بلوچستان کے اہلِ قلم و اہلِ دانش پہ مشتمل علمی و ادبی تنظیم سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی نشست ’پوہ و زانت،28 اگست اتوار کے روز منعقد ہوئی۔ اس خصوصی نشست کو سانحہ کوئٹہ کے شہدا کے نام منسوب کیا گیا۔ یہی واحد ایجنڈہ تھا۔ اسی حوالے سے مضامین پڑھے گئے اور یہی گفت گو کامرکزی موضوع رہا۔
غم کی محفل تو ایک پر نور اداسی درامد ہی کرلیتی ہے۔نشست کے آغاز میں کلاخان خروٹی نے بغیر کسی تمہید کے 8 اگست کے شہداء کے نام پڑھ کر سنائے اوربیٹھ گیا۔ ہال کرب گاہ بن چکا تھا۔ درد شکلیں بدلتا کوڑے مارتا جاتا۔ کبھی غصے کی صورت اختیار کرتا کبھی بے بسی اور لاچاری کی شکل میں نازل ہوتا۔ ایک اجتماعی چوٹ اپنی گہرائی گیرائی جتلاتا جاتا تھا۔ گفتگو اور سماعت پہ ایک قسم کا بھاری پن طاری ہوچکا تھا۔ڈاکٹر عطااللہ بزنجو نے سانحہ 8اگست سانحے میں اُن ڈاکٹروں کی خدمات کا تذکرہ کیا جو ایسے خوفناک واقعہ میں بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے اور فرار نہ ہوئے۔’’ ڈاکٹر شہلا کاکڑ فٹ پاتھ پہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہیں ۔ڈاکٹر زرین گل مینگل دھماکے کے دوران زخمیوں کے لیے کام کرتی رہی اور خود بھی زخمی ہو گئی، مگر بھاگی نہیں۔ اس کے بازو میں فریکچر ہوا اور دو ہفتے کراچی میں زیر علاج رہی‘‘۔ ’’ خاران کاڈاکٹر الٰہی بخش شعبہ حادثات کے دوسرے فلور پہ مریض کو Anesthesiaدے رہا تھا، دھماکے کے دوران گرگیا اور ان کے گھٹنے پھٹ گئے۔ لیکن اس دوران بھی وہ مریض کوآکسیجن دیتا رہا۔ کیوں کہ Anesthesia کے مریض کو اگر ایک لمحے کو بھی آکسیجن رک جائے تو اس کی موت یقینی ہے۔ بعد میں دوسرے ڈاکٹروں نے آکر اسے سنبھالا‘‘۔
کلا خان خروٹی نے ’نیشنل ایکشن پلان کے نقاط پڑھ کر سنائے۔
ساجد بزدار نے آٹھ اگست سے متعلق دلخراش اور فکر انگیز مقالہ پڑھا۔جیئند خان جمالدینی نے دہشت گردی کے پس منظر پہ مضمون پڑھا۔ جس میں عالمی سطح پر دہشت گردی کی رائج تعریف، مفاہیم اور مقاصد کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔ ’’ دہشت گردی میں معیشت کا کردار اہم ہے، جسے عموماً زیر بحث نہیں لایا جاتا‘‘۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بتایا کہ سنگت اکیڈمی اور اس کی برادر تنظیمیں اس واقعہ کو کسی طور معمولی نہیں سمجھتیں، ہم شہید ہونے والوں کو اپنا قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا قتلِ عام ہوا ہے۔ اس لیے ہماری تمام تنظیمیں گذشتہ تین ہفتوں سے لگاتار اس پہ اپنے اپنے اجلاس بلاتی رہی ہیں، اس واقعہ پہ بات ہوتی رہی ہے۔اس کی گہرائی اور ابدیت کا اندازہ کیا گیا۔ ابھی پچھلے ہفتے سنگت اکیڈمی کی ضلعی کمیٹی کے اجلاس میں درج ذیل فیصلے اور قراردادیں منظور ہوئی تھیں۔ اُن کی آپ سے بھی منظوری لینی ہے:
1۔ ہم آٹھ اگست کے واقعہ کو کسی طور نہیں بھولیں گے۔ شہد ا کی برسی تک پوراسال سنگت کے ہرماہانہ پوہ و زانت اجلاس میں اس واقعہ سے متعلق مضمون، شعر، افسانہ و مکالمہ کی صورت بات چیت جاری رہے گی۔
2۔ سنگت کے ہر پرچے میں اس حوالے سے تحریریں شائع ہوتی رہیں گی اور آئندہ اگست میں شہداء کی برسی کے موقع پر اس حوالے سے خصوصی پرچہ شائع کیا جائے گا۔
3۔ وکلا کی تنظیموں اور دوسری جمہوری پارٹیوں، اداروں اور ایسوسی ایشنوں سے روابط قائم کیے جائیں گے۔اور ان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی مذمت کی جائے گی۔
4۔سنگت اکیڈمی مطالبہ کرے گی کہ سول ہسپتال کا نام تبدیل کر کے شہدا کے نام سے منسوب کیا جائے۔
5۔شہدا کے بچوں کی تعلیم کی تکمیل اور انہیں روزگار دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
6۔ ہم واضح طور پر حکومت کومخاطب کریں گے۔اور اسی سے مجرموں تک رسائی اور انہیں کیفردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔وہی شہر اور صوبے میں امن کی ذمہ دار ہے۔ اُسے اس کی اس بنیادی ڈیوٹی سے گریز کرنے نہیں دیا جائے گا۔
7۔ صحت کے محکمہ کی تباہ حالی، کس مہ پرسی اور بد انتظامی کی ذمہ داری حکومت بلوچستان کے وزیر صحت اور وزیراعلیٰ پر عائد ہوتی ہے۔ٹراماسنٹر کو فعال کرنا، بلڈ بنک کی مستعدی اور عملے کی موجودگی سب محکمہ صحت کی ذمہ داریاں ہیں۔
8۔دہشت گردی کے خلاف تمام سیاسی پارٹیوں کے مرتب کردہ نیشنل ایکشن پلان کے نقاط کی تشہیر کی جائے اور اُن پر عمل کیا جائے۔
یہ بھی طے پایا کہ شہدا کے والدین اور اہلِ خانہ سے رابطہ رکھا جائے۔ سنگت کا تازہ پرچہ انہیں ضرور پہنچایا جائے۔ نیز اس ضمن میں اگر کسی بھی پلیٹ فارم سے کوئی بھی احتجاج یا پروگرام تشکیل پاتا ہے تو سنگت اکیڈمی اس کے لیے کوششیں کرے گی اور اس میں شامل ہوگی۔