یہ وہ سمے تھا جب رات اور سویرا آخری بار گلے مل رہے تھے .رات نے آخری کروٹ لی اور صبح ایک کنواری کنیا کی طرح انگڑائی لے کر بیدار ہونے کو تھی .افق کے اس پار ہلکی ہلکی سرخی نمودار ہو رہی تھی اور رات کی سیاہ چادر دن کے سر پر سے سرک چکی تھی . دیوی نے سپنوں کے دیس کو خیر باد کہہ کر اپنی آنکھیں کھول دیں تھیں ۔افق کی لالی اس کے رخسار پر در آئی تھی . ایک لمبی سی انگڑائی لے کر اس نے اپنی دھانی چنری سے سر کو ڈھانپ لیا.سورج دیوتا کا دیدار ہو گیا تھا ،اچھی گھڑی تھی ,دن اچھا گزرنے والا تھا۔ اس کی نظریں دور پگڈنڈی پر کسی کو تلاش کر رہی تھیں
ہونہہ .!! دیوی نے مصنوعی غصے سے ہونٹ سکیڑے یوراج کو آج پھر آنے میں دیر ہو گئی تھی.یہ ان دونوں کے ملنے کی مخصوص جگہ تھی. گاؤں سے دور،جنگل کے بیچ یہ چھوٹا سا پہاڑی ٹیلا جس سے گاؤں دور سے نظر آتا تھا.ایک لمبی بل کھاتی پگڈنڈی ،ٹیلے کے پہلو سے ہوتی ہوئی سیدھی گاؤں میں جا نکلتی تھی.
یوراج نے پہلی مرتبہ دیوی کو کوشیلا دیدی کے آنگن میں دیکھا تھا ،دیدی گاؤں کی لڑکیوں کو رقص کی تربیت دیتی تھیں .وہیں راج کماری آنندہ بھی آتی تھیں . دیوی اور راج کماری دونوں ہی ایک آنگن میں رقص سیکھ رہی تھیں ، دیوی کے نوخیز جسم میں بلا کا لوچ تھا۔ وہ رقص کے ہر آسن کو بہت خوبصورتی سے ادا کرتی تھی ، اس کا
انگ انگ طبلے کی تھاپ پر تھرکتا تھا ،دیدی کو دیوی سے بہت امیدیں تھی کہ وہ ایک ماہر نرتکی بن کر ابھرے گی . دونوں بچیاں ایک دوسرے سے کافی مانوس ہو گئی تھیں اور راج کماری کبھی کبھی دیوی کو کھیلنے کے بہانے راج محل میں بھی بلا لیتیں ، اس طرح دونوں ساتھ ساتھ پل کر جوان ہوئی تھیں .ان کی اترن دیوی کا تن ڈھانپنے
کا کام کرتی تھی.. راجکماری آنندہ تو سولہ برس کی ہوتے ہی پیا کے دیس پدھار گئیں۔ پر سانولی سلونی رنگت۔ تیکھے نین نقوش جاذب نظر دیوی سیدھی ہی راجکمار کے دل میں کھب گئی..راجہ کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو اسنے کچھ زیادہ توجہ نہ دی کہ راجکمار نوعمری میں ایسے کھیل کھیلتے ہی آئے ہیں..بات تو جب بڑھی جب راجکمار نے اس سے شادی کی ضد باندھ لی ..اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نا تھا کہ راجکمار کو یدھ (جنگ) پر بھیج دیا جائے..اور اس نیچ ذات کے خاندان کو دیس نکالا دیا جائے ..سو ایسے ہی ہوا ،راجکمار دیوی سے عہد و پیمان کرنے کے بعد جنگ پر پدھارے اور اس بیچاری کا خاندان شاہی عتاب کی وجہ سے گاؤں بدر ہو کر اس جنگل میں آ بسا.
دیوی کے ماتا ،پتا نے اس کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے کی بہت کوشش کی اور کئی جگہ اس کی شادی کی بات بھی چلائی ..پر اس کو تو یوراج سے اپنے عہد کی پاسداری کرنی تھی اور وہ آج تک کر رہی تھی .. والدین کب کے مر کھپ گئے.. آج اس بات کو عرصہ بیت گیا لیکن وہ آج بھی اس ٹیلے پر کھڑی یوراج کا انتظار کرتی،ہر نیا دن اس کے انتظار کو طویل سے طویل کرتا جاتا،پر اس کو اپنی محبت پر یقین تھا ایسے ہی جیسے دن و رات اٹل ہیں ویسے ہی اس کا اور یوراج کا سنگم دیوتاؤں کی آشیر باد سے ہمیشہ کے لئے اس کے دل پر نقش تھا.. شروع شروع میں کوئی بھولا بسرا مسافر بھٹک کر ادھر بھی آ نکلتا.اور اس کے چرنوں میں نذرانہ رکھ جاتا..پھر یہ بھی ماضی کا قصہ بن گیا کہ جنگل گھنا ہوتا گیا اور پگڈنڈی کا نام و نشان ہی مٹ گیا..گاؤں بھی اجڑ گیا ..لوگ شہروں میں جا بسے .لیکن اس ٹیلے پر نرتھ کی دیوی کا ایک سنگی مجسمہ آج بھی نصب تھا جیسے وہ بھی یوراج کے انتظار میں ہی وہاں کھڑا تھا.
آج کا دن بھی بہت ہی روشن تھا۔۔۔ نیا نویلا۔۔۔ وہ روز کی طرح آج بھی اسی جگہ راجکمار کے انتظار میں کھڑی تھی کہ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک مورکھ اس کے چرنوں میں یاسمین کے زرد پھول چڑھا رہا ہے
اس کو بہت حیرت ہوئی ،ایسا تو عرصے سے نہیں ہوا ..!!
یہ کون ہے ؟
یہاں کیسے آ گیا ؟؟
اب تو کوئی بھٹک کر بھی اس طرف نہیں آتا،، اس نے حیرانی سے اس کو دیکھا اور پوچھنا چاہا کہ تم کون ہو ؟،پر وہ پھولوں کا نذرانہ دے کرکب کا جا چکا تھا . اگلے دن بھی اس کی آنکھیں کھلنے سے پہلے ہی پھول اس کے چرنوں کی زینت بن چکے تھے .اس انہونی نے اس کے دل میں ہلچل سی مچا دی تھی ،پتھر ہوتی سوچیں ایک دم سے بیدار ہو گئی تھیں ،جسم میں خون کی حرارت سی محسوس ہونے لگی تھی..اس کو تو بس یہ کھوج تھی کہ یہ کون ہے ؟؟ اور کیسے یہاں تک پہنچ گیا .اس نے دل میں تہیہ کیا کہ آج کی ساری رات وہ پلک نہیں جھپکے گی اور سویر ا ہوتے ہی اس مورکھ سے اس دان کا مطلب پوچھے گی.. رات بے چینی میں گزری ،ہر آہٹ پر چونک چونک جاتی ،گھپ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھتی پر کچھ نظر نہ آتا..پو پھوٹتے ہی وہ اٹھ بیٹھی اور آج اس کو یوراج کا نہیں اس نئے شخص کا انتظار تھا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الارم کی کریہہ چیختی ہوئی آواز نے اس کے سپنے کو توڑ دیا تھا .انکیتا نے کسمسا کر کروٹ بدلی .اور گھڑی کی سوئی پر نظر ڈالی جو ساڑھے چھ کے ہندسے پر سے آہستہ آہستہ آگے کی طرف رینگ رہی تھی.یہ وقت ٹھہرکیوں نہیں جاتا ..اس نے بے زاری سے سوچا اور اٹھ بیٹھی . ابھی اس خواب کے تانے بانے نیند کے مہین تاروں سے بندھے اس کی پلکوں کے پیچھے سے جھانک رہے تھے. لیکن دفتر کو دیر ہو رہی تھی .اس نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھویا ،لباس تبدیل کیا اور چا ئے کے دو گھونٹ کے ساتھ ٹوسٹ کو بمشکل حلق سے اتارا . سات بجے والی بس مس ہو گئی تو وہ دفتر سے لیٹ ہو جائے گی . فلیٹ کا دروازہ کھول کر ابھی قدم باہر رکھا ہی تھا کہ اس کی نظر زرد یاسمین کے پھولوں پر پڑی.
یہ …یہ پھول ..وہ خواب ..!
انکیتا کو ایک دم جھٹکا سا لگا
یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟
کون یہ پھول یہاں رکھ گیا ؟؟
بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے اس کا دماغ اس گتھی کو سلجھانے میں لگا رہا .. دو بہت کچھ کہتی ہوئی آنکھیں اس کے تصور کے پردے پر نمودار ہوئیں..نہیں ..نہیں ..! اس نے اپنی سوچوں کو جھٹکا ..انکیتا بھی ان ہزاروں لڑکیوں میں سے تھی جو جسم اور جاں کے رشتے کو جڑے رکھنے کے لئے ملازمت کرنے پر مجبور تھیں . اس کے ماتا پتا اسے بے گھر کر کے خود سورگ باسی ہو گئے .یہ بھی غنیمت تھا کہ ان کی موت سے پہلے اس کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی .وہ قصبے کو چھوڑ کر شہر منتقل ہونے پر مجبور تھی کہ ملازمت کا حصول شہر میں ہی ممکن تھا ،کافی تگ و دو کے بعد آخر اسے ایک فرم میں معقول تنخواہ پر ملازمت مل ہی گئی . پیٹ کی بھوک، دانت نکالے رال ٹپکاتے بھیڑیوں کی بھوک اور سماج کی کاٹ دار دو دھاری تلوار سے ذبح ہونے سے بچنے کے لئے اس نے خود کو ایک مضبوط پتھریلے ، بے حس حصار میں قید کر لیا تھا.. بس جینا ہی رہ گیا تھا …اور وہ جیے جا رہی تھی ..! کیوں ؟؟
اس سوال کا جواب وہ خود کو بھی نہیں دے پائی تھی .رات کی تاریکی میں جب جذبوں کی تند و تیز ندی اس پر یلغار کرتی اور وہ سلگتے ہوے بدن کو تھپکیاں دے دے کر سلانے کی کوشش کرتی تو ھانپ ھانپ جاتی .وہ خود بھی پتھر میں ڈھلتی جا رہی تھی ..ہر قسم کے جذبوں سے عاری ،چلتی پھرتی کٹھ پتلی ،جس کی ڈور وقت کے ہاتھوں میں تھما کر وہ خود بھی جانے کہاں کھو گیا تھا . وہی جو اس کا مان تھا،غرور تھا .بس ایک ہی جھٹکے میں سارے رشتے ناتے توڑ کر پردیس جا بسا تھا .دولت کی چمک نے اس کی محبت کی آنچ کو بجھا ڈالا تھا .انکیتا کو جیسے اس کا آج بھی انتظار تھا ..کبھی کبھی وہ اس پاگل پن پر خود ہی ہنس پڑتی..وہ اس تنہائی کے جہنم میں جلتی جھلستی چلی جا رہی تھی .مہیب سناٹوں نے اس کے ارد گرد ایک ان دیکھا جالا بن ڈالا تھا اور وہ جتنا اس سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی اتنی ہی وہ نادیدہ ڈور اس کے وجود سے لپٹی جاتی تھی.
آج وہ گلاب کے جنگلی پھولوں کا نذرانہ لایا تھا ،
تم ..تم ..کون ہو ؟، دیوی نے لرزتی ہوئی آواز میں اس سے پوچھا ..اور اپنی ہی آواز کو اتنے عرصے بعد سن کر سہم سی گئی ..!
میں …! میں تو بس ایک مسافر ہوں ..
تم ..تم یہ پھولوں کا نذرانہ کیوں لاتے ہو ؟،
اس نے سر اٹھا کر دیوی کی طرف دیکھا ، عجیب سی روشنی تھی اس کے چہرے پر،مگر آنکھیں ؛وہ ۔۔۔وہ تو ایسی تھیں جیسے دو جلتے ہوئے دیے جن کی لو وقت کے ساتھ ساتھ مدھم ہوئی جاتی ہو . بوسیدہ سا سفید لباس ،بکھرے بال .مگر صاف ستھرا ،کوئی دنیاوی آلائش نہیں تھی اس کی آنکھوں میں،
تم نے جواب نہیں دیا .؟؟ اس نے سکوت کو توڑا .. وہ پھر بھی نہیں بولا، بس یوں ہی دو زانو اس کے چرنوں میں بیٹھا رہا .
پھول یادوں کا سندیسہ ہوتے ہیں ..!فضا میں اچانک اس کی آواز سے ارتعاش پیدا ہوا ،
کیسی یادیں ؟؟؟
وہ یادیں جو دل میں بستی ہیں،وہیں گھر کر لیتی ہیں اور جسم کو خالی کر دیتی ہیں ،اس کی آواز میں عجیب سا سوز تھا ..
تم کہاں سے آ ئے ہو ؟؟
تم سوال بہت کرتی ہو ..!وہ ذرا سا مسکرایا
ہاں ..جانے کتنا وقت بیت گیا کسی سے بات نہیں ہوئی میری ..!!
تم کس کے انتظار میں یہاں کھڑی ہو ؟، ؟ اس نے آہستہ سے پوچھا
وہ جو وعدہ کر کے ابھی تک نہیں لوٹا.!
تم کیا کرتے ہو ؟،، پھر سوال . ؟؟
بتاؤ نا .. اس نے پوچھا.
میں دل کاشت کرتا ہوں،
دل ؟؟ دیوی نے حیرت سے پوچھا
ہاں . اس دنیا میں اصل حاصل زندگی محبت ہے،
اور میں ہر سانس کے ساتھ بنجر دلوں میں محبت کے بیچ بوتا ہوں.
اور عشق کی فصل اگاتا ہوں.
کہاں رہتے ہو ..؟؟
یہاں ہی قریب جنگل میں میری چھونپڑی ہے.
اپنی کھوج میں نکلا ہوں،
کیا کہیں کھو گئے تھے ؟، ؟، دیوی کو حیرت ہوئی .
کسی کو صرف کھونے پر تھوڑی ڈھونڈا جاتا ہے ..خود کو پانے کے لئے بھی کھوج کی جاتی ہے.
لو تم جب کھو ئے ہی نہیں تو پانا کیسا ؟؟؟ دیوی نے حیرت سے پوچھا
تم کس کو پانے کے لئے کھو گئی ہو ؟؟
دیوی نے سوچا ٹھیک تو کہہ رہا ہے میں ایسے کھو گئی کہ خود کو بھی بھول گئی .
کیا تم خود کو پا لو گے ؟؟
ہوسکتا ہے ..!!اس نے جواب دیا .اس کے لہجے میں بہت زیادہ ا عتماد تھا .
کیسے ڈھونڈو گے خود کو ؟؟ وہ اپنی کھوج کو چھوڑ کر اس کی ببتا میں الجھ گئی تھی.
اس کو اگر پا لوں تو خود کو بھی ڈھونڈھ ہی لوں گا ..!!
کس کو ؟، اپنے محبوب کو ؟؟
ہاں ..
تم نے اس کو کیسے کھو دیا ؟؟
بس میری غفلت ،آنکھ لگ گئی تھی سو گیا تھا.. وہ مجھے چھوڑ گیا .
تو وہ تمہارے سونے پر ناراض ہو گیا.
ہاں ..!
یہ کیسی محبت تھی کہ وہ اتنی سی بات پر چھوڑ گیا ؟؟
بس میری قسمت ..اس نے جواب دیا.
وہ میری سانسوں میں سانس لیتا تھا ،میرے بہت ہی قریب تھا.. اب ایسا روٹھا ہے کہ قریہ قریہ، بستی بستی ڈھونڈھ رہا ہوں پر وہ نہیں مل رہا.. اپنے رب کو کھوج رہا ہوں،وہ مل جائے تو میرا محبوب بھی مل ہی جائے گا.
یہ کیا بات ہوئی ؟؟ تم اپنے محبوب کو پا لو تو ہی کافی ہے تمہارے لئے ..!وہ مسکرائی ،.. تھوڑا سا پاگل ہے بیچارہ ،محبت انسان کو مجذوب بنا دیتی ہے.
تم اس بات کو تو مانتی ہو نا کہ جن کو تم دیوتا اور میں رب کہتا ہوں ،ہم پر ہر دم نظر رکھتے ہیں،ہمارا سونا جاگنا ، سانس لینا ،جینا ،مرنا سب ان کو نظر آتا ہے ،ان کے علم میں ہوتا ہے..
ہاں ..ایسا تو ہے !! اس نے جواب دیا.
لیکن دیوتاؤں کو پانا کوئی آسان تو نہیں وہ آسمانوں میں رہتے ہیں ہم زمین پر ..اور اس کے لئے تو لمبی تپسیا کرنی پڑتی ہے تب گیان ملتا ہے وہ بھی کسی کسی کو..
کبھی کبھی محبت اور لگن میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ خود نیچے اتر آتے ہیں ..
ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ توپاک ہیں..آسمانوں سے نیچے آ کر ان کی شکتی میلی ہو جاے گی.
نہیں ایسا نہیں ہے ؛وہ اگر آکر دلوں میں بس جائیں تو پاک ہی رہتے ہیں.. دل تو جسم کا سب سے پاک عضو ہے ..اس کے چہرے پر جیسے ایک نور سا اتر آیا.
ہاں ہے تو سہی اگر اس کو پاک رکھا جائے تو ،… لیکن اس دنیا میں جنم لینے کے بعد کوئی دل بھی پاک نہیں رہتا .
محبت ،سچی محبت ،جسم و جنس سے ماورا محبت ..دل کو پاک رکھتی ہے .
اچھا تم کو گیان مل گیا تو کیا کرو گے ؟؟
پھر نروان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوں گا.
"نروان ". دیوی نے آنکھیں پھاڑ کر اس کی طرف دیکھا.
کیسا پاگل ہے ..؟؟ نروان کوئی جیتے جی تھوڑی ملتا ہے ،؟
وہ تو بس اس پاپی دنیا سے مکتی کے بعد ملتا ہے..اس کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے.
اس کی باتیں دیوی کے پلے نہیں پڑتی تھیں مگر دونوں روزانہ باتیں کرتے یہاں تک کہ سورج ڈوبنے لگتا اور دیوی کی پوجاپاٹ کا وقت آ جاتا..تم رات کو کیوں عبادت کرتی ہو ؟؟ تمہارے لوگ تو سورج کے چڑھتے ہی پوجا میں لگ جاتے ہیں .
رات میں خاموشی ہوتی ہے،دل سے دل کی باتیں تو خاموشی میں ہی کی جاتی ہیں نا، وہ جواب دیتی .
تم بھی تو دن میں اور ساری ساری رات اپنے دیوتا کو سجدہ کرتے ہو ..
ہاں رات کو وہ بہت نزدیک آ جاتا ہے . رات ساری اسی سے گفتگو رہتی ہے ..
ان کی دوستی ایسے ہی چلتی رہی،دونوں ایک دوسرے کی تنہائی کو بانٹتے رہے ..لیکن شام ڈھلتے سمے وہ چلا جاتا تھا اور دوسرے دن سورج کے ڈھلنے سے گھنٹہ پہلے آ جاتا. دیوی بیچینی سے اس کا انتظار کر نے لگی تھی.. جانے کتنے برسوں سے اس کا انتظار کر رہی تھی.وہ تو یہ بھی بھول گئی تھی کہ اس کو یوراج کا انتظار کرنا تھا..معلوم نہیں کیا بات تھی اس میں کہ دل اس کی طرف کھینچا چلا جاتا تھا خود بخود . روز اپنے دیوتاؤں سے التجا کرتی کہ وہ کہیں کھو نا جائے راجکمار کی طرح.وہ مورکھ اس کے دل کے دروازے پر دستک دینے لگا تھا.اس پتھر کے بت کا دل بھی دھڑکنے لگا تھا
مگر آج انہونی ہی ہو گئی تھی جب انکیتا کی آنکھ پو پھٹنے سے پہلے ہی کھل گئی تھی. کہیں کوئی آہٹ ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کا سپنا ٹوٹ گیا تھا.کچی نیند سے جاگ جانے پر اس کو ہمیشہ ہی کوفت ہوتی تھی،مگر تجسس نے اس کو مجبور کر دیا کہ دروازہ کھول کر دیکھے کہ آواز اسی سمت سے آرہی تھی.
باہر تو کوئی بھی نہیں تھا. اس کی چوکھٹ پر گلاب کے پھول دھرے تھے.اس نے آس پاس نظر دوڑائی ، تو ایک سایہ دور جاتا محسوس ہوا
یہ کون ہے ؟،
وہ سکتے میں آ گئی ..
وہ ہلنا چاہتی تھی،کچھ کہنا چاہتی تھی .مگر خواب اس پر طاری تھا .وہ اپنے وجود کو بڑی ہمت سے سمیٹنے کی کوشش کرتی رہی؛دل کہتا کہ اس کو روک لے ..زبان ساتھ نہیں دے پا رہی تھی.،کہیں یہ لوٹ گیا تو ؟؟نہیں ..نہیں ..! میں ایسا نہیں ہونے دے سکتی ،کب تک اپنے خول میں قید رہوں گی،اس کے اندر ایک جنگ جاری تھی، دل کہتا تھا جانے والے کو آواز دے اور دماغ کس طور راضی نہ تھا.
اس نے گھٹی گھٹی سی آواز میں پکارا ..!
ذراٹھہرو ..!! تم کون ہو ؟؟
کیا یہ وہ تو نہیں ؟؟
نہیں نہیں ..!! وہ تو صرف سپنا ہے ..اسنے خود کو تسلی دی ..دور جاتے سا ئے کے قدم یک دم رک گئے . اس نے پلٹ کر بڑی حسرت سے انکیتا کو دیکھا، اس ملگجی سی روشنی میں انکیتا کو آنند شرما کی صورت نظر آئی.وہ ہی آنند جو اس کی ماتا کی دوست کا بیٹا تھا ،جس نے شہر آنے پر اس کی کافی مدد کی تھی اور قریب ہی فلیٹ میں رہتا تھا ،انکیتا سے صرف رسمی سی علیک سلیک تھی اس کی کہ وہ خود کو بہت الگ تھلگ رکھنے کی عادی تھی .
یہ ..یہ پھول تم یہا ں رکھتے تھے ؟؟
ہاں ..وہ بولا .
اور یہ آخری پھول ہیں ..
اس کی آواز میں عجیب سی ویرانی تھی..
آخری …؟؟ انکیتا کو اپنی آواز جیسے کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی ..
ہاں … میں تمہارے چرنوں میں پوجا کے پھول چڑھاتے چڑھاتے تھک گیا ہوں ،کیونکہ تم اس پتھر کی دیوی کی طرح ہو جو صدیوں مندر میں سجی رہتی ہے ،دلکش ،حسین، خوبصورت لبادوں سے مزین مگر احساس سے عاری ،ساری عمر بھی اس کے سامنے ماتھا ٹیکتے رہو اس کے چہرے پر کوئی احساس نہیں جاگتا ،وہ ہی سپاٹ پتھر چہرہ ..
تم بھی دیوی ہو .. تمھیں پوجا تو جا سکتا ہے ..محبت نہیں کی جا سکتی،میں تمھیں ہمیشہ پو جوں گا …
تم پتھر ہو .! آنند شرما نے اس نیم خوابیدہ ، حسین دیوی پر ایک نظر ڈالی..
انکیتا کو ایسا محسوس ہوا کہ آج وہ نا بولی تو ہمیشہ کے لئے پتھر ہو جائے گی ،اس کے اندر جذبات نے ایک تلاطم مچا رکھا تھا ،وہ کچھ کہنا چاہتی تھی ،اس مصنوعی خول کو توڑ ڈالنا چاہتی تھی،شدت جذبات میں وہ پوری جان سے کانپ رہی تھی ،خود کو یکجا کرنے کی کوشش میں بکھر رہی تھی .
نہیں ..نہیں !!
،اس کے خول میں دراڑ پڑ چکی تھی.
وہ اس بت کو اب پاش پاش کرنا چاہتی تھی .
نہیں ..! نہیں ..!
اس کی آواز لرز رہی تھی.
میں پتھر نہیں ہوں ،جیتی جاگتی ،سانس لیتی ،.انسان ہوں ، میرے اندر بھی لہو دوڑتا ہے تمہاری طرح ہی جذبات اور احساسات رکھتی ہوں .صرف پوجا کرنے کے لئے نہیں بنی ہوں .
سنو ..!! ٹھہرو ..انکیتا کی آواز میں التجا تھی،
ایسے نا جاؤ ..!
اس نے اپنا ہاتھ آنند کی طرف بڑھا دیا ..