غلام داری کے طر یقہ پیداوار میں تضادات
انسان کی ترقی کی راہ پر غلامی ایک ضروری منز ل تھی ۔ اینگلز نے قاطع ڈھو رنگ میں لکھا ہے :
’’غلامو ں کے رواج کے بغیر یو نان کی شہری ریاستیں قائم نہیں ہو سکتی تھیں اور یو نان کا آر ٹ اور سائنس وجو د میں نہیں آسکتے تھے ۔ غلامو ں کے بغیر رو متہ الکبریٰ کی سلطنت وجو د میں نہ آسکتی تھی اور ان دو نو ں کے بغیر جدید یو رپ وجو د میں نہ آسکتا تھا ‘‘۔
غلامو ں کی ہڈیو ں پر وہ کلچر پیدا ہوا جو نبی نو ع انسان کی مز ید ترقی کی بنیا د بنا ۔علم کی کئی شا خو ں ، ریا ضی، فلکیا ت اور فن تعمیر نے اس عہد میں خاصی تر قی کی ۔ادب ،سنگ تراشی اور فن تعمیر کے بہت بڑے نمو نے اس عہد کے طفیل ہم تک پہنچے ہیں ۔وہ انسانی تہذیب کا انمو ل خزانہ ہیں ۔
غلام داری سماج کے اندر وہ تضادات مو جو د تھے جو اس کی تباہی کا سبب بنے اس سماج میں پیداواری قوت غلام تھے اوران کا اس قدراستحصال ہو تا کہ اس کے سبب وہ زیا دہ عمر نہیں پا تے تھے۔ اس استحصال کے خلاف غلامو ں نے مسلح بغاو تیں کیں جو اس کی تبا ہی کا مو جب ثابت ہو ئیں ۔ اس نظام کو زندہ رکھنے کے لیے غلامو ں کا حصو ل ضروری تھا ۔یہ بڑی تعداد میں صرف جنگ سے ہی حاصل ہو تے تھے ۔ چھو ٹے خو د کا شت کسان اور دستکا ر اس سماج کی فو جی قوت کی بنیاد تھے ۔وہ فو ج میں بھرتی ہو تے تھے اور جنگو ں کو جا ری رکھنے کے ٹیکسو ں کا بو جھ اٹھاتے تھے ۔ کسانو ں اور دستکارو ں کو ایک طر ف غلامو ں کی محنت کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا جو بڑے بڑے قطعات اراضی اور بڑی بڑی ورکشاپو ں میں کا م کر تے تھے اور دوسری طر ف ٹیکسو ں کا نا قابل برداشت بو جھ بھی اٹھا نا پڑ تا تھا ۔ بڑے بڑ ے قطعات اراضی کے مالکان اور چھو ٹے چھو ٹے قطعو ں کے کا شتکار کسانو ں کا تضاد شدید سے شدید تر ہو تا گیا ۔ خو د کاشت کسان مقابلے کی تا ب نہ لا سکے اور اس طر ح اس دوہرے بو جھ کے نیچے وہ پس گئے ۔اس سے صرف یہ نہیں ہو اکہ غلام داری سماج کی معیشت کو اس سے نقصان پہنچابلکہ غلامو ں کی بنیا د پر قائم تمام سلطنتو ں بالخصو ص رومتہ الکبر ی کی سلطنت کو فو جی اور سیاسی طو ر پر بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچا ۔ان طبقو ں کے کمزور پڑنے سے جنگی فتو حا ت کا زمانہ ختم ہوگیا اور جنگو ں میں شکستیں ہونے لگیں اور فتو حات کی جگہ دفاعی جنگو ں نے لے لی ۔فتوحات کے بند ہو نے سے غلامو ں کی فراہمی بند ہو گئی اور پیداوار میں انحطاط آگیا ۔ رومتہ الکبری کی آخری دو صدیو ں میں پیداوار کا زوال انتہا کو پہنچ گیا ۔اس سے تجارت کو دھکا لگا۔ وہ زمینیں جو پہلے سو نا اگلتی تھیں غلامو ں کی فراہمی نہ ہو نے سے برباد ہو گئیں۔ دستکاری تباہ ہو گئی ۔شہر اجڑ گئے ۔ غلامو ں کی محنت کی محنت کی بنیاد پر جو پیداواری رشتے قائم ہو ئے تھے وہ سماج کی پیداواری قوتو ں کی نشو نما کے لیے بیڑیاں بن گئے ۔غلامو ں کو پیداوار میں کو ئی دلچسپی نہ تھی اس با ت کی تا ریخی ضرورت پیدا ہو ئی کہ غلام داری کے پیداوار ی رشتو ں کی جگہ دوسرے دوسرے پیداواری رشتے قائم ہو ں تا کہ سماج کی پیداواری قوتو ں کی نشو نما کے راستے کی رکاوٹیں دورہوں ۔سماج میں معاشی تر قی کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری قوتو ں اور پیداواری رشتو ں میں ہم آہنگی اور مطابقت ہو ۔اس قا نو ن تقا ضہ تھا کہ غلامو ں کی جگہ ایسے کا کرنے والے انسان لیں جو پیداواری عمل میں کسی حد تک دلچسپی رکھتے ہو ں ۔
غلامو ں کی پیداوار میں عدم دلچسپی کی وجہ سے کیثر تعدادمیں غلام رکھنے والے آقاو ں کے لیے اتنی بڑی تعداد میں غلام رکھنا منفعت بخش نہیں راہا اور انہو ں نے ایسے غلامو ں کے گر و ہو ں کو آزاد کر نا شروع کر دیا جو ان کے لیے آمدنی کا ذریعہ نہیں تھے ۔انہو ں نے اپنے وسیع قطعات اراضی چھو ٹے چھو ٹے ٹکڑو ں میں تقسیم کر دیئے اور یہ ٹکڑے یا توان غلامو ں کو چند شرائط پر کا شت کے لیے دے دئیے جنہیں انہو ں نے آزاد کیا تھا یا ان آزاد شہر یو ں کو مزارعت پر دے دئے جو اپنے خو د کا شت رقبے چھن جانے کی وجہ سے بے کا ر ہو گئے تھے ۔ یہ نئے کا شتکا ر زمین سے با ندھ دئیے گئے تھے اور وہ اسے چھو ڑ نہیں سکتے تھے زیر کا شت اراضی کسی دوسرے کے پا س بک جانے سے یہ بھی بک جاتے تھے لیکن وہ پہلے سے غلام نہیں تھے ۔انہیں
چو نکہ پیداوار کا ایک حصہ ملنے لگا تھا اس لئے پیدا وار میں دلچسپی غلامو ں کی نسبت زیا دہ تھی ۔اس عمل سے غلام داری سماج کے بطن میں جا گیری طر یق پیداوار کے عناصر پیدا ہو گئے اور غلام کی جگہ صرف (رعیتی غلام ) غلام نے لے لی ۔
غلام داری نظام میں طبقاتی کشمکش
*غلامو ں کی بغاوتیں اور غلام داری سماج کا خاتمہ *
قدیم ایشیا ۔یو نا ن اور رومہ کی غلام داری سماج کی تا ریخ سے واضح ہو تا ہے کہ غلام داری سماج کی معاشی نشو نما کے ساتھ طبقاتی کش مکش بڑھی جو غلامو ں اور آقاؤ ں کے درمیان تصادم کی شکل اختیا ر کر گئی ۔غلامو ں کی بغاوتیں پھو ٹ نکلیں اور غلامو ں نے غلام داری سماج کے دستے کے ساتھ مسلح بغاوت کا آغاز کیا ۔
اس سماج میں دوسراتضاد چھو ٹے قطعات کے خو د کا شت کسانو ں اور بڑے مالکان کے ما بین تھا جو غلامو ں سے کا شت کراتے تھے ۔ اس تضادنے اس سماج میں آزاد کسانو ں اور دستکا رو ں کی جمہو ری تحریک کو جنم دیا جس کا مقصد قر ضو ں کا خاتمہ ، زمین کی ازسر نو تقسیم اور آقاو ں کے ہا تھو ں سے اقتدار عوام ( آزاد کسانو ں اور دستکارو ں ) کو منتقل کر نا تھا ۔
رمتہ الکبر یٰ کی سلطنت میں غلامو ں کی بہت بغاوتیں ہو ئیں جن میں سب سے بغاوت 84قبل مسیح میں شرو ع ہو ئی اور تین سال تک جا ریرہی ۔اس بغاوت کا لیڈر ’’سپار ٹس ‘‘ تھا اس کانام غلامو ں کی جد و جہدکی تا ریخ میں ہمیشہ رو شن رہے گا غلامو ں کی بغاوت میں غریب خو د کا شت کسانو ں نے ہمیشہ ان کاساتھ دیا آقاوں نے یہ بغاوتیں ہر با ر بہیمانہ طر یقو ں سے دبا دیں ۔
*******
غلامو ں کی بغاوتو نے عظیم رومتہ الکبری ٰ کی بنیا دیں ہلاکر رکھ دیں اور اس سلطنت کی جڑیں کھو کھلی کر دیں اند ر سے غلامو ں کی بغاوتیں اس پر کا ری ضر بیں لگا رہی تھیں با ہر سے بیر ونی حملہ آوروں نے اس پر ضر بیں لگا نا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں یہ عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ۔
رو متہ الکبریٰ کے زوال سے تقریبا ہر جگہ غلام داری کے سماج کا خاتمہ ہو گیا اور اس کی جگہ جا گیر داری نظام پیداوار نے لے لی ۔

غلام داری سماج کا خاتمہ
غلام داری سماج کے عہد کے معاشی نظریات اس زمانے کے شاعر و ں ، مو ر خو ں اور سیاست دانو ں کی کتابو ں میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کے نز د یک غلام کو انسان نہیں سمجھاجا تا تھا بلکہ انہیں اپنے آقا کا ایک آلہ پیداوار تصور کیا جا تا تھا ۔اس سماج میں محنت کو ذلیل سمجھا جا تا تھا محنت آزاد لو گو ں اور آقاوں کا کام نہیں تھا ۔بلکہ صرف کا کام تھا کہ وہ اپنے ہا تھو ں سے کام کر یں ۔
جو غلام اپنے آقاسے بھا گے اس کی سزامو ت تھی ۔جو خو د کا شت کسان قر ضہ ادانہ کر سکے یالگان نہ دے تو اسے اس کے عوض اپنی بیوی ، بیٹے یا بیٹی کو غلام کے طو ر پر فر ض خواہ یا زمین کے ما لک کو دینا پڑتا تھا ۔ہندوستان میں ’’منو ‘‘ نے غلامو ں کے با رے میں جو قوانین واضع کیے تھے ان مین غلام جا ئیدادنہیں رکھ سکتا تھا اور غلام کے بھا گنے کی سزامو ت تھی ۔
حکمرانو ں کے طبقو ں کے نظریات ہی اُس عہد کے مذاہب کی بنیا د ہیں ۔ ہندوستان میں بدھ مت نے جس کو چھٹی صدی قبل مسیح میں فروغ ہواتھا یہ اصول بنائے تھے کہ تشددکا مقابلہ نہ کیا جائے ،حاکمو ں کی فرمانبرداری کی جائے ۔اس مذہب میں انکساری کو بلند مر تبہ دیا گیا تھا ۔بدھ مت اس عہد کے غلامو ں کے آقاؤ ں کا مذہب تھا ۔جنہو ں نے اُسے غلامو ں پر اپنے غلبے کو قائم رکھنے اور مضبو ط کے لیے استعمال کیا ۔
یو نان کا مشہو ر فلا سفر افلاطون جو پانچویں صدی قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس نے ’’یو ٹو پیا ‘‘ نام کی ایک کتاب تحریر کی اور اس میں ایک خیالی سماج کی تصویر کشی کی ۔اس کا یہ مثالی اور خیالی سماج غلامی کے سماج کے سوائے کچھ اور نہیں تھا ۔اس کے نزدیک غلامو ں ، کسانو ں اور دست کاروں کا کام حاکمو ں ، جنگی جر نیلو ں اور
دانشو رو ں کے لیے ضروریاتِ زندگی مہیا کر نا تھا ۔ اسی طر ح ارسطو جو چو تھی صدی قبل مسیح کا مفکر ہے اس کے نزدیک بھی سماج کے لیے غلامی نا گزیر تھی ۔ارسطو کے خیالات نے اپنے زمانے اور قرون وسطیٰ میں نظر و فکر پر گہرااثر ڈالا ۔ ارسطو اپنے خیالات کے لحاظ سے اپنے زمانے کے دوسرے مفکروں سے بلند تھا لیکن جہاں تک غلامی کا تعلق ہے وہ اپنے عہد کے ان نظریات سے بلند نہ ہو سکا جو غلامی کے با رے میں اُس وقت رائج تھے ۔ اس کے نزدیک غلام قدرت کا عطیہ تھا ۔ اُس کی رائے میں قدرت کا یہ تقا ضہ تھا کہ کچھ انسان غلام بن کر کام کریں اور کچھ اُن پر حکومت کریں ۔غلاموں کی محنت اس لیے بھی ضروری تھی کہ آزاد انسان اپنی ذات کی تکمیل کر سکیں ۔ وہ تجارت کے حق میں تھا لیکن منافع خوری اور سود خو ری کے خلاف تھا کیو نکہ اس کے نزدیک اس سے دولت کی حر ص بڑھتی تھی ۔
اہل رومہ کے نزدیک غلام پیداوار کا محض ایک آلہ تھا ۔پلو ٹار ک نے جو کہ رومیو ں کا مشہور مو رخ ہو گزرا ہے غلامو ں کے ایک آقا’’کا ٹو ‘‘ کے حوالے سے بتایاکہ غلام خریدتے وقت اس با ت کا خیال رکھا جا ئے کہ وہ چھو ٹی عمر کے ہوں کیو نکہ چھوٹی عمر کے غلامو ں کو مو یشیو ں کی طرح سکھا یا اور سدھایا جا سکتا ہے ۔اور غلامو ں کو اپنے تا بع فر مان رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان میں پھو ٹ ڈالی جا ئے ۔روماکی سلطنت کے زوال کے عہد میں شہرو ں اور دیہات میں غلامو ں ، دستکا رو ں اور بیکار کسانو ں کی کثیر آبادی جمع ہو گئی تھی جن کااس عہد کے پیداواری رشتو ں پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا اور وہ غلامی کے سماج کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ئے تھے ۔ان کی بغاوتو ں سے غلامی کے سماج کے نظریات میں ایک بحران آگیا ۔ان کی طبقاتی کشمکش نے ایک نئے نظرئیے کو جنم دیا ۔ یہ نیا مذہب عیسائیت تھا ۔یہ در اصل غلامو ں ، تباہ حال دستکا روں ‘اور چھو ٹے کسانو ں کی اپنی تباہی اور غلامی کے نظام کے جبرو ظلم کے خلاف صدائے احتجاج تھی ۔عیسائیت میں حکمران طبقے کی ضروریات کا اظہار بھی تھا ۔اس نے امراء اور آقاؤں کو خبر دار کیا کہ وہ ظلم سے با ز آجائیں ،انکساری اختیار کر یں اور اپنی نجات کی فکر کر یں اور عذاب قبر سے بچیں ۔حکمران طبقہ نے عیسائیت کو قبو ل کر لیا اور عیسائی مذہب کے نظریات کو اپنے بچاؤکے لیے استعمال کرنے لگے اوردبے اور کچلے ہو ئے مظلو م عوام کو دوسری دنیا میں انعام واکرام کا لالچ دے کر انھیں اپنی قسمت پر قانع رہنے کی تلقین رہنے لگے اورمذہب کی تعلیم سے اپنی لو ٹ کا جو ازان کے سامنے پیش کر نے لگے تا کہ وہ صبرو شکر سے ان کی لو ٹ کو برداشت کرتے رہیں ۔
خلاصہ
1۔ غلام داری سماج کا طر یق پیداوار سماج کی پیداواری قوتو ں کی ترقی اور زائد پیداوار کے وجو د میں آنے اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت بننے سے پیداہواجس میں ذرائع پیداوار کے مالک زائد پیداوار کو اپنے تصرف میں لانے لگے ۔غلامی استحصال کی سب سے پہلی اور بھدی صورت ہے جس میں انسان نے انسان کا استحصال کر نا شروع کیا ۔
2۔ چو نکہ غلامی کے سماج میں طبقات پیدا ہو گئے تھے ۔ان طبقات کے پیداہو نے سے ریا ست پیدا ہو گئی ۔چو نکہ طبقات کے مفادایک دوسرے سے ٹکراتے تھے ۔ان متحارب طبقو ں کی کشمکش نے ریا ست کے وجود میں آنے کو نا گزیر بنادیا تاکہ لو ٹے جانے والے طبقوں کو لو ٹنے والے طبقو ں کی خاطر دبایا جا سکے ۔
3۔ غلام داری سماج کامعاشی نظام فطری تھا اور اس میں پیداوار مقامی استعمال کے لیے ہو تی تھی ۔جہاں تک تجارت کا تعلق تھا وہ صرف غلامو ں اور تعیش کے سامان کی ہو تی تھی ۔اس عہد میں تجارت کے فر و غ کے سبب سکہ کا رواج بھی شروع ہوا ۔
4۔ غلام داری سماج کے طریقِ پیداوار کا بنیا دی معاشی قانو ن یہ تھا کہ زائد پیداوار جو آقا غلامو ں کی بے تحاشالو ٹ سے حاصل کرتے تھے ان کی ضروریا ت کو پو را کر تی تھی ۔آقا ذرائع پیداوار اورغلامو ں کے مالک تھے۔ اس معیشت میں خودکا شت کسان اور دستکا ر تباہ ہو ئے اور آقاو ں کے غلام بنے ۔غلام حاصل کرنے کا دوسراطر یقہ جنگیں تھیں ۔ جنگی قیدی بھی غلام بنائے جاتے تھے ۔ اور مفتو ح علا قے کے لوگ بھی ۔
5۔ غلامی کی بنیاد پر آرٹ ، فلسفے اور سائنس کے علو م میں ترقی ہو ئی۔ لیکن اس ترقی کا فا ئدہ غلامو ں کے آقا ؤ ں کو پہنچا ۔اس سماج میں لوگو ں کا سماجی شعور ، طر یقِ پیداوار اور پیداواری رشتو ں کے مطابق تھا ۔حکمران طبقے اور دانشور غلامو ں کو انسان نہیں سمجھتے تھے ۔چو نکہ محنت ومشقت صرف غلام کر تے تھے اس لئے محنت اور مشقت کو ذلیل سمجھا جا تا تھا ۔جو کہ کسی آزاد انسان کے شایانِ شان نہیں تھی ۔
6۔ ابتدائی سماج کی نسبت غلامی کے سماج میں پیداواری قوتوں کوترقی ہو ئی ۔اس نظام میں چو نکہ غلامو ں کو پیداوار میں کو ئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے غلام داری کے سماج کی افادیت ختم ہو گئی ۔غلامو ں کو کو ئی تحفظ حاصل نہیں تھا جس سے سماج کی بنیاد ی قوت یعنی غلام‘ محنت کی سختی اور فا قوں کے سبب جلد مر جاتے تھے ۔چھو ٹے کسان اور دستکا ر اس سماج میں نہ پنپ سکے۔ یہ اسباب غلام داری سماج کی تباہی کا با عث بنے ۔
7۔ غلامو ں کی بغاوتو ں نے غلام داری سماج کی بنیادیں ہلادیں اور اس کوتباہی کے کنارے پہنچا دیا ۔غلام داری طر یقِ پیداوار کی جگہ جا گیرداری طریق پیداوار نے لے لی ۔غلامی کا استحصال ختم ہوا اور اس کی جگہ جا گیری استحصال قائم ہوا ۔جا گیرداری نظامِ پیداوار کے قائم ہو نے سے سماج کی پیداواری قوتو ں کی مزید ترقی کے امکانات پیدا ہو ئے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے