اِن شہروں میں زندگیاں تو مرغی کاڈربہ ہیں
دن، دانوں کا ایک کٹورا
جس کوجیون بھرہم ختم نہیں کر سکتے
ڈربے سے باہر بھی توپھندے ہیں!
حِرص بھری بلیوں کے
بھوک زدہ چیلوں کے!
سورج کے پیچھے اُکھڑے پلستر کی دیوار سا بادل ہے
اُس کے آگے مسجد کے مینار ہیں
یا پھر ٹیلی فون کے ٹاور
اُس سے آگے جانے کی کوئی راہ نہیں ہے!
آسمان کے نیچے ہر جانب
چھتوں ، محلوں اور گلیوں کا سرکٹ ہے
یوں لگتا ہے
دنیا ایک کروڑ مربع میل پہ پھیلا بجلی گھر ہے
اِس سے ہم بھاگ نہیں سکتے ہیں
جینے کی کوشش میں جب ہم جلدی کرتے ہیں
ننگی تار سے جھولتا کّوا بن جاتے ہیں
جس کو بچے پتھر مار گرا لیتے ہیں
حرص کی بلی جس کو
شہر کی خفیہ جیب میں چھپ کر کھا جاتی ہے