نوجوان موسیقار دھیرے دھیرے بول رہا تھا اور اس کی سیاہ آ نکھیں کہیں دور خلا کو تک رہی تھیں۔ ’’ایسی ہے وہ موسیقی جس کی میں تخلیق کر نا چاہتا ہوں ‘‘ اس نے کہا ۔
’’ایک لڑکا آ ہستہ آ ہستہ ایک بڑے شہر کی طرف جانے والی سڑک پر چل رہا ہے۔
شہر اپنی بھاری بھاری پتھریلی عمارتوں سمیت دھرتی سے لپٹا ہوا لیٹا ہے اور کراہ رہا ہے۔ دور سے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اس میں ابھی ابھی آ گ لگی ہو کیونکہ شفق شام کے خون کی طرح سرخ شعلے ابھی تک اس کے اوپر لپک رہے ہیں اور اس کے گرجا گھروں کی صلیبوں اور اس کے اونچے میناروں اور بادنما سب پر ایک دھکتی ہوئی جوت چھائی ہوئی ہے۔
’’سیاہ بادلوں کے کناروں میں بھی آ گ لگی ہوئی معلوم ہو رہی ہے۔ وسیع و عریض عمارتوں کے گوشے دار حصے آ سمان کے سرخ ٹکڑوں کے پس منظر میں سخت اور بد شکل دکھائی دے رہے ہیں اور کہیں کہیں کھڑکیوں کے شیشے کھلے ہوئے زخموں کی طرح چمک رہے ہیں ۔ وہ مسمار اور کرب آ شنا شہر ، خوشی اور مسرت کے لئے ایک مسلسل جدوجہد کا مقام، اپنا خون دل بہاتا ہوا معلوم ہو رہا ہے اور اس میں سے ایک گرم گرم ، زردی مائل دم گھونٹ دینے والا دھواں نکل رہا ہے۔
’’لڑکا شام کے جھٹ پٹے میں اس سڑک کی مٹیالی پٹی پر چلا جا رہا ہے جو سیدھی ، تلوار کی مانند ، شہر کی پسلی میں گھسی ہوئی ہے، اور لڑکے کو گویا کوئی غیر مرئی ، عظیم ہاتھ راستہ دکھا رہا ہے۔ سڑک کے دونوں جانب درخت بے جلی مشعلوں کی طرح استادہ ہیں اور پر سکون اور کسی چیز کی منتظر دھرتی کے اوپر ان کے بڑے بڑے سیاہ تنے اور ڈالیں بے حس و حرکت ہیں ۔
’’آ سمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں ، ایک بھی ستارہ نظر نہیں آ رہا ہے اور نہ ہی کوئی پر چھائیں پڑ رہی ہے۔ رات میں تبدیل ہوتی ہوئی شام خاموش اور افسردہ ہے اور خوابیدہ کھیتوں کے تھکے تھکے سکوت میں صرف لڑکے کے دھیرے اور ہلکے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے اور وہ بھی بہت خفیف سی۔
’’ رات بے آواز طریقے سے لڑکے کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے اور ان دور دراز فاصلوں کو جہاں سے وہ آ یا ہے فرامو شی کے سیاہ لبادے میں چھپاتی جا رہی ہے۔
’’بڑھتا ہوا دھندلکا خود سپردگی کے ساتھ زمین سے لپٹے ہوئے لال اور سفید مکانوں کو باغوں کو، درختوں کو اور پہاڑیوں پر ویران اداسی سے بکھری ہوئی چمنیوں کو اپنی گرم آ غوش میں لپیٹ رہا ہے۔ ہر چیز پر اندھیرا چھا رہا ہے اور وہ رات کی تاریکی سے مغلوب ہو کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے گویاا س ہاتھ میں ڈنڈا لئے ہوئے چھوٹے سے پیکر سے ڈر کر چھپ رہی ہو یا پھر اس سے آ نکھ مچولی کھیل رہی ہو۔
’’وہ، ایک پیکر تنہائی ، خاموشی سے، اپنی اسی دھیمی رفتار کے ساتھ خراماں خراماں چلا جا رہا ہے اور شہر کے لئے ، جہاں نیلی پیلی اور لال روشنیاں ابھی سے اس کے خیر مقدم میں ٹمٹمانے ٹمٹانے لگی ہیں ، کوئی بہت ہی اہم اور ضروری اور ایسی خبر لے کر آ رہا ہے جس کا شہر کے مکین عرصے سے انتظار کر رہے تھے۔
’’سورج ڈوب چکا ہے، صلیبیں ، بادنما او ر مینار پگھل کر غائب ہو گئے ہیں ۔ اب شہر کچھ سکڑا ہوا اور پہلے سے چھوٹا اور خاموش دھرتی کے سینے سے کچھ اور بھی زیادہ زور سے چمٹا ہوا معلوم ہو رہا ہے ۔
’’ اس کے اوپر ایک دودھیا سا بادل نمودار ہو گیا اور ایک دوسرے سے چمٹی ہوئی عمارتوں کے بھورے بھورے جال پر ایک زردی مائل، کہر پھیل گیا ہے جس میں سے ہلکی ہلکی جوت نکل رہی ہے۔ اب شہر آ گ کی غارت گری کا شکار اور خون میں ڈوبا ہوا نہیں معلوم ہو رہاہے، اب اس کی چھتوں اور دیواروں کے ناہموار خطوط میں کوئی پر اسرار اور نامکمل سی بات معلوم ہو رہی ہے جیسے وہ شخص جس نے انسانوں کے رہنے کے لئے یہ عظیم الشان شہر بنانا شروع کیا تھا تھک کر آ رام کر نے کے لئے چلا گیا ہو یا پھر اپنے شروع کئے ہوئے کام کو اپنی توقع کے مطابق نہ پا کر کہیں چلا گیا ہو،یا اپنا یقین کھو بیٹھا ہو اور ۔۔۔۔۔۔مر گیا ہو۔
’’اور شہر زندہ ہے اور اپنے آ پ کو غرور ذات اور حسن و جمال کے ساتھ سورج کی جانب پہنچا ہوا دیکھنے کی جاں سوز آ رزو اسے بے تاب کئے ہوئے ہے۔ وہ مسرت کی بے کراں آ رزو کے سر سام میں مبتلا بر ی طرح کراہ رہا ہے۔ ایک پر جوش عزم زندگی نے اس میں ایک ہیجان اور اضطراب پیدا کر رکھا ہے اورا س کے اردگرد کے کھیتوں کی تاریک خاموشی میں دبی دبی آ وازوں کے نرم رو دھارے بہہ رہے ہیں اور اس عرصے میں آ سمان کے سیاہ پیالے پر ایک مدھم اور محزوں سی روشنی زیادہ سے زیادہ پھیلتی جا رہی ہے۔
’’لڑکا رک جاتا ہے ، سر پیچھے ڈالتا ہے اور اپنے ابرو اوپر چڑھا کر اپنی پر سکون اور پرہمت نگاہوں سے سامنے کی طرف دیکھتا ہے اور پھر اپنی رفتار تیز کر دیتا ہے۔
’’اور رات اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی ایک ماں کی سی محبت بھری آ واز میں کہتی ہے:
’’بچے ، وقت ہو گیا ، جاؤ ! لوگ تمہارا نتظار کر رہے ہیں !‘‘
’’۔۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسی موسیقی کی تخلیق کرنا نا ممکن ہے۔‘‘ آ خر کار نوجوان موسیقار نے غور و فکر سے ایک پر مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
پھر کچھ دیر خاموش رہ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے کے اندر کس لئے اور محبت اور فکر مندی کے ساتھ دھیرے سے کہہ اٹھا :
’’مقدس کنواری مریم! اسے وہاں کیا ملے گا ؟‘‘
//////////
آخر اُسے نیند آہی گئی
منوج کمار؍ ننگرچنا
وہ مزدوری کے انتظار میں چوک میں آکر بیٹھ گیا۔ حالانکہ ابھی صبح کے آٹھ بجے تھے، لیکن سورج اپنی پوری آب و تاب اور جبرکے ساتھ کھڑاتھا۔ وہ کل بھی پورادن ایسی شدید گرمی اور دھوپ میں بیٹھ کر بغیر کسی مزدوری ملنے کے گھرلوٹ گیاتھا۔اسے گھر پہنچنے پر سرکو چکرآنے لگے ، پورے بدن میں شدید تھکن کے مارے پِیڑاور دل ڈوبتا محسوس ہوا۔آج جب وہ مزدوری کے لیے گھر سے نکلا تواس کی بیوی نے اسے گھر بیٹھ کر آرام کرنے کا کہا، لیکن وہ اپنی بیوی اور بچوں کے چہرے پر بھوک کے آثاردیکھ کر بغیرکچھ بتائے چوک پر آکربیٹھ گیاتھا۔
اُسے مزدوری کے لیے چوک پر بیٹھتے ہوئے تقریباََ ایک مہینہ ہوچکاتھا۔وہ کچھ ماہ پہلے جب رزق کی تلاش میں گاؤں سے شہرآیاتھا، تب اس نے ابتدا میں ایک ٹھیکہ دار کے ہاں کام کرنا شروع کیا تھا۔ ٹھیکہ دار پہلے پہل تو اسے بروقت ادائیگی کردیتا، لیکن بعدمیں پیسے کم دیتا تھا، یوں اس کی کافی رقم ٹھیکہ دار کے پاس رہتی چلی گئی۔جب دو ماہ کی رقم رہ گئی تب اس کی ٹھیکہ دار کے ساتھ اِس معاملہ پر تُوتُو میں میں ہوگئی اور ٹھیکہ دار نے اُس پر چوری کا الزام لگاکر کام سے نکال باہرکیااور اُس کی بقیہ رقم دینے سے بھی انکارکردیا۔ اجنبی شہرمیں کوئی مددگارنہ ہونے کی بناپروہ بھی بغیر کچھ کہے اور کیے چلاآیا۔کوئی اور ٹھیکہ دار بھی اُسے کام پر رکھنے کے لیے راضی نہ تھا۔ وہ اب مجبوراََ چوک پر آتا، جہاں سے لوگ اُسے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کی مزدوری کے لیے لے جاتے۔ کبھی کبھی اُسے روزانہ کوئی نہ کوئی کام مل جاتا تو کبھی کبھی دودو تین تین دنوں تک خالی ہاتھ لوٹ آتا- اور وہ پورادن بیٹھ بیٹھ کر گھر چلا جاتا۔ اُن دنوں بھوک اُس کے گھر مہمان ہوتی۔ گزشتہ دو دن بھی ایسے ہی تھے۔
آج وہ جب دوسرے مزدوروں کے ساتھ چوک میں بیٹھا تو اُسے گرمی اور بھی شدید محسوس ہوئی۔ دھوپ کی تپش صبح سے ہی زوروں پر تھی۔ اُسے یہ امیدبھی کم تھی کہ کوئی مزدوری بھی ملے گی۔
’’ ایسی گرمی میں کون اپنے گھرسے نکل کر مجھے مزدوری کے لیے لے جائے گا؟‘‘ اُس نے سوچا۔ لیکن وہ اِس ناامیدی کے باوجودایک امید کے ساتھ چوک میں آکر بیٹھ گیا۔ اُس کے وہاں بیٹھنے کی کچھ دیر کے بعد ہی گرمی نے اپنا زوردکھانا شروع کردیا۔ وہ عموماََ گرمی سردی کو خاطر میں ہی نہیں لاتاتھا۔ اُس نے پوری زندگی کی محنت و مشقت میں ہرقسم کا موسم برداشت کیاتھا۔ اُس کے محنت کش جسم کے لیے یہ لُو اور تپش کوئی نئی چیز نہ تھے، لیکن اُسے محسوس ہوا کہ آج کی گرمی کچھ اور قسم کی ہے۔اُسے یہ گرمی اپنے بدن پر کسی بھاری چیز کی طرح محسوس ہورہی تھی۔ یہ گرمی اُسے اپنے سرپر کسی بھاری بوری کی طرح لگ رہی تھی۔ اُسے لگا کہ یہ گرمی اُس کے سامنے کوئی جسمانی صورت لے کر آئی ہے اور وہ گرمی کو چھُو سکتاہے۔ اُس نے سوچا کہ وہ گرمی کے ِ اس پردے کو ہاتھ بڑھاکر سامنے سے ہٹادے، لیکن وہ ایساکرنہ سکا۔ اس کا پسینہ بہنے لگا اور حلق خشک ہونے لگا۔ اُس کی بیوی نے پڑوسیوں سے برف لے کر اسے ٹھنڈے پانی کی بوتل دے دی تھی، لیکن یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس بوتل کی ٹھنڈک ختم ہوچکی تھی۔ اُس نے وہ بوتل ہونٹوں پر رکھی اور ایک ہی بار میں پوری ختم کرگیا۔ پانی پیتے ہی اُس کے جسم میں کچھ توانائی لوٹ آئی، لیکن اُسے لگا کہ اُس نے جتنا پانی پیا ہے ، اس سے دوگنا پسینہ اُس کے روم روم سے بہہ رہاہے۔ کچھ دیر کے بعداسے پھر پانی کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اب اُس کے پاس پانی ختم ہوچکاتھا۔
اُس نے سامنے دیکھاتو دُکان میں کام کرنے والا ایک لڑکا کُولرمیں برف ڈال کر دُکان میں رکھ رہاتھا۔ اُس کے دل میں آیا کہ جاکر دُکان دار سے پانی مانگے۔ لیکن اُسے یاد آیاکہ گزشتہ دن اِسی دُکان دار نے اِس کے ساتھ بیٹھے مزدورکو پانی دینے سے انکار کر دیا اور ڈانٹ کر دُکان سے اتاردیاتھا۔ متوقع ذلّت کے احساس نے اُسے دُکان کی طرف جانے نہیں دیااور وہ جہاں تھا وہیں بیٹھارہا۔ اُسے یہ خدشہ بھی تھا کہ اگر وہ وہاں سے تھوڑی دیر کے لیے بھی اٹھا تو شاید کوئی کام آجائے اور اس کی غیرموجودگی میں وہ کام کسی اور کو مل جائے۔ ایک دن اور فاقہ کاٹنے کے خوف نے اُسے اپنی جگہ پر بٹھادیا۔ شدید گرمی اور پیاس کا احساس اُس کی طبیعت کو مزید خراب کررہاتھا۔
چوک میں اُس کے ساتھ بیٹھے دودیگرمزدورآپس میں گفتگو کررہے تھے۔ وہ اُن کی باتیں سننے لگا۔
’’ اِس سال شہرمیں گرمی بڑے زوروں پر ہے۔‘‘ ایک نے کہا۔
’’ ہم بھی برسوں سے یہاں رہ رہے ہیں، لیکن ایسی گرمی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی !‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’ کہتے ہیں امریکہ نے بم گرائے ہیں تا کہ اِس ملک کے لوگ گرمی سے مرجائیں۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ امریکہ والوں نے ہمارے ملک کے بادل بھی اپنے پاس روک لیے ہیں۔‘‘ پہلے نے کہا۔
’’ نا رے ، بھیا ! یہ انسانوں کے گناہ ہیں جن کی وجہ سے ایسی گرمی ہوئی ہے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’ بس ، بھیا ! جو گناہ کریں وہ تو ایئرکنڈیشن میں عیش کریں اور ہم یہاں عذاب میں بیٹھے ہیں۔‘‘ پہلے نے کہا۔
ایئرکنڈیشن کے لفظ نے اُس کے پسینہ میں ڈوبے بدن میں ٹھنڈی لہردوڑادی ۔ وہ کچھ ماہ پہلے جب شہرمیں نیا آیاتھا تو اُس نے ایئرکنڈیشنر دیکھاتھا۔ کبھی کسی دُکان سے گزرتے ، کبھی کسی ٹھیکہ دار کے کمرے سے، کبھی کسی گاڑی کا دروازہ کھلتے ہوئے اُس نے ایئرکنڈیشنرکی خوشگوار ٹھنڈی ٹھنڈی ہواکا جھونکااپنے بدن پریوں محسوس کیاتھاجیسے جنت کی کھڑکی پَل بھرکے لئے کھُل گئی ہو۔ کبھی کبھی اُسے لگتا کہ اِس دنیا میں دیگر تمام تفریق بے معنی ہے۔ یہ دنیا صرف دو طبقوں میں بٹی ہوئی ہے، ایک وہ جو ایئرکنڈیشنر میں رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو ایئرکنڈیشنر سے باہر۔ ایئرکنڈیشنر کی دنیا میں رہنے والے لوگ کتنے اُجلے، کتنے سیانے، اپنی زندگی اور کام میں کتنے خوش ……. جہاں اُن کے خواب ، اُن کی صلاحیتیں، اُن کے جذبات، اُن کا پیار،دھوپ کی تیز تپش میں پگھل نہیں جاتا۔ ایئرکنڈیشنراُن کے احساسات کو سالم رکھتا اور اُن کی انسانیت کو برقرار رکھتاہے۔ دوسری طرف ہم ایسے لوگ ہیں جو ایئرکنڈیشن سے باہرکی دنیاکے لوگ ہیں۔ گد لے اور بدبودار پسینہ میں ڈوبے ہوئے …مایوس … جن کا انسان ہونے کا احساس گرمی اور دھوپ کے مارے پگھل گیا ہے۔ جن کے خواب، خیال، جذبے …. سب اُن کے اجسام سے بہتے پسینے کے ساتھ بہہ کر ختم ہوچکے ہیں۔ اُسے وہ عورتیں یاد آئیں جو ایئرکنڈیشنر کی دنیامیں رہتی ہیں، وہ جیسے برف کی بنی ہوئی ،چٹّی سفید، خوشبوؤں میں بسی ہوئی … ایئرکنڈیشنرگھروں اور کاروں نکلیں بھی تو آنکھوں پر سیاہ چشمے … ان چشموں کے عقب میں پوشیدہ وہ حَسین آنکھیں، جنہیں دیکھنے کے لیے سورج بھی مشتاق ہو۔
پھر اُسے اپنی بیوی یاد آئی۔ محنت اور دھوپ نے جس کا بدن سیاہی مائل کردیاتھا۔ جس کے جسم میں لامحدود پسینے نے مستقل بدبُوپیداکردی تھی۔ اِس ذلّت بخش گرمی نے لوگوں سے پیارکی آخری رمق تک نکال دی ہے۔
اُس کے دل میں یہ خواہش پیداہوئی کہ کاش! وہ بھی ایئرکنڈیشنر والی دنیا میں چلاجائے۔ وہ سوچنے لگاکہ اگر ہمیشہ کے لیے نہیں بھی تو صرف ایک رات کے لیے ہی سہی وہ بھی ایئرکنڈیشنرکی دنیا میں جاسکے ۔ اِس پیاس، گرمی، تپش،دھوپ، لُو، پسینہ اور بدبو والی دنیا سے نکل کر،وہ ایک رات کے لیے ہی سہی فرحت بخش، ٹھنڈی اور پُرسکون دنیامیں رہ سکے۔ کچھ سکون پاسکے ۔کچھ اپنی انسانیت کو بچاسکے، اپنے اندر پیار کے احساس کو ایک بار پھر زندہ کرسکے۔ اچھائی میں یقین پیداکرسکے۔ دنیا کے ساتھ جُڑسکے، تھوڑاسا جینے کی خواہش پیداکرسکے۔آخروہ بھی انسان ہے۔ فقط ایک رات کا سُکھ تو اُس کا بھی حق ہے، اور پھر کون یہ سی بڑی خواہش ہے۔ بس ایئرکنڈیشنر والی دنیامیں فقط ایک رات …… فقط ایک…..
وہ سوچ ہی رہاتھا کہ اچانک اس کے دماغ کو ایک چکرآگیا۔ اُس کی سانس گھُٹنے لگی۔اُس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی چھاگئی۔ وہ اچانک چکراکر، بیٹھے بیٹھے گرپڑا۔ وہ اپنی سُدھ بُدھ کھوبیٹھا۔ اُس کے گرتے ہی اچانک شور مچ گیا۔ اُس کے اردگرد لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ اُس کے ساتھ بیٹھا مزدوردوڑکر سامنے والی دُکان سے پانی کا گلاس بھرآیا۔ اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے گئے، لیکن اُس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ اچانک اُس نے ایک بڑازورکا خراٹا مارا اور پھر اُس کی سانس ٹوٹ گئی۔ اُس کے اردگرد کھڑے لوگوں میں سے کسی نے خیراتی ایمبولنس کو فون کیا۔
کچھ دیر کے بعد ایمبولنس آئی اور اسے ہسپتال لے گئی۔ وہاں پہنچتے ہی ڈاکٹروں نے اُس کا معائنہ کیا ، لیکن وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی گرمی کا جھٹکا برداشت نہ کرتے ہوئے فوت ہوچکاتھا۔ اُس کا کوئی والی وار ث وہاں موجود نہ تھا۔ جب تک اس کاکوئی وارث ظاہرہو،تب تک ایک رات کے لیے اُس کی لاش کو ہسپتال کے سردخانہ کے حوالہ کیاگیا – اور مرنے کے بعدہی سہی لیکن اسے ایئرکنڈیشنر کی دنیا میں ایک رات گزارنے کا موقعہ مل گیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے