈرہے تھے ، ٹیلی ویڑن پر آ کرخوابوں کی تعبیریں بیان کر رہے تھے اور شاعری کو سجدہ کراتے ہوئے مارکس کی داڑھی اور لینن کے کوٹ سے الجھ رہے تھے ، اس وقت بھی عبداللہ جان جمالدینی کو محنت کش عوام پر ، ترقی پسند انسانیت پر اور اس کے آدرش کی فتح پر یقین تھا۔
دنیا کی سب سے بڑی سچائی پران کا یہ ایقان زندہ رہے گا۔ عبداللہ جمالدینی زندہ رہیں گے۔ان کا لٹ خانہ زندہ رہے گا ، سنگت زندہ رہے گا،سنڈے پارٹی زندہ رہے گی اور ان کے فکروعمل سے جلا پانے والے ان کے شاگرد اپنا تاریخی کردار ادا کرتے رہیں گے۔کیوں کہ ترقی پسند انسانیت زندہ رہے گی ، دھرتی پر انسانوں کے ایک جیسے اختیار کی جدوجہد زندہ رہے گی ، دنیا بھر کے محنت کش عوام زندہ رہیں گے پھر عبداللہ جان جمالدینی کیونکر مر سکتے ہیں ؟۔وہ تو اس وقت بھی زندہ رہیں گے جب کرہ ارض کے باشندے انصاف و مساوات کی آخری جنگ میں فتح یاب ہو ں گے ، جب فرد کے ہاتھوں فرد کا استحصال ، قومی جبر ، سامراجیت، سرمایہ داری ، جاگیر داری ، مذہبی انتہا پسندی اور نسل پرستی کے عفریت تاریخ کے تاریک گڑھوں میں اوندھے منہ سسکتے ہوئے دم توڑ چکے ہوں گے اور فتح کے اس جشن میں عبداللہ جان جمالدینی کے بلوچ بھی گل خان نصیر کے لافانی اشعار پر جھوم رہے ہوں گے۔