سکو ل جانے کے لیے جیسے ہی وہ گلی سے گزر کر میدان میں نکل آئی ، اسے پھر وہی خبط الحواس بڑھیا نظر آئی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے ، چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی کہ جیسے اس نے کئی دن سے کچھ نہ کھایا ہو یا پھر وہ بیمار ہو۔ اس کے دونوں آستین کہنیوں کے مقام پر پھٹے ہوئے تھے، جس سے اس کا میل سے اٹا ہوا وجود جھانک رہا تھا ۔ قمیض کا سامنے کا دامن بھی دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔ اس کے پاؤں ننگے اور زخمی تھے۔ وہ مٹی اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی اور جانے کیا خودکلامی کر رہی تھی۔سنجی کو دیکھ کر وہ اٹھی ۔ زور زور سے قہقہے لگانے لگی اور تالیاں پیٹنے لگی۔
’’ تم شادی میں جا رہی ہو نا۔۔۔؟ ہاں، گاؤں میں بارات آئی ہے۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔‘‘وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔ سنجی کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں پکڑ لیا ہو۔ ’’ڈولی اٹھنے والی ہے۔۔۔دیکھو، یہ دیکھو میں نے مہندی لگائی ہے۔۔۔ اچھی ہے نا؟‘‘ پھر اس نے چیخنا شروع کر دیا اور مٹی اڑاتے ہوئے وہاں سے چل پڑی۔ دور تک سنجی کو اس کے رونے ، قہقہوں اور باتوں کی آوازیں آتی رہیں۔
سنجی کا تبادلہ ابھی کچھ ہی دن پہلے اس دور افتادہ گاؤں کے ایک سکول میں ہوا تھا۔ سکول گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ بس ایک نہر اور ریل کی پٹڑی ہی تو پار کرنا تھی، وہ پیدل پیدل ہی سکول چلی جاتی تھی۔ ایک ہفتے میں کوئی تیسری بار اس کا سامنا اس بڑھیا سے ہوا تھا ۔ہر دفعہ ہی وہ سنجی کو بے چین کر جاتی تھی۔ پتہ نہیں کیوں اس کے قہقہوں میں اسے ایک دل چیر دینے والے درد کا احساس ہوتا تھا اور اس کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ تو اس نے مس نسرین سے پوچھ بھی لیا کہ یہ بڑھیا کون ہے اور اس کی یہ حالت کب سے ہے ،تب نسرین کلاس لینے جا رہی تھی ، کہا کہ یہ ایک لمبی کہانی ہے، کبھی تسلی سے بیٹھ کر تفصیل سے سناؤں گی۔
بڑھیا کو سوچتے سوچتے سنجی سکول کی طرف مڑ گئی۔
رات کو پتہ نہیں کیا بات تھی، سنجی کو شدید بے چینی سی ہو رہی تھی۔ موسم بھی جانے کیوں بہت غصے میں تھا۔ گردو غبار کا ایک طوفان تھا۔ دروازے ،کھڑکیاں زور زور سے بج رہے تھے۔ دور کہیں سے کتے کے رونے کی آواز گاہے بگاہے آتی تو فضا میں خوف اور دہشت بڑھ جاتی اور ایک جھر جھری سی پورے بدن میں سرایت کر جاتی۔ اچانک ہوا کے زور سے کوئی برتن گرا ا ور دور تک لڑھکتا چلا گیا۔ اس نے ڈر کے مارے بتی روشن کی، دوپٹہ کھینچ کر کندھوں پر ڈالا اور جلدی سے بچوں کے کمرے میں جا کر ان کے ساتھ لیٹ گئی ۔لیکن اس کے باوجود بھی ساری رات جاگتی رہی۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی۔
آسمان سرخ تھا اور ریت اور مٹی کی دھند سی فضا میں چھائی ہوئی تھی۔طوفانی ہوائیں اسی درشتی سے چل رہی تھیں ۔ اس نے بچوں کو سکول بھیجا اور خود بھی تیار ہوکر نکلی۔ گندم کے کھیتوں سے نکل کر وہ نہر کی جانب مڑی اور پھر لکڑی کے پُل پر گزر کر نہر کو پار کیا۔ اب وہ پٹڑی پر تیز تیز سکول کی طرف جارہی تھی کہ اسے وہی قہقہے سنائی دینے لگے۔ دور سے وہ بڑھیا آتی ہوئی نظر آئی۔ قریب پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ اس کی کہنیوں سے خون رِس رہا تھا اور اس کے پاؤں بھی جگہ جگہ سے چِھل گئے تھے۔ وہ دل خراش قہقہے لگا رہی تھی ۔۔۔’’ہاہاہا، دیکھا گاؤں میں بارات آئی ہے۔۔۔سنو ۔۔۔ سنو۔۔۔ ڈھول بج رہا ہے !‘‘ اس نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے کان کے گرد رکھ کر جیسے سنتے ہوئے کہا،’’ تم شادی میں جا رہی ہونا۔۔۔؟ یہ دیکھو میں نے مہندی لگائی ہے۔۔۔ اچھی ہے نا۔۔۔؟‘‘ اس نے اپنی چھلی ہوئی ہتھیلیا ں سنجی کے آگے کھولیں۔
موسم اور بڑھیا کی باتوں نے سنجی کا اندر ایک دکھ اور خوف سے بھر دیا ۔ وہ تقریباً بھاگتے ہوئے سکول کی طرف مڑ گئی۔
’’ گل بی بی کو اس کے دولہا نے قتل کر دیا‘‘، سکول میں داخل ہوتے ساتھ ہی یہ منحوس خبر اس کے کانوں میں پڑی تو وہ لرز گئی اور اس کے قدم وہیں جم گئے۔
’’ ابھی کل ہی تو اس کی شادی ہوئی تھی!‘‘ دھڑکتے دل اور کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ اس نے کہا۔
’’ یہ کوئی نئی بات نہیں اس گاؤں میں‘‘، نسرین نے آنکھوں میں آنسو لیے جواب دیا۔
دھول مٹی اڑی اور اور ریت کے ذرے ان کے چہروں پر زور سے لگے۔ سرخ آسمان نے ساری کائنات کو اپنی سرخی میں لپیٹ لے لیا تھا۔ طوفانی ہوائیں بھی جیسے آہیں بھر رہی تھیں ۔ کائنات کی ہر شئے گویا احتجاج کر رہی تھی۔
بچوں کو چھٹی دے کر سارا سٹاف گل بی بی کے گھر جانے کے لیے تیار تھا۔ قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے پھر وہی بڑھیا نظر آئی مٹھی بھر بھر کر مٹی فضا میں پھینک رہی تھی ۔ کبھی قہقہے لگا رہی تھی ،کبھی رونے لگتی تھی، اور چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی،’’ بارات آئی ہے۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ ابھی ڈولی اٹھے گی۔۔۔! تم شادی میں جا رہی ہو نا۔۔۔؟‘‘ اس نے عین سنجی کے سامنے کھڑے ہو کر پوچھا تو سنجی کے سینے ہچکیاں ٹوٹنے لگیں۔
گل بی بی کے گھر میں جب وہ لوگ داخل ہوئے تو کافور کی بو نے ان کے نتھنوں میں گھس کر ان کا استقبال کیا۔ چوکھٹ پر ایک چادر پڑی تھی ،سب اس پر قدم رکھ کر آگے بڑھتے رہے۔ سائیں سائیں کرتی تیز ہوا چلی اور چادر دور تک اڑتی چلی گئی۔ صحن لوگوں سے بھرا ہوا تھا لیکن ایک دل پکڑنے والی خاموشی تھی۔ ایک سکوت تھا جو جان لیے جا رہا تھا۔ گھر کے درودیوار تک سے ایک خوف اور وحشت ٹپک رہی تھی۔ موت نے چار سو اپنا بسیرا کیا ہوا تھا۔ عورتوں کے جمگھٹے کو چیرتے ہوئے وہ بڑی مشکل سے سترہ سالہ دلہن کی لاش کے قریب پہنچی۔ گل بی بی شادی کے سرخ جوڑے میں پڑی تھی ۔ مہندی رچے ہاتھ پاؤں لیے دلہن بنی گل بی بی کے زرد چہرے پر ٹوٹی حسرتوں کا ایک جال سا بنا ہوا تھا اور اس کے ناک کی نتھنی اس کے مسکراتے لبوں کے ساتھ ہم آغوش ہو کر اس کے درد کا ماتم کر رہے تھے۔
سنجی منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ کو روکتے ہوئے پیچھے ہٹ آئی۔ اس کا دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا ۔وہ زور زور سے چیخنا چاہتی تھی۔
گل بی بی کی ماں ، اماں بختاور کے رونے کی آواز آئی کہ پیچھے سے کسی مرد نے چیخ کر کہا ،’’ بند کرو یہ آواز۔ رونے دھونے کی ضرورت نہیں۔ غیرتوں کا جنازہ نکالنے والی کے پیچھے کون رویا ہے آج تک۔سیاہ کار تھی تیری بیٹی!‘‘ اماں بختاور نے ڈر کے مارے اپنے دوپٹے کا پلو منہ میں ٹھونس لیا اور آنسوؤں کا بند اس کے گالوں پر ٹوٹ گیا۔
اچانک قہقہوں کی آواز آنے لگی۔ سب نے دروازے کی طرف دیکھا کہ ایسی حالت میں یہ قہقہے عجیب لگے۔
’’ ہاہاہا۔۔۔بارات آئی ہے۔۔۔ دلہن نے ہاتھوں پر مہندی لگائی ہے۔۔۔ڈولی اٹھے گی۔۔۔!‘‘ سنجی کی تو چیخیں نکل گئیں اور اس کے ساتھ ساری عورتوں نے رونا شروع کردیا۔ پاس بیٹھی خالہ زلیخا نے کہا ،’’ اماں رشیدہ کی بیٹی جہاں آرا کو بھی تین سال پہلے اسی طرح شادی کی رات قتل کر دیا تھا ،تب سے یہ بے چاری پاگل ہے اور اسی طرح گاؤں کی گلیوں اور قبرستانوں میں چیختی رہتی ہے۔‘‘
پھر تو سنجی اپنی چیخوں پر قابو نہ رکھ پائی ۔رو رو کر کہنے لگی ،’’ غیرت مندوں کی غیرت کی چادریں لوگوں کے قدموں میں آتی ہیں۔۔۔ غیرت مندوں کی غیرتیںیوں ہی گاؤں کے چپے چپے میں رلتی ہیں ، یوں ہی منوں مٹی تلے جا سوتی ہیں، رسوا ہوتی ہیں ۔۔۔‘‘
جنازہ اٹھا۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ اماں بختاور غش کھا کر گر پڑی ۔ عورتیں اس کی طرف آوازیں دیتے ہوئے بڑھیں۔ گل بی بی کی ڈولی بڑے سے صحن سے گزرتے ہوئے گھر کی چوکھٹ کو پار کر گئی اور اس پر ڈالی ہوئی سرخ چادر کا پلو دُور دُور تک اڑ اڑ کر گل بی بی کے گھر والوں کی غیرت پر تالیاں بجا رہا تھا۔
بوڑھی اماں رشیدہ کے دل دوز قہقہے فضا میں بلند ہو گئے ۔
’’ ہاہاہا۔۔۔ ڈولی اٹھی ہے۔۔۔ دلہن جا رہی ہے۔۔۔ہاہاہا۔۔۔!!‘‘ اور مٹی اٹھا اٹھا کر اڑاتی رہی۔