مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : ۱۶۳
قیمت : ۲۵۰ روپے
یاد ا شتیں صدرالدین عینی کی کتاب ،یاداشتہا، کے اس حصے کا ترجمہ ہے کہ جس میں اس نے بخارا شہر میں اپنے مدرسوں میں تعلیم کے دوران لکھا ہے ۔شاہ محمد مری صاحب نے اس خوبصورتی سے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے کہ پڑھتے ہوئے اس پر ترجمے کاگمان نہیں ہوتابلکہ یو ں کہ جیسے عینی صاحب نے اردو میں ہی لکھا ہویا پھر یہ کہ مری صاحب نے یہ اپنی داستان لکھی ہو۔ تاجکستان کے ریاست بخارا کی حالت، مدرسوں کا ماحول، طرز تعلیم ، بچوں کی حالت، امیر بخارا کا ظلم و ستم اور اس کے اہل کاروں کی اقربا پروری اور کرپشن کے بارے میں پڑھ کر ایک عجیب گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔ اور یہ گھٹن شاید اس لئے بھی زیادہ تھی کہ میں سوچ رہی تھی کہ ہم آج جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ کہاں تک بخارا کی اس حالت سے مختلف ہے؟ کیا ہم آج ،اس وقت ریاست بخارا سے زیادہ، بہت زیادہ نہیں جھیل رہے؟
علم دوست یا پھر شہرت پرستوں نے تنگ و تاریک، بدبودار، بھاری پن والے مدرسے راہ خدا میں وقف کر دئے تھے۔ یہ مدرسے اسی تاریک، بدبودار اور تنگ نظر ذہنیتوں کی production کر رہے تھے اور یہی ذہننیتیں multiply ہو رہی تھیں۔ وہ مدارس کہ جہاں طلبہ کلمہ اور اسکی تقسیم سے بے خبر تھے بس برف ، آستینوں کے ذریعے ہٹا کر یخ بستہ فرشوں پر بیٹھ کر طوطوں کی طرح رٹے بازی کر کے ایک اچھا ،ملا، بننے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ جہاں شعر و ادب، رقص پر اور درسی کتب کے علاوہ کسی موضوع پر بات کرنا شجرممنوعہ تھا۔حد تو یہ ہے کہ جب عینی صاحب نے ہندوستان کی طبع شدہ شعری کتابچے کی بات کی تو کہا گیاکہ مفت لے جاوٗ یہ بکواس چیز ہے۔
زیارت پرستی کا یہ حال تھاکہ سرمزار جا کر زیارت کرنے،مہمان خانے جا کر صلاوات پڑھنے کے لوگ ماہانہ ۳۰۰ تنگے اور ۳۰ تنگے ماہوار حاصل کرتے جو وہ کبھی خود پر بھی خرچ نا کرتے اور آخر میں یہ نقدی شاہی خزانے میں چلی جاتی اور خود کفن گدا پہن کر زیر خاک چلے جاتے۔ اور مزاروں کے ، قلندر بابا، بیوہ کی طرح پریشان زلفوں، لمبے چغوں میں کتوں کی ہمراہی میں چرس کے دھوئیں اڑاتے اور ساتھ میں اپنے کتے ساتھیوں کو بھی چرس پلا کر مدہوش کرتے۔ یوں ان مزاروں، زیارتوں کا روبار چمکا رہتا اور غریب عوام بے وقوف بنتے رہتے، کہ انکی غریبی کا پیسہ پیسہ ،، قلندروں،، کے ،دنوں، اور ،راتوں، کی عیاشی میں چرس کے دھوئیں کی طرح اڑتا رہتا۔
اس گھٹن زدہ ماحول میں ملا تراب، احمد دانش، مخدوم گو اور پیرک جیسے لوگ روشنی کی کرن اور خود عینی کی شخصیت ہوا کے جھونکے کی طرح تھے۔ جو اس بند ماحول میں درسی کتب کے علاوہ شعر و شاعری، ادب، رقص اور سائنس کی باتیں کرنا، اسے سمجھنا ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا، بارش کی ایک پھوار ہی تو تھا۔ لیکن تنگ نظری کی حد دیکھئے کہ ملا تراب کو روسی زبان سیکھنے پر کافر کا فتوی دیا گیا۔سائنس دان احمد دانش کو جو چاند کی پوزیشن، چاند گرہن کا بتاتا تھا، کو کافروں کے زمرے میں ڈالنا، گمراہ قرار دینا۔مدرسوں کے ٹھیکیداروں نے کسی کو مدرسہ بدر کیا اور کسی کی چاپلوسی کر کے ضیافتیں اڑاتے۔
آپ یہ کتاب یادداشتیں پڑھیں گے اور انسانیت کی تذلیل دیکھیں گے تو آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ عالی مقام امیر بخارا کی حکمرانی میں انسان کشی بڑے آرام سے ان جرائم کے نتیجے میں ہوتی تھی ۔ ایک نے رشوت دی تو کوئی اور بے قصور اسکے بدلے میں قتل، بیٹی حرم امیر میں نہیں پہنچی، بیماری کی وجہ سے کوئی ڈرل میں نہیں پایا، بیگار پر نہیں گیا، کسی نے مزدوری کی اجرت مانگ لی تو قتل، یہاں تک امیر بخارا جیسے بے آبرو لوگوں کی آبرو بچانے کے لئے قتل۔ یہ ظلم کرنے والے انسان تو نہیں تھے، کیوں کہ یہ تو کچھ خاصیتیں ہیں کہ جنکی بنا پر انسان، انسان اور جانور ، جانور ہوتا ہے، ورنہ دوسری صورت میں تو سب جانور۔
مذبح خانے کہ جہاں ان انسانوں کو جانورں کی طرح ذبح کرتے ۔ کتنے کتنے دن میتیں بے گور و کفن پڑی رہتیں اور جب بدبو شروع ہو جاتی تو انہیں شہر سے باہر پھینک دیا جاتا۔ جھوٹ، بے ایمانی، ناپ تول میں کمی، اجرت مانگنے پر مار پیٹ اور جانور کی طرح میخ سے غلاظت میں باندھنا، ملا اوبان کے مزار پر بیٹھ کر جوتے سیدھے کرنے کا تماشا کہ یہ کرامت ہے صاحب مزار کی اور لوگوں سے خیراتیں وصول کرنا، بیٹی کی شادی نہ کرنا اور بارہ سالہ بچی سے نکاح کرکے انکو موت کے حوالے کرنا۔ کیا یہ سب کچھ آج نہیں؟
کیا ان ساری چیزوں سے آج کا انسان دوچار نہیں ؟
کیا اب بھی چند ہی لوگ حکمرانی، سرمایہ داری کی ڈگ ڈگی بجا کرتمام غریبوں کو نچا نہیں رہی؟؟
میں سب سے کہتی ہوں کہ یہ کتاب ضرور پڑھیئے۔ مچھلیاں پکڑتے پکڑتے اسکی بدبو کے اتنے عادی نہ ہو جائیے کہ وہ بدبو محسوس ہونا ہی رہ جائے اور ہم سمجھیں کہ شاید بدبو ختم ہو چکی ہے۔ ظلم سہنے کو عادت نہ بنا لیں۔ اسکے خلاف اٹھیے، چاہے تحریر سے ہو، چاہے تقریر سے ہو اور چاہے میدان جنگ میں!!