ستمبر2016ء
کہتے ہیں کہ ’ تنقیدادب کے نازک بدن پر تلواریں برساتی ہے‘ اور پھر کسی اور نے کہا ہے کہ، ناقد میں نفرت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے کسی تخلیق کی خامی تو نظر آتی ہے لیکن خوبیاں بیان کرتے ہوئے اس کی زبان دُکھتی ہے‘۔ لیکن دوستو میں نہ تو ناقد ہوں اور نا ہی خوبیاں بیان کرتے ہوئے میری زبان دُکھتی ہے۔ ہاں میں جس لحاظ یا جس پہلو سے کوئی تخلیق دیکھتی ہوں ،وہ ضرور لکھتی ہوں لیکن میری رائے کوئی حتمی نہیں۔
تو جناب بلوچی کشیدہ کاری سے مزین سنگت کی ٹوکری میں موتیوں کو جمع کیے میں انھیں لڑی میں چننے کے لیے بیٹھی ہوں۔
اگست جو آنسوؤں اور آہوں کا مہینہ تھا کہ اس سرزمین پر ایک دفعہ پھر خون کی ہولی کھیلی گئی اور آن کی آن میں بہت سی قیمتی جانیں ختم ہو گئیں ۔ کیسے بتائیں کہ ہم کتنے دکھ میں ہیں کہ دکھ ماپنے کا کوئی آلہ اب تک ایجاد نہیں ہوا۔ لیکن ایسی حالت میں بھی یہ بہت ضروری ہے کہ ہم تعمیرِ امید کریں اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایک آہنی زنجیر بن جائیں۔
سنگت کے بہت سارے صفحات اس دفعہ آنسوؤں سے تر تھے۔
’’قتلِ عام ،جنگِ عام‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ڈاکٹر شاہ محمد مری کی تحریر جو ہمیشہ کی طرح ایک مکمل اور جامع اداریہ تھا، جس میں انھوں اتنے بڑے نقصان کی وضاحت کی اور کہا کہ یہ حملہ محض افراد پر نہیں بلکہ ایک طبقے ایک سوچ کے خلاف حملہ تھا۔ یہ روشن خیالوں کے خلاف جنگ ہے۔ قدیم و جدید کے مابین جنگ ہے۔ لیکن اس حملے نے جہاں عوام کو غم دیا اسی طرح اس نے عوام کوجھنجھوڑنے کا کام بھی کیا ہے۔اور ہم ایک لائحہ عمل طے کر سکتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کس طریقے سے کرنا ہے۔
دوسرا موتی جو ہم نے اٹھایا وہ ہے،’ ایک خونی دن کا قصہ‘ جو وحید زہیر صاحب کے آنسوہیں ۔ تمام زبانیں بولنے والے وکلا کے قتلِ عام پر مضمون ہے۔ ان کی ایک بات سے ذہن ایک لمحے کو سن سا ہو گیا کہ ،’’اب تو پورے ملک کا المیہ ہے کیوں کہ جن معاشروں میں انسان، زبان، نسل، علاقہ، سیاست، فرقہ پرستی کے غلام بنے وہاں رضاکار پیدا نہیں ہوتے۔‘‘ایک اچھا مضمون تھا جس میں انھوں نے غم کا اظہار اپنے انداز میں کیا ہے۔
ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو صاحب اپنے مضمون ،’’ سانحہ ۸ اگست‘‘ میں نہایت دکھ، غصے اور جھنجھلاہٹ میں گویا ہیں ۔ لکھا،’’تلاشی کے اس عالم میں کتنی آسانی سے لوگ شہید ہو رہے ہیں ۔ کون ہے اس کا ذ مہ د ار۔۔۔؟ کوئی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ آج وکیل ، کل ڈاکٹر، پرسوں انجینئر، سب کے سب ایک ایک کر کے چلے جائیں گے۔ پھر کس کی تلاشی لی جائے گی؟‘‘ یہ بات ہم سب کو سوچنا چاہیے، اس سے پہلے کہ کوئی تلاشی دینے کے لیے ہی باقی نہ رہے۔اچھا مضمون تھا۔
قلا خان خروٹی نے ۸ اگست کے سانحے کے حوالے سے’’ ان کے ملبوس سے شرمندہ قبائے لالہ‘‘ کے نام سے بہت اچھا لکھا ہے۔
Dark Night مبشر مہدی کی انگریزی میں ۸ اگست کے بم دھماکے پر ایک بہت خوبصورت نظم ہے۔
’’ محبت کی جھلسائی روح ۔۔۔ثروت زہرا‘‘ گزشتہ سے پیوستہ ۔ جی ہاں ڈاکٹر مری ایک بہت اچھی شاعرہ ثروت زہرا کی شاعری کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو عورت کی تعلیم و صحت سے محرومی اور اس کی مشقت کی سختی کو اس مردانہ معاشرے سے تسلیم کرانے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اتنا اچھا لکھا ہے کہ میں سوچتی ہوں ان کو کہہ دوں،’’ بابا، آپ فکشن بھی لکھیں بلکہ اب تو آپ آہی گئے ہیں اس طرف‘‘۔
پوہیں مڑد ’’ پولیٹکل اکانومی‘‘ میں غلام داری سماج کے بارے میں بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ غلام جس کو پیداوار کا آلہ کہا جاتا تھا لیکن اس پیداوار میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا۔ایک سخت محنت و مشقت اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر غلاموں کی اپنے آقاؤں کے خلاف عظیم بغاوت کی داستان ہے یہ۔
جاویداختر صاحب لکھ رہے ہیں ،’’ لینن کا نظریہ حیات‘‘ ۔ مضمون کے اس دوسرے حصے میں اقدار حسن جمال، قدر اور اس کی اقسام، اورا س کے معروضی و موضوعی تصور کو بہت ہی اچھے طریقے سے بتایا ہے۔ حسن کاری کے تاریخی ارتقا، شکار کے آلات،تصویر کشی، مجسمہ سازی کی تاریخ ،ہڑپہ، موہن جو دڑو، مہر گڑھ، وادی سوان اور بامیان کے غاروں کے حوالے کے ساتھ بتایا۔ ایک بہت اچھا مضمون تھا لیکن آپ چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں جلدی پڑھنے کی لیکن آپ کو ہر حال میں اسے ٹھہر ٹھہر کر اور نہایت غوروغوض سے ہی پڑھنا ہے۔
ظفر معراج نے ’’ سچو خان اور خود ساختہ دانشور‘‘ میں ایک اچھی طرف اشارہ کیا ہے۔ بلوچی ، براہوی اور پشتو موسیقی اور اس کے آلات ہماری ثقافت کا حصہ ہیں اور اس کو بچانا ہماری ذمہ داری ، خصوصاً جب اس سے لوگوں کا روزگار بھی وابستہ ہے تب تو یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے ۔لیکن کیا کیجیے ظفر صاحب کہ ان غریبوں کو سراہنے میں ابھی وقت ہے کہ ابھی تو وہ حیات ہیں۔ اور سرندہ، سروز، رباب، الغوزہ کو پھر ڈھونڈ لیں گے کسی مہر گڑھ، ہڑپہ وغیرہ میں لہٰذا پریشانی کی کوئی بات نہیں ، شانت رہیے۔
’’ سری لنکا میں صحافت ایک پر خطر کام‘‘ سلمیٰ اعوان کا ایک سادہ سا مضمون تھا، جسے عام انداز میں لکھا گیا ہے۔
زاہدہ راجی کا بلوچی مضمون ’سائبر سکیورٹی اور سائبر کرائم‘ انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کے لیے نہایت مفید ہے۔ اس میں نہ صرف سائبر سیکیورٹی سے متعلق اہم معلومات درج ہیں بلکہ سائبر کرائم بل جو حال ہی میں اسمبلی سے منظور کیا گیا ہے، اس سے متعلق بھی خاطر خواہ معلومات ہیں۔ سائبر کرائم کو عام طور پر آزادی اظہار پر حملہ تصور کیا جاتا ہے، اس کی بعض شقوں سے ایسا تاثر بھی ابھرتا ہے، لیکن اس کے بعض پہلو انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کے حق میں بھی ہیں۔ مصنفہ نے یہ بات انٹرنیٹ کے قوانین اور سکیورٹی کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
’قصہ‘ میں سب سے پہلے میں جس افسانے پر بات کرنا چاہوں گی وہ ہے شیام جے کا افسانہ ’ ننگا آسمان‘ جسے ننگر چنا نے بڑی خوبصورتی سے ترجمہ کیا ہے۔ اس افسانے میں معاشرے پر ایک گہرا طنز کیا گیا ہے کہ جس نے غریب ابنِ غریب کو اس حد تک مجبور کیا کہ وہ جرم کی طرف راغب ہو گیا۔ معاشرے نے اس کو ننگا کر دیا ، بے پردہ کر دیا لیکن اس کے بھوک اس کی غربت کا علاج نہیں کیا ۔ وہ غریب جو بے غیرت نہیں تھا، اس ذلت کا پوری طرح احساس تھا اسے لیکن اس بے حس معاشرے نے پھر سے اس کو وہی جرم کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور آخر میں بھی گریز اور تیل میں آلودہ ڈسٹر جو اس نے اپنے گرد لپیٹ رکھا تھا، ہوا میں پھڑ پھڑا کر پھبتیاں کس رہا تھا ،یعنی ایک شدید طنز لوگوں پر، معاشرے پر۔
آلوک کمار نے افسانچے لکھے جو تھے تو مختصر سے لیکن تھے بھرپور اور مکمل بالخصوص ’پرواز‘ ایک بہت اچھا افسانچہ تھا۔
عابدہ رحمان نے ایک نہایت اہم موضوع یعنی غیرت کے نام پر قتل پر افسانہ ’ میلی چادر‘ لکھا ہے۔
چلتے ہیں ایک اور قصے کی جانب، اور وہ ہے فرحین جمال کا ’ وقت سے مسابقت‘۔ ہمارا معاشرہ اس وقت ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے، لوگ ایک بے یقینی کا شکار ہیں۔ ہر ایک اپنی بقا کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ کون مر رہا ہے، کون زخمی ہو رہا ہے، کسی کو کسی کی پرواہ نہیں بس سر پٹ دوڑے چلا جا رہا ہے۔ اس اندھا دھند دوڑ میں وہ اس قدر گم ہو جاتے ہیں کہ ان کا اندر کھوکھلے اندھیرے سے بھر جاتا ہے۔ انسان، رشتے سب اس سے رہ جاتے ہیں اور منزل پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ اس کے پاس سوائے تھکن کے کچھ نہیں رہا۔ ایک بہت اچھے انداز میں فرحین جمال نے آج کے انسان کا المیہ بیان کیا ہے۔
When The Earth opened Its Last Wrath فخر زمان نے لکھا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ دھرتی ماں نے تمام انسانوں کوبالکل ایک ماں کی مانند اپنی باہوں میں سمیٹا ہے لیکن انسان اس کی بے حرمتی کر رہا ہے، اس کے ماحول کو زہر آلود کر رہا ہے ۔ایسے میں اگر دوبارہ ایک ٹوٹ پھوٹ ہو جائے اور انسان کو رہنے کے لیے زمیں میسر نہ ہو تو کیا وہ برف کے تودوں میں زندگی بسر کر سکے گا؟ ایک پر فکر کہانی فخر زمان کی۔
ظفر معراج صاحب کا افسانہ ’ آدم خان‘ آج کے معاشرے کی ایک زبردست تصویر کشی ہے ۔ آج جب لوگ مذہب کے تو ٹھیکیدار بنے ہی ہوئے ہیں لیکن باقاعدہ امامت کے چکر میں اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدیں کچھ کچھ فاصلے پر بنا رہے ہیں اور سرداروں، نوابوں وغیرہ کی بیٹھکوں کی مانند جہاں اس، صاحبِ علم، ہی کا حکم چلتا ہے اور وہ معصوم لوگوں کو اپنے حکم کے تابع رکھنا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس سے فارغ التحصیل اپنے صاحبِ علم ہونے اور اپنے عربی لب ولہجے کی مار بھی مقامی لب و لہجے کے سادہ امام کو دیتے ہیں اور محلوں کی بشارتیں بھی دیتے پھرتے ہیں۔اور اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے وہ کسی قسم کے بھی جھوٹے فتوے دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایک بہت پر فکر کہانی آج ہمارے سماج کے حوالے سے۔
قصہ کے حصے میں بلوچی میں ڈاکٹر سمی پرواز کی مختصر کہانی ’ منی چپلانی درد‘ میں ایک بار پھر عام پسے ہوئے طبقے کی غربت اور ناداری کی عکاسی کی گئی ہے۔ بلوچستان کے دیہات میں آج بھی چپل کا ایک نیا جوڑا بچوں کو کتنی خوشی دیتا ہے، اور اس کا حصول کیسا مشکل ہے، یہ کہانی اس کا سادہ سا بیانیہ ہے۔
کتاب پچار میں عابدہ رحمان نے شاہ محمد مری صاحب کی کتاب جو انھوں نے ترجمہ کیا ہے ، ’یاداشتیں‘، پر تبصرہ کیا اور اگست کے ماہتاک سنگت کا جائزہ لکھا۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر علی دوست بلوچ صاحب نے صابر ظفر صاحب کے شعری مجموعہ’ لہو سے دستخط‘ پر تبصرہ کیا ہے۔ جس میں ڈاکٹر صاحب نے ان کی شاعری پر بات کا آغاز کیا اور پھر’لہو سے دستخط‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی اختصار سے کام لیا ۔ انھوں نے تبصرے سے زیادہ ان کی شاعری زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کو ہی بہتر سمجھا اور اسی کو اپنی دانست میں تبصرہ کہہ دیا۔ قطع نظراس کے ، انھوں نے جو کہا، اچھا کہا۔
کتاب پچار کا آخری تبصرہ سبین علی نے نسیم سید کے افسانے پر کیا ۔ ایک بہت ہی اچھا مزیدار تبصرہ ۔ایک بہت ہی اچھی افسانہ نگار اور شاعرہ کے مزیدار افسانہ ’ چراغ آفریدم‘پر۔ تبصرے سے پہلے نہایت خوب صورتی سے سبین نے نسائیت وتانیث کا فرق واضح کیا اور پھر افسانے کی خالق نسیم سید سے ان کے افسانے کی صورت میں متعارف کرایا۔ مرد اور سماج کے عائد کردہ صنفی و حیاتیاتی جبر کو رد کرنے والی، اور صنفی تعصب کے مقابل ڈٹ جانے والی مصنفہ اور شاعرہ کو متعارف کرانے کا شکریہ سبین صاحبہ۔ نسیم صاحبہ کا افسانے پڑھنے کا شدت سے دل چاہا اس تبصرے کے بعد۔
حال حوال میں ہمیشہ کی طرح کچھ رپورٹس تھیں، جن میں ایک سنگت کی ڈسٹرکٹ کمیٹی کا اجلاس اور دوسرا سمو راج ونڈ تحریک کی کابینہ کا اجلاس شامل تھا۔
شاعری پر بات نہ کی جائے تو کچھ ادھورا، ادھورا سا لگتا ہے ۔ اس ماہتاک میں شاعری کا گلدستہ بھی بہت خوب صورت رہا جس نے سنگت کی خوب صورتی میں چار چاند لگا دیے۔
غزل ؛ جس کا مطلب ہے ہرن کی درد بھری چیخ جو شکاری کتوں کے خوف سے حلق سے نکلتی ہے۔ کہتے ہیں کہ غزل کا موضوع عشق و عاشقی اور سوز و گداز ہے۔ لیکن آج کل کے دور میں غزل کا دامن وسعت اختیار کر گیا ہے کہ غزل نے عشق و عاشقی کے علاوہ بھی موضوعات کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔
رحمان حفیظ کی غزل کا ذکر کرنا چاہوں گی جو انھوں نے بہت اچھی لکھی ہے۔ کہتے ہیں ؛
تکبر سے کمر کوزہ ہوئی ہے آسماں کی
زمیں کو خاکساری نے جواں رکھا ہوا ہے
نظم، ایک وسیع دامن رکھتی ہے اور ہر طرح کے موضوع کو بڑے آرام سے اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے ۔ اسی طرح اس دفعہ کے سنگت نے نظم کو بہت جگہ دی ہے اور بہت خوب صورت نظمیں سامنے آئی ہیں۔
نور محمد شیخ اپنی نظم میں اپنی زندگی کے اسلوب میں زندہ رہنے کی بات کرتے ہیں ۔ ایک بہت ہی سادہ اورحسین نظم۔
زاہد امروز نے بالکل سچ کہا ہے کہ:
آدمی
اپنے ہونے میں مٹی سے افضل ہے
اور اپنے نہ ہونے میں مٹی کی بھی مٹی ہے
ایک اور بہت ہی خوب صورت نظم جس کا ذکر میں ضرور کرنا چاہوں گی، وہ ہے؛ وہ رحمت سومرو کی نظم،’’ زندگی اور آثار‘‘ جسے جاوید شیخ نے ترجمہ کیا ہے۔
اب وہ مریخ پر
پہنچے ہیں تاکہ وہیں
زندگی کے آثار ڈھونڈے
جا سکیں!
اس کے علاوہ نعیم رضا کی’ناتوانی‘، ثروت زہرا کی’ الاماں ،الاماں‘ اور سدرہ سحر عمران کی نظم’تم عورت سے باہر نہیں آ سکتے‘ بھی قابلِ ذکر نظمیں ہیں۔