ہماری کوئٹہ کی بولی میں ’’لٹ‘‘ ایک عجیب و غریب لفظ ہے۔ لفظی ترجمہ یوں ناممکن ہے کہ ’’لٹ‘‘ ایک مخصوص طرز زندگی کا نام ہے۔ یہ وہ حال مست اور مال، جان اور نام سے بے پروا نوجوان ہے جو کسی ترنگ کے زیر اثر روش عام کو تیاگ کر اپنی راہ الگ بنانے کی دھن میں ہے۔ سن چالیس کی دہائی کے آخر اور پچاس کی دہائی کے اوائل میں، کوئٹہ کے چند پڑھے لکھے نوجوانوں کو ترنگ اٹھی کہ سرکاری نوکری کی چکی پیسنے سے شاید وہ اپنا اور اپنے قریبی متعلقین کا کچھ بھلا کر پائیں مگر ایسا باغیچہ کس کام کا جس کی چاردیواری کے باہر ہر طرف بنجر پن کا دور دورہ ہو۔ یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بلوچستان میں پڑھا لکھا آدمی دوا میں ڈالنے کو بھی نہ ملتا تھا۔ ذرا سا سر تسلیم خم کرنے والے تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے سرکاری نوکری میں ترقی کی شاہراہ کھلی تھی۔ ان میں سے ایک آدھ تو اس وقت کے دیسی عہدوں میں سب سے با توقیر عہدے نائب تحصیل داری کے منصب جلیلہ پر فائز ہو چکا تھا۔ مگر یہ ’’لٹی‘‘ کی ترنگ بھی عجب چیز ہے جس سے آشنائی کی لذت دو عالم سے دل کو بے گانہ کرتی ہے۔
آج جبکہ صحافی، سیاسی کارکن، دانش ور، ادیب، شاعر، استاد، شاگرد، منصف جیسی محترم شناختیں بھی بے پایاں ملاوٹ کے سبب گڈ مڈ ہو چکی ہیں، تو ’’لٹ‘‘ جیسی غیر ٹکسالی اصطلاح کہاں بچتی؟ چنانچہ جو لقب کبھی ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز ہو کر پامال راہوں سے ہٹ کر چلنے والوں کے لئے مخصوص تھا، اب قصداً بے روزگار رہنے والوں، طفیلیوں، بے مغز باتیں بگھارنے اور کسی حقیقی سماجی تبدیلی کے بارے میں مکمل نا آگہی کے با وصف ’’نظام‘‘ کو گالیاں دینے والوں نے بھی اس پر حق جتانا شروع کر دیا ہے۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ۔۔ نہ ہر بتراشد قلندری نماند۔۔ مضمون کی ابتدا میں مذکور حقیقی ’’لٹوں‘‘ کی قافلہ سالاری کا ابدی اعزاز سائیں کمال خان شیرانی، ڈاکٹر خدائیداد، سید کامل القادری، انجم قزلباش اور اس گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ، پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کے نام ہے۔ یہ سب نسلی، تعلیمی اور پیشہ ورانہ اعتبار سے الگ الگ راہوں سے آئے تھے، مگر چند اقدار ان میں ایسی مشترک تھیں جن کے سبب یہ یکجا ہوے۔ یہ بلوچستان کے کم و بیش مکمل نا خواندہ سماج کے چند پڑھے لکھوں میں شامل تھے اور آج کے ’’پڑھا نہ لکھا نام محمد فاضل‘‘ قسم کے حرف شناس نہیں، بلکہ علم کی گہرائیوں کے شناور تھے۔ سو، اپنے علم اور ذہانت کے سبب، چاہتے تو دنیاوی مرفہ الحالی کی تمام راہیں بانہیں پھیلائے ان کی منتظر ہوتیں مگر انہوں نے اپنے اپنے کنج کو تاباں کرنے پر، اپنی لو سے مزید چراغ روشن کرنے کو ترجیح دی۔ مادی ترقی کو قربان کرکے مفلسی، قید و بند اور روپوشی کی کلفتوں کو گلے لگایا کہ ’’ایک میرا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں‘‘ کے قائل تھے۔ سو یہ اس راہ کا انتخاب کرنے سے دم آخر تک، وہ اپنے آدرشوں، اپنی منتخب کردہ زریں راہ اور اپنے جدلیاتی سائنسی نقطہ نظر کے بارے میں کبھی بھی مخمصے کا شکار نہ ہوئے۔
اس خادم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وطن میں اس کا گھر بلوچی سٹریٹ نامی اس تاریخی گلی کے بہت قریب واقع تھا جس کے ایک کچے مکان کو ان آدرش وادیوں نے اپنا اولین ٹھکانہ بنایا اور اسے ’’لٹ خانہ‘‘ کا لازوال نام دیا۔ اس ٹوٹے پھوٹے مکان سے ہی، جس کی شان غریب خانہ عاشق کی طرح فرش خاک اور بوریا کے علاوہ دنیا بھر کے ترقی پسندانہ اور سائنسی ادب سے مملو کتب و رسائل کے دم سے تھی، بلوچستان میں ترقی پسند سیاست کی فروزاں مشعل کی پہلی چنگاری پھوٹی۔ ان ’’لٹ‘‘ لوگوں نے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے وسیلے سے زیادہ، ہم خیال دوستوں کے مل بیٹھنے کے ایک ٹھکانے کے طور پر مسجد روڈ پر کتابوں کی ایک دکان کھولی۔ چراغ کی پھڑپھڑاتی لو اور اس کے مقابل ریاستی جبر کی منہ زور ہوا کے استعارے کے طور پر اس کا نام، ’’فی الحال سٹیشنری مارٹ‘‘ رکھا گیا۔ یہیں سے باغیانہ اور ملک دشمن خیالات کے گھسے پٹے الزام میں ’’لٹوں‘‘ کی گرفتاریاں ہوئیں، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر مجال ہے کہ کسی کے پیروں میں ایک لمحے کی بھی لغزش آئی ہو۔ ان میں سے ہر ایک ’’لٹ‘‘ کی زندگی کا اجمالی بیان بھی ایک کتاب کا متقاضی ہے اور یہ حق، استاذی ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ’’عشاق کے قافلے‘‘ نام کے کتابی سلسلے میں کسی حد تک ادا بھی کیا ہے۔
کل اس ’’لٹ خانے‘‘ کی کہکشاں کا آخری اور درخشندہ ترین ستارہ، عبداللہ جان جمالدینی بھی غروب ہو گیا۔ اس خادم کو اپنی خوش بختی پر ناز ہے کہ بار بار جگت ماما جمالدینی کی حاشیہ نشینی سے مستفیذ ہوا۔ اس خادم کی نظر سے آج تک کوئی شخص ایسا نہیں گزرا جو بلوچ سماج، سرداری نظام، قومی اور طبقاتی کشمکش، صنفی مساوات، نسل پرستی، روشن فکری، آزاد خیالی، اشتراکیت وغیرہ جیسے عمیق موضوعات و مسائل پر اس قدر ہمہ گیر دسترس رکھنے، اور اس راہ میں بین الاقوامی سطح کا تجربہ و مشاہدہ رکھنے کے باوجود مبتدی طالب علموں کے ادھ کچرے اور جوش شباب کی جذباتیت سے آلودہ خیالات اس قدر انہماک اور صبر سے سنتا ہو، گھنٹوں گھنٹوں، انتہائی عجز اور محبت سے ان کے ساتھ مکالمہ کرتا ہو اور معمولی سے معمولی نئی بات کا علم ہونے پر مخاطب کا شکریہ ادا کرتا ہو۔ آخری چند سالوں میں جب ماما جمالدینی فالج کا شکار ہوکر چلنے پھرنے سے رہ گیا، تب بھی اس کی بیٹھک شروع میں ہر وقت، اور بعد میں ڈاکٹروں کی ہدایت کے سبب ہفتہ وار، علمی و فکری نشستوں کا مرکز بنی رہی۔ یاد پڑتا ہے کہ ماما کے سدا مسکراتے چہرے پر ناگواری کا ہلکا سا سایہ صرف تب نمودار ہوتا جب اس کی محفل میں کسی شخص، گروہ، نسل یا طبقے کا ذکر نفرت کے پیراے میں کیا جاتا۔ مگر یہ سایہ وقتی ہوتا اور ماما فوراً مسکرا کر اسی بات کو ایک خوشگوار اور ہمدردانہ رنگ میں دہراتا، جس سے سائل کو غلطی کا احساس بھی ہو جاتا اور بدمزگی بھی پیدا نہ ہوتی۔
ماما کا اور اسی قدر اس کے شاگرد رشید، استاذی ڈاکٹر شاہ محمد مری کے اصرار و تعاون کا ہماری اور آنے والی نسلوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ ماما کے افکار، یادداشتوں اور تجزیات پر مبنی کئی کتابیں، ماما کی شدید علالت کے باوجود منصہ شہود پر آئیں اور بار بار زیور طبع سے آراستہ ہو رہی ہیں۔ ماما نے جس ماحول میں آنکھیں بند کیں، وہ کئی سال سے ماما کے آدرشوں سے متضاد سمت میں چل پڑا تھا۔ قوم پرستی و نسل پرستی، جد و جہد اور تشدد ، ظلم سے بیزاری اور ظالم سے نفرت جیسے باہم متضاد تصورات عوام کی نظر میں ہم معنی سے ہو چلے تھے۔ ماما کے محلے کی راہ ایسی پر خطر ہو چکی تھی کہ وہاں جانے والا شخص اس دھڑکے کے ساتھ گزرتا تھا کہ نجانے کب سیاسی میلان، زبان، شکل و شباہت، لباس، عقیدے یا کسی بھی معلوم یا نا معلوم وجہ سے مار دیا جائے یا غائب کر دیا جائے۔ اس کے باوجود ماما کے عشاق یہ سب جوکھم اٹھا کر اتوار کے اتوار پہنچ جایا کرتے تھے۔ یقین ہے کہ اہل دل کے اجتماع کا سلسلہ ماما کے بعد بھی جاری رہے گا کہ تعداد اور طاقت میں کم سہی، مگر کچھ اصل ’’لٹ‘‘ اپنے اپنے نہایت روشن چراغ ماما کی فکر سے لو لے کر جلائے ہوئے ہیں۔ ماما کی کتب، ماما کی سرپرستی میں چھپنے والے رسائل، ماما کی فکر سے پھوٹے شرارے ہیں جو بلوچستان میں امنڈتی ہوئی تاریکی کو ہر دم چنوتی دیتے رہیں گے۔ رفتید ولے نہ از دل ما۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے