ہمارا(ماہنامہ سنگت ،بلوچستان سنڈے پارٹی،اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا )سرپرست اعلیٰ محترم عبداللہ جان جمالدینی طویل علالت کے بعد19 ستمبر2016 کو رات سواآٹھ بجے فوت ہوگیا۔( ستمبر تو اِس خاندان کا دشمن مہینہ ثابت ہوا۔ ماما مامی بھی ستمبر کو فوت ہوئے اور ماما کا بڑا بھائی اور بلوچی کا انقلابی شاعر آزات جمالدینی بھی ستمبر میں انتقال کرگیاتھا)۔ ہمارا استاد، دانشمند، گائیڈ اور راہنما فوت ہوگیا، ہم اپنی روح، دانش اور محبت سے محروم ہوئے۔ راست گو، راست باز، عالم ، باوقار ،ہم سب کوOwnکرنے والا، ہمیں سایہ مہیا کرنے والا، باکمال انسان، پیار و محبت میں ڈھلا اشرف انسان، بلوچستان کا نرم چہرہ اور اس کی مضبوط آواز، بچھڑ گیا۔اور ٹی وی چینلوں اور متبادل عوامی اطلاعاتی چینل یعنی موبائل فون پہ موجود ترقی یافتہ اطلاع رسانی کے سارے ذرائع دو ر و نزدیک’’ سورج ‘‘کے غروب ہونے کی اطلاع سب کو دے چکے۔
پچھلی صدی کی پچاس کی دہائی میں اُس نے نائب تحصیلداری کی پکی نوکری اپنے دیگر تین چار نظریاتی ساتھیوں سمیت اس وجہ سے استعفے کی ٹھوکر میں رکھ دی کہ یہ نوکری اُس کے فکرو نظریات کا الٹ بھی تھی اور رکاوٹ بھی ۔اُس زمانے کی اتنی بڑی نوکری چھوڑ دینے کا اسے زندگی بھر کبھی ملال نہ رہا۔ استعفےٰ کے فوراً اس نے اپنے مستعفی دیگر ساتھیوں سمیت عوامی شعور اجاگر کرنے اور انہیں اپنے حقوق کے لیے منظم ہوکر جدوجہد کرنے کا اڈہ ’’ لٹ خانہ ‘‘ قائم کیا۔
’’ لٹ خانہ‘‘ اُس کی سیاسی زندگی کی ابتدا تھی اور ’’ بلوچستان سنڈے پارٹی‘‘ اُس کے سیاسی سفر کا آخری پڑاؤ تھا۔ ان دونوں زمانی نکات کے درمیان میں اس نے بے شمار طریقوں سے اپنے فکر کی خدمت کرنے کی کوشش کی۔وہ ’’ دیما رووکیں اولس‘‘ کا بانی اور منتظم رہا۔ اس نے کمیونسٹ پارٹی میں خدمات سرانجام دیں ۔ اس نے خیر بخش مری کی تحریک میں بھی 1970 کی دہائی کے اوائل نصف میں حصہ لیا۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی میں بھی رہا۔اور پھر انٹی سردار بی ایس او کا فکری راہنما رہا۔ مگر وہ جہاں اور جس سیاسی لباس میں بھی رہا،سوشلزم کی سیاست کا گمنام سپاہی ہی رہا۔ اُس کے سامراج دشمن اور فیوڈلزم مخالف نظریات کبھی نہ بدلے۔ایسا سیاسی سفر جو بدقسمتی سے اُس کے ادبی و علمی کارناموں اور ذاتی اوصاف میں کہیں اوجھل رہا۔
بلوچستان اور اس پورے خطے میں قومی اور عوامی تحریک کی بنیاد ڈالنے، اُس کی تعمیر، اُس کی نظریاتی بھل صفائی اور اُس کی تنظیم کاری کی بھاگ دوڑ میں عبداللہ جان کا ،کمال کام تھا۔ وہ انسانوں کے دماغ اور فکر کو مغلظات سے پاک کرنے کا ہول ٹائمر تھا۔وہ قوموں کے درمیان نفرتوں کے تائید کنندگان کا سب سے ناپسندیدہ فرد تھا۔ وہ قوموں کے درمیان’’ پرامن بقائے باہم ‘‘کا سب سے بڑا ترجمان تھا۔ زندگی کے دیگر شعبوں ہی کی طرح سیاست میں بھی تعصب، عبداللہ جان کا جانی دشمن رہا۔ سیاست میں وہ جہالت اور جاہلانہ رویوں کا سب سے بڑا مخالف تھا۔وہ عوامی تحریک میں محنت کش طبقے اور خواتین کی شمولیت کولازمی قرار دیتاتھا۔اس نے سیاسی اور سماجی دونوں لحاظ سے قبائلی جنگوں کی مخالفت کی اور ان خون آشام بردار کُش جنگوں کے تصفیے کی کوششوں کو ابھارنے اور بڑھاوا دینے میں ہمیشہ سرگرم رہا۔
سیاست میں البتہ وہ سٹیج ، اسمبلی اور وزارت کی طرف نہ گیا۔ وہ تو ہمیشہ ورکرز کے ساتھ، عام آدمی کے ساتھ رہا۔ پاکستان کی سب سے بڑی اذیت گاہ،شاہی قلعہ بھگتنے کے بعد بھی گرج برس سے بچتابچاتا ،ذہن سازی کرتا رہا۔اُس نے زندگی بھر ہاتھوں میں قلم پکڑانے اور ذہنوں میں انسان دوستی انڈیلنے کی کوشش کی۔
سیاست کے ساتھ ساتھ اُس نے قلم کا غذ کا مورچہ سنبھالا ۔ سب سے مشکل مورچہ ،بلوچ کے ہاں جس کی روایت کم کم تھی۔ اس محقق نے ملافاضل کے بارے میں زبردست تحقیق کی۔اس کے علاوہ فقیر شیر جان کی شاعری جمع کرکے ’’مرگِ مینا‘‘ کے نام سے شائع کی۔ بلوچ کلاسیکل شاعری کا کھوج تو اسے کوہلو ، کولواہ اور کوہِ تپتان کے بیچ پنڈولم بناتا رہا۔
اس نے ’’ بلوچستان میں سرداری نظام ‘‘ نامی بنیادی نظریاتی کتابچہ لکھا جس کا عنوان ہی اس کا متن اور مافیہ ہے۔خاموشی میں، اورتسلسل کے ساتھ وہ بلوچستان میں سرقبیلوی نظام اور جاگیرداری کے خلاف بولتا اور لکھتا رہا۔بلوچ تاریخ میں اس نظام کی بیخ نکالنے والوں میں یوسف عزیز مگسی کے بعد گل خان نصیر،آزات اور عبداللہ جان ہی کے نام آئیں گے۔
’’لٹ خانہ‘‘ بلوچستان میں اُس کے ان روشن فکررفقاکی تحریکی تجربات پر کہانی کی کتاب ہے جنہوں نے اچھی اچھی نوکریاں چھوڑ دیں،اور ادب، صحافت اور سیاست کے میدانوں میں عوامی طرفداری میں جُت گئے۔یہ کتاب بلوچستان میں ترقی پسندی اور بالخصوص ترقی پسند سیاست و ادب کی تاریخ کے ایک متحرک او روشن ٹکڑے کو بیان کرتی ہے۔
اس نے بے شمار تراجم بھی کیے۔لینن کی کتاب ’’ دیہات کے غریب‘‘ اردو میں ترجمہ کرکے چھاپ دی۔ ’’ کرد گال نامک‘‘ کا ترجمہ فارسی سے اردو میں کرکے بلوچ تاریخ کو ایک نئی جہت سے متعارف کرایا۔اس کے علاوہ اس نے چند خوبصورت بین الاقوامی افسانوں کے تراجم کیے۔
ماما نے بے شمار ادبی، سیاسی اورثقافتی مقالے اورمضامین لکھے۔سوانحی مضامین، کتابوں پہ تبصروں والے مضامین، کتابوں کے دیباچوں کی صورت طویل مضامین،سیاست اور معیشت پر مضامین اور بے شمار سیمیناروں کے لیے مقالے ۔ایک آدھ خوبصورت افسانہ بھی لکھا۔اس کی تحریر نہایت سادہ ، مگر پر تاثیر تھی۔ معنے سے بھرپور اور ابلاغ میں بابرکت تحریر۔
’’ زندگی نامک‘‘ اُس کی اپنی سوانح عمری پر مشتمل نا مکمل کتابچہ ہے۔ جہاں اُس نے ایک بچے کی پیدائش کے موقع پر رسم و رواج کا تہذیبی منظر نامہ پیش کیا۔ وہ دراصل بلوچ ثقافت کو اپنی سوانح عمری کی صورت لکھنا چاہتا تھا مگر اس کتاب کو وہ پورا نہ کرسکا۔
’’شمع فروزاں ‘‘اُس کی آخری تصنیف ہے جو سال2006 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ گویا’’ لٹ خانہ‘‘ کی دوسری جلد ہے جس میں اُس نئے دورکے لٹ خانہ کی سیاست و ادب اور اپنے ساتھی ورکروں کا پُرمہر تذکرہ ہے۔اس نے ’’ نا پسندیدہ باتیں‘‘ کے عنوان کے تحت خوبصورت ترین فکری مضامین کا سلسلہ کتابی صورت تک لکھنا چاہا مگر تین قسطیں ہی ’’ سنگت‘‘ میں شائع ہوسکیں جس کے بعد بیماری نے ذہن پر حملہ کرکے اُسے قابو ہی کرلیا۔
اب ذرا صحافت دیکھیے:
صحافت کی ابتدا وہ اپنے بڑے بھائی آزاد جمالدینی کے انقلابی نیم ادبی و نیم سیاسی رسالہ ماہنامہ ’’بلوچی ‘‘ سے کرتا ہے۔ اس نے اُس میگزین کے لیے مضامین لکھے۔ علاقہ علاقہ گھوم کر فوک شاعری اکٹھی کی۔ اور وہ اس رسالے میں بے شمار نئے لکھاریوں کو چھاپتا رہا ۔
بعد میں وہ ماہنامہ نوائے وطن کی آبیاری میں لالا غلام جان شاہوانی کا جوڑی دار رہا۔ نوے کی دہائی میں اُس نے ماہنامہ ’’نوکیں دور‘‘کی ایڈیٹری کی۔ بعدمیں1997 سے لے کر آخری سانس تک اُس کا متبرک نام ماہنامہ’’ سنگت‘‘ کے سرورق کی پیشانی کا جھومر رہا۔ اس نے اِن رسالوں میں عالمی سرمایہ داری نظام اور پاکستان کے معاشی سیاسی اور سماجی نظام کا درست تجزیہ پیش کرکے ملک کے پڑھے لکھے افراد کی علمی اور فکری خدمت کی ۔
اُس کی تنظیم سازی کی مہارت اور فنکاری دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اُس نے سب سے پہلے خرد افروز اور جمہور فکر لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے’’دیمارووکیں اولس ‘‘ (آگے بڑھنے والے عوام) نامی تنظیم قائم کی۔1950 کی دہائی کے اوائل میں سیاسی انقلابی تنظیم’’ لٹ خانہ ‘‘قائم کیا اور دیگر ہول ٹائمر دوستوں کے ساتھ ہمہ وقت اُس پلیٹ فارم سے عوامی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہا۔ یہ گویا اُس تحریک کا ایک کمرے والا ہیڈ کوارٹر تھا جس میں یہ دوست رہائش بھی کرتے تھے اور سیاست، صحافت اور ترقی پسند خیالات بھی پھیلاتے تھے۔ عبداللہ جان نے بلوچستان میں ملک گیر تنظیم ’’پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن‘‘ کی نہ صرف سجاد ظہیر کے ساتھ بنیاد رکھی بلکہ تواتر سے اُس کی تنظیمی نظریاتی آبیاری کی۔ بعد ازاں PWA کے دوسرے جنم کے بطور ،’’ سنگت اکیڈمی آف سائنسز ‘‘کی بنیاد رکھی۔ اس نے بھرپور طور پر اس کی سرپرستی کی اور آخری دم تک اُس کی نظریاتی راہ نمائی کی۔ اسی طرح اُس نے ’’بلوچستان سنڈے پارٹی بنوائی ‘‘۔اور بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار عورتوں کی بڑی اور اوپن انداز میں کام کرنے والی تنظیم ’’سموراجئے ونڈ تحریک ‘‘کا فکری بانی بھی وہی تھا۔
سیاست اور ادارہ سازی کے ساتھ ساتھ وہ اِن اداروں میں سیاسی ورکروں کی ذہنی تربیت کرتا تھا، ہدایت و رشدکے ہول ٹائمر کے بطور وہ ہر ملنے والے کی ذہن سازی کرتا تھا۔ اس نے اِس خطے کے محنت کشوں اور دانشوروں کے ذہنوں کو مارکسزم کی روشنی سے منور کیا۔ اس ملک کے معاشی سماجی اور سیاسی نظاموں کا مارکسزم کے اصولوں سے تجزیہ کرکے انہیں تبدیلی اور ترقی کا راستہ دکھایا۔
وہ محض انفارمل استاد کی حیثیت سے ایسا نہیں کرتا تھا بلکہ وہ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ کا پانی پروفیسربھی رہا ۔سچی بات یہ ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے براہوی، فارسی اور اردو ڈیپارٹمنٹ اُس کی مدد اور تعاون کے بغیر نہ کھل پاتے اور چل پاتے۔تدریس اس کا پسندیدہ کام تھا۔ نوجوان نسل کی ذہنی تربیت کا اس سے اچھا اور بڑا پلیٹ فارم شاید ہی ہو۔دنیابھر میں اس محبت بھرے استاد کے ہزارو ں شاگرد موجود ہیں۔وہ ہمارے دور کے طالب علموں کاسب سے زیادہ پیارا استاد تھا۔
ان سارے کارناموں اور اوصاف میں سب سے مرکزی بات یہ ہے کہ اِس شخص میں ذاتی ستائش کا کوئی جراثیم موجود نہ تھا۔ وہ کبھی القابات کے پیچھے نہ رہا۔وہ کبھی بھی صلہ اور مقبولیت کے چکر میں نہیں پڑا۔ اس حساس انسان نے عاجزی ،انکساری اور خاموشی سے سماجی ذمہ داریوں کو نبھایا۔اس طرح ،جس طرح کمال خان شیرانی کرتا تھا، جس طرح ڈاکٹر خدائے دادکرتا تھا۔
ہم آپ اکثرسنتے رہتے ہیں کہ فلاں شخص ’’ پازیٹو‘‘ آدمی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم آج جس عبداللہ جان کی بات کررہے ہیں وہ ’’ خالص‘‘ ،’’پازیٹو آدمی ‘‘تھا۔ عوامی مقبولیت و احترام میں عبداللہ جان بلوچستان کا’’ بے تاج بادشاہ‘‘ تھا۔
تقدیر ’’فی الحال سٹیشنری مارٹ ‘‘کی بنیادیں رکھنے والے اِس انسان پہ ایک اور لحاظ سے بھی بہت مہربان رہی۔وہ اس کو تسلسل کے ساتھ خوبصورت ٹیم عطا کرتی رہی ۔پہلے دور میں اُسے سائیں کمال خان شیرانی، ڈاکٹر خدائیداد، بہادر خان بنگلزئی، لٹِ اعظم حبیب اللہ، انورا حسن صدیقی، آزات جمالدینی،سبط حسن، گل خان نصیر ، لالا غلام محمد شاہوانڑیں اورغوث بخش بزنجوکی ہمکاری نصیب ہوئی۔
دوسرے مرحلے میں وہ میر عاقل خان مینگل، پروفیسر کرار حسین، خلیل صدیقی ، لائبریرین کاظمی، گل بنگلزئی، ڈاکٹر امیر الدین، پروفیسر بہادرخان، نادر قمبرانڑیں، پروفیسر کرامت علی، تمکین عباسی، سیف الدین بوہرہ اورپروفیسر برکت علی کاساتھی رہا۔
تیسرے دور میں اسے وہ تمام گونڈل اور نابعہ انسان ملے جنہوں نے بلوچستان سنڈے پارٹی، اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز بنا کر، چلا کر ،جاری رکھ کر ،اُس کے ارمان پورے کیے۔ناموں کی فہرست دینا مطلوب نہیں محض یہ بتانا مقصد ہے کہ اُس کو زندگی میں عطا کردہ آخری ٹیم ڈیڑھ دو سو افراد پر مشتمل انرجی سے بھرے ، کمٹ منٹ میں کھرے اور ادارک میں نکھرے اشخاص ہیں ، ایسے افراد جو ہمارے عام روزمرہ ملاقاتیوں سے زیادہ پاک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں،ایک متحرک و باثمرو برکتی طویل زندگی کے مزے لے کر اور اچھائیاں بانٹ کر94 برس کے بعد پچھلی، اوراچھی نسل کے آسمان کا دمکتا ستارہ ماما عبداللہ جان جمالدینی اس فانی زندگی سے پردہ کر گیا۔جب ایک نیک اور متحرک شخص چورانوے برس تک زندہ رہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے انسان کی بھلائی کی کیا کیا خدمات سرانجام دی ہوں گی۔اور یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی خلا ایک شخص نہیں بلکہ بلند افکار و ارفع اعمال کے حامل ’’کئی ‘‘ اشخاص مشترک و واحد بن کر پُر کرسکیں گے۔
وہ وصیت نہ بھی کرتا تو بھی نوشکی ہی میں اس کی قبر بننی تھی کہ گور تو اپنے آبائی گورستان میں ہوتی ہے۔
مگر وہ یہاں بھی ایک انہونی کرگیا۔جس طرح زندگی میں اس نے کبھی سو لو فلائٹ نہ کی اسی طرح وفا کے اس خزینے کو اکیلا مرنے بھی نہ دیا گیا۔اُسے اس سفر میں بھی اس کے شایان شان رفیق عطا ہوئی۔ جیلوں، بے روزگاریوں، اورتنگدستیوں بھری مشترک زندگی گزارنے والی اس کی محبوبہ بیگم بھی اس کے ساتھ روانہ ہوئی۔ دونوں پیر سال محبوب اپنی اپنی بیماری اور بے ہوشی کے ہاتھوں ایک دوسرے کی موت کا غم دیکھے بغیر مرگئے۔بچوں کے ہرے بھرے گھر کو ویران بنانے اور ویران قبرستان کو نورستان بنانے والے ماں باپ دونوں ایک ہی روزچل بسے ۔
یہ تھی ایک انہونی ، ایک نئی تاریخ ،ایک نئی مثال، ایک نیاضرب المثل ۔بیماری کے ہاتھوں موت کا وقت اور دن ،مرنے والا خود متعین نہیں کرسکتا ۔البتہ اس باوفا ، محبت بھری جوڑی نے ایک ہی دن انتقال کرکے ایک نئی سٹوری، ایک نئے ناول، ایک نئی فلم کا موضوع اور سکرپٹ ضرور عطا کردیا۔
یاد رہے کہ دانا اور انقلابی انسان، ہڈی اور گوشت میں توکسی قبیلے قوم سے ہوتے ہیں، مگرفیض میں بین الاقوامی ہوتے ہیں۔ برکت بانٹنے میں مکمل انٹرنیشنلسٹ!!۔ اس کے جنازے کا جلوس بھی بین الاقوامی تھا۔ بہت زبانیں بولنے والے لوگ تھے اس کی قبر پر!!
اُس روز’’عشاق کا قافلہ‘‘ ایسے حال میں نوشکی کی طرف رواں دواں تھا کہ اس کی قیادت اُس کا سربراہ خود کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ فرق یہ کہ اب اُس کی یہ قیادت آخری بار کی قیادت تھی۔اورہمیشہ کے برعکس آج یہ قیاد ت ’’خاموش ‘‘تھی۔ تیسرا فرق یہ تھا کہ اب کی بار یہ قیادت صرف یک طرفہ تھی، کوئٹہ سے نوشکی کی طرف۔ واپسی پر قافلے کو نئی قیادت ( نئی مشترکہ قیادت ) میں کوئٹہ لوٹنا تھا۔
اور جب ہم لپک لپک کرکبھی ماما کی میت کو کندھا دے رہے تھے اور کبھی اپنی کامریڈ مامی کے جنازے کو،تو دور دیس سے صدیق آزاد کامیسج آیا ’’ مڑاھداریں براہندغ ۔ کاش بلوچ سر زمین سے ہزاروں میل دور، میں بھی آج بلوچستان کے نیک او ر پاک ولیوں کی میتوں کو کندھا دینے ، جنوب مغرب کی جانب رواں تمہارے کارواں کے ساتھ ہوتا۔ مگر یہ نیک بختی تمہارے نصیب میں آئی۔ البتہ تم سے یہ خواہش ضرورکرتاہوں کہ بلوچ وطن کی سرمگیں پاک خاک سے ایک مٹھی میری جانب سے بھی ولیوں کی آرام گاہ پر رکھ لینا، میں تیرا لاکھ شکر گزار رہوں گا‘‘۔اور ظاہر ہے کہ ہم نے تعمیل کی۔
قصہ مختصر،ایک دن میں دو میتیں اٹھیں، دو ایمبولنسیں چلیں،دو جنازے ہوئے،اور نوشکی میں کوہِ منجورو کے دامن میں جڑواں قبریں بنیں۔
لیکن ایک اہم بات کہنی تو ابھی باقی ہے۔ عبداللہ جان بیس برس تک فالج میں پڑا رہا۔ آپ حیران ہوں گے کہ بستر گیری کے ان بیس برسوں میں ایک دن بھی اس کا منہ اَن دُھلا نہ رہا۔آپ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان فالجی بیس برسوں میں ایک بار بھی اس کے کپڑے بے استری نہ رہے۔ وہ اس طویل عرصے میں ایک لمحہ بھی unattendedنہ رہا ،اور اس ربع صدی کی معذوری میں وہ ایک اتوار بھی دو درجن سے زائدسکالروں کی محفل سے محروم نہ رہا۔
وہ ہر سنڈے میں بپا ہونے والی اِن محفلوں میں بلوچستان کے سیاسی ورکروں ، ادیبوں اور شاعروں کے ذہنوں کو مارکس کے افکار سے روشن کرتا۔خود بولتا،دوسروں سے بلواتا۔ ایک بحث جنم دیتا اور محفل کو بھرپور نتائج اخذ کروا کر بامقصد بنواتا۔اس کا فکر و عمل ناقابل فراموش ہے اور اتوار محفلیں ہماری دھرتی کی علمی اور عملی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔وہ حاضرین کا شکر گزار رہا کہ اس کے بقول ’’اُس کی زندگی کو طوالت بخشنے کی وجہ ‘‘یہ اتوار پارٹی تھی ۔ ہم بھی اُس کے شکر گزار کہ اس نے زندگی بھر علم اور سائنس کی روشنائی پھیلائی اور عوامی بہبود کا پرچم بلند رکھا۔
اس نے سماج کو عطا کیا، سماج نے اس کی خدمت کی۔ وہ بھی خوش، بے شکایت ، اورپر سکون نیند سونے چلا گیا، اور سماج کا ضمیر بھی مطمئن کہ اُسے واجب عزت و توقیر دی اور اُس کے افکار کو اس کی زندگی میں جاری رکھا۔چنانچہ بکوا س ہے یہ بات کہ ہم ’’ مردہ پرست‘‘ ہیں۔ بالکل نہیں۔یہ سماج قطعاً مردہ پرست نہیں۔ ہمارا سماج اپنے کمال خان، عبدالرحمن پہوال، سی آراسلم ،خدائیداد ، نادرقمبرانڑیں اور عبداللہ جان جیسوں کی اکلوتے بیٹوں جیسی ناز برداریاں کرتا رہا ہے۔
میر عبداللہ جان جمالدینی کی وفات کے بعد کا بلوچستان بہت پیچیدہ ، گھمبیر اور ژولیدہ ہے۔ فکری الجھنیں، تنظیمی فقدان، اور ہم خیالوں کا قحط سب سے بڑے مسائل اور حقیقتیں ہیں۔ اوپر سے نا اتفاقیاں، قبائلی جنگیں، قتل و قتال والے سیاسی اختلافات اور ’’ میں ہی ٹھیک ہوں‘‘ والی نفسیات بری طرح سے سماج کو گھیرے ہوئے ہیں۔
اس منظر نامے میں اُس کی ہم فکر نئی نوجوان نسل اپنی کوتاہیوں خامیوں کمزوریوں کے باوجود مصمم ہے کہ اُس کا قافلہ رواں دواں رہے گا۔ انہیں احساس ہے کہ ایک اور نئی نسل کے بچوں کے جوان ہونے تک عوامی نجات کا پرچم سربلند تھامے رکھنا ہے ۔ کردو مگسی سے لے کر کمال خان خدائیداد عبداللہ جان کے عزائم اورعہد نبھاتے رہنے ہیں ۔ عوام کو مزید متحد اور منظم کرتے رہنا ہے ۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے متعین اہداف کے حصول تک قافلے نے قلعہ کی حفاظت کیے رکھنا ہے۔اور’’بلوچستان سنڈے پارٹی ‘‘کو چلاتے رہنا ہے۔
تماشا دیکھیے کہ اس (BSP)کا اجلاس 25 ستمبربروز اتوار متعین تھا۔ اور وہ اتوار اُس دن آتا تھا جب ماما فوت ہوچکا تھا اور یہ اُس کی فاتحہ خوانی کا آخری دن تھا۔اس کے باوجود اعلان ہوا کہ ’’ آہ ۔۔۔۔۔۔ مگر ہم25 ستمبر کو بلوچستان سنڈے پارٹی(BSP )کا مقررہ اجتماع ضرور کریں گے۔ اور اِس بار ایسا ماما عبداللہ جان کے گھر ہنسی خوشی نہ ہوگا بلکہ اب کی بار آنسو بہاتے ہوئے اُس کی فاتحہ گاہ پہ ایسا ہوگا۔ماما تیری سنڈے پارٹی تیرے ’’ چِتّر، یا، پڑچ‘‘ یعنی تیری فاتحہ خوانی کی تلخ ترین چٹائی پراپنا تسلسل جاری رکھے گی‘‘۔اور پھر اگلے دن شام کو بلوچستان سنڈے پارٹی کی خبر یوں جا چکی تھی:’’آج25 ستمبر کو بلوچستان سنڈے پارٹی نے اپنا بھاری دل اور سوگ ناک اجتماع منعقد کیا۔ اجتماع نے اُسی سرگرمی اور شان کے ساتھ بلوچستان سنڈے پارٹی کو جاری و ساری رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ ہمارے استاد کی میٹھی یادیں ہمیشہ نرم اور پر لطف سایہ کرتی رہیں گی‘‘۔
اس کے نظریاتی وارث اس کے فکر و عمل کی مشعل تاباں رکھتے ہوئے فکرِ ماما کی فتح کو حقیقت بنائیں گے۔عبداللہ جان کی تقریباً سو سالہ زندگی کی لافانیlegacy اور اُس دورکی سنہری جھلکیاں سماجی جمود توڑتی رہیں گی، ہمیں فائن اور ریفائن کرتی رہیں گی، فارم اور ریفارم کرتی رہیں گی ۔
جڑواں قبروں کے بیچ ایک فٹ کے جزیرے پر کھڑے ہم سوچ رہے تھے کہ انسان دوستی پہ کمٹ منٹ کے بطور میر عبداللہ جان کی شکل میں ایک پہاڑ گر گیا۔ اور اس سفر میں باوفا اور محنت کیش بشر دوست مامی زبیدہ جان کی صورت ایک اور پہاڑ گر گیا۔ اور یہ دونوں پہاڑ عام پہاڑ نہیں تھے بلکہ یہ گرم بلوچستان میں ایسے کوہِ گراں اورعالیشان پہاڑ تھے جو پیپل، پرپغ، جنگلی انار، شیریں کونر، معطر’’ مزن سر‘‘نامی درختوں جھاڑیوں سے سرسبز تھے۔ سرداورشیریں چشموں ندیوں سے سیرآب پہاڑ۔ نور اور برکتیں بانٹنے والے پہاڑ۔نظریاتی کمٹ منٹ اورانسان دوستی کے بلند پہاڑ!!
مگر کوئٹہ میں گرنے والے یہ باوقار پہاڑ، بہت دور نوشکی کے بٹو گاؤں کے مشرقی وسیع میدان میں دو جڑواں گران و باوقار پہاڑبن کر دوبارہ اُگ گئے۔ اب کے،ہمارے سفر کی نشانی کے بطور بھی،اور آنے والے قافلوں کی سمت و منزل کا تعین کرنے والے سنگِ میل کے بطور بھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے