آج کادانشور چاکر اور میرالی کے درمیان تلواروں کی جنگ روکنے کے لیے نہیں لکھے گا اس لیے کہ وہ اُس عصر، اُس دور میں رہتا نہیں۔ آج کے عصر میں تو شعور کی آزمائش یہ ہے کہ وہ ایٹمی جنگ کے خطرات کو کیسے بھانپتا ہے جو صرف انسانوں کو تباہ نہ کرے گی بلکہ درختوں، پرند چرندوں، پانیوں، ہواؤں کو بھسم کر ڈالے گی۔
سڑک پر جمے خون کے داغ دھبے
مرے راہ گیروں کا زاد سفر ہیں
آج کا شعور یہ ہے کہ دانشور اس بے رواج دہشت گردی کو کیسے دیکھتا ہے جہاں خون کے دھبے راہ گیروں کا زاد سفر بنا دیے گیے ہیں ۔
کھلی فضا اور نیلے آسمان میں پھیلائی گئی کثیف آلودگی اور تابکاری کی حساسیت کا اس کے ہاں کیا پیمانہ و پیمائش ہے ۔ و ہ دنیا میں پانی کی قلت کو کس طرح دیکھتا ہے۔ اسے ٹکنالوجی کی اجارہ داری کس قدر بے چین کرتی ہے۔ اسے چار چودھار میں جاری روایتی اور غیر روایتی جنگیں کتنا تڑپاتی ہیں۔ اسے خطے میں گولیاں وردیاں پرچمیں داڑھیاں سیٹیاں لاٹھیاں، خون آشامیاں کیسی لگتی ہیں۔اُسے اشرف ترین آرٹ کے نمونے یعنی انسان کی لاش کو مسخ کرنا کتنا برا لگتا ہے۔ وہ ترقی کے ثمرات عام انسان تک پہنچانے کی ضرورت کا کتنا زور دار اظہار کرتا ہے۔ وہ سرمایہ کی آمریت سے نجات کی خواہش کوکس قدر شاعرانہ جمالیات عطا کرتا ہے۔ وہ شخصی آزادیوں کی ضرورت سے کس طرح نمٹتا ہے۔ وہ پیار کو کس طرح لیتا ہے۔ فرد سے بین الاقوامیت پسندی تک کا اس کا نکتہ نظر کیا ہے۔ ’’ خیر‘‘ اُس کے ہاں کیا معانی و اہمیت رکھتی ہے۔
اس لیے اب مروج بڑی بڑی اصطلاحات کے مردانہ و زنانہ ڈبوں کے چکر میں پڑے بغیر، تنقید نگار کو کانٹنٹ کی اولیت کو دیکھنا ہے اور پھر، اِس کانٹنٹ کو اُس کے فارم کے ساتھ جمالیاتی توازن و مناسبت کی سطح پر پرکھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور میری کچی پکی دانست میں ثروت زہرا اِسی ترازو میں تُل رہی ہے، ترازو جو ابلتے تیل میں تَلنے کا عمل ہے ۔ ہماری یہ شاعر اور دانشور عصرِ حاضر کے شعور کا توشہ دوپٹے کے پلو میں مضبوطی سے باندھے لکھ رہی ہے بول رہی ہے۔
ثروت کی شاعری میں تعلیم و صحت کی نعمتوں سے محروم انسانوں کا حصہ ضرور دیکھا جائے ۔جس بڑی بات نے اُسے توکلی اور لطیف کے قافلے کے آخری اونٹوں میں شامل کیا وہ تو ’’عورتوں کے سماجی مرتبے کی بحالی ‘‘ کا عنوان ہے۔ اس کے بغیر عہد کے گیٹ کے دربان کے چہرے کی کرختگی قطعا نرم نہ پڑے گی۔ مردانہ، طبقاتی ، اور سامراجی سماج میں سموکی قوم ،یعنی عورتوں کے ’’ونڈ‘‘اور ’’حصے‘‘ کا معاملہ بہت اہم رہا ہے۔محنت ، پیداوار ، اور سماجی مقام میں عورت کے حصہ کا معاملہ ہے۔ محترمہ سموکی قوم ابھی تک نہ تو اپنے حقوق سے واقف وبا شعور ہے نہ منظم و متحد ہے ۔ ایسے بے ادراک گروہ کو موضوع بنائے رکھنا جاریہ نیکی ہے۔ سو ہماری ثروت نیک ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ عورت کی محنت مشقت سے فرار چاہتی ہے ۔ اُسے تو بس ’’ بستر سے باورچی خانے کے درمیان دفن ہو چکی اپنی زندگی ‘‘ کو تسلیم کروانا ہے ۔ اُسے کراہت کی منڈی میں اپنی مشقت میں بہت ساری آسانیاں پیدا کرنے کی طلب ہے۔ اور اُس مشقت کی درشتگی ،طوالت اور یکسانیت کی مطابقت میں اجرت اور مقام ملنے کی امنگ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارے جیسے بے پرواہ ، مردانہ جابر معاشرے میں عورت کی طرفدار شاعرو دانشور کو عورت کی مشقت کو تسلیم کرانے کے لیے بہت سارا مواد اور وقت اُس مشقت کی سختی کی تفصیلات بیان کرنے میں صرف کرنا پڑتا ہے، ایک حساس معاشرے کو جس کی ضرورت قطعاً نہ ہوتی۔
ایک بات بہت عجیب ہے کہ ثروت اور روس کے لینن کو باورچی خانے کی یکسانیت اور رو بوٹی سے الٹی آتی ہے:
میں بیلن سے چکلے پہ
بیلی گئی ہوں
توے پر پڑی ہوں
ابھی جل رہی ہوں
یہ ککر کی سیٹی میں
میں چیختی ہوں
کسی دیگچی میں پڑی گل رہی ہوں
مگر جی رہی ہوں
دہلیز اور دفتر کے بیچ ننھی اولاد ورکنگ وومین کی ممتا کا کلیجہ کچلتی جاتی ہے۔ نہ چوڑی کی کھن کھن کا ہوش اور نہ گجرا مہندی کا وقت۔بھو ک اگاتے طبقاتی سماج میں ہمہ وقتی کارکن، چوبیس گھنٹے کی محنت کش۔
جو ڈیوڑھی سے نکلی تو بچے کی چیخیں
وہ چولھا، وہ کپڑے، وہ برتن، وہ فیڈر
وہ ماسی کی دیری، وہ جلدی میں بڑ بڑ
نہ دیکھا تھا خود کو، نہ تم کو سنا تھا
بس اسٹاپ پر اب کھڑی سوچتی ہوں
کسے سینت رکھا کسے چھوڑ آئی
میں خود کو نہ جانے کہاں بھول آئی
عورت کے لیے گھریلو تشدد کی بات بھی ہے۔ جہاں جسمانی مار پیٹ سے پیدا شدہ نفسیاتی تذلیل اور تحقیر زیادہ وحشتناک ہے جو اُسے عورت مرد دونوں کواشرف المخلوقات کے درجے سے گرا دیتا ہے ۔ مارنے والے کو بھی ( جس کی ماحولی تربیت اس طرح ہوئی کہ وہ اپنے اس عمل کو تذلیل کی بجائے برتری اور غیرت اور حاکمیت گردانتا ہے )، اور پٹنے والی کو بھی۔
پچھلے زمانوں کی بہ نسبت ہمارے آج کے دانشور کو درپیش ایک نئے مسئلے سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ اب کے عورت غاروں والے سرقبیلوی سماج کی عورت نہیں ہے۔ نہ ہی وہ مکمل طور پر گالی بھرے فیوڈل سماج کی عورت ہے۔ اب ایک چوں چوں کا مربہ سماج ہے۔ ایسا سماج جس کا سر، پری کا ہے اور دھڑ خچر کا۔عجائب خانہ ہے یہ۔یہاں تعفن بھری پوسٹ ٹکنالوجیکل سرمایہ داری بھی موجود ہے اوربہ یک وقت سرقبیلوی نظام اور فیوڈل تلچھٹ بھی۔ اور عورت کے لیے یہ دونوں لعین انتہائیں ہیں۔
ثروت زہرا اِن دونوں انتہاؤں سے الجھتی ہے۔ اور توانا لہجے کے ساتھ الجھتی ہے۔عورت ہی کو حوالہ بنا کر وہ فیوڈلزم کو دھتکارتی ، مسترد کرتی ہے۔ وہ فیوڈلزم میں عزتوں کے جھوٹے عالی شان غلاف کو الفاظ اور مصرعوں کی برچھیاں مارتی رہتی ہے۔ شجرہِ نسب کے بے بر و ثمر شجر کی جڑیں کھوکھلی کرتی جاتی ہے۔ رسم و رواج کے منجمدو مضمحل گرتے ہوئے محل کو دھکے دیتی جاتی ہے۔
اسی طرح ہماری یہ شاعرہ سرمایہ دارانہ مکینکل ترقی کو بھی اچھا نہیں سمجھتی جس میں ثقافتی اور روحانی ترقی کی جگہ خالی ہی رہتی ہے۔
یہ چکا چوندی پوسٹ ماڈرن سماج ،فرد کو آزادی کے نام پر مار ہی ڈالتا ہے۔ مکمل بے گھری کی آزادی، بے رشتہ داری کی آزادی، روزگار کے عدم تحفظ کی آزادی ۔۔۔۔۔۔ ہر بشر اپنی قسمت کے حوالے۔ نہ خونی رشتے رہنے دیے اور نہ ریاست متبادل بنی۔انسانیت کی تذلیل نہ صرف جاری رہی بلکہ بہت پیچیدہ ، بہت حتمی اور بہت بدتمیزبھی ہوچکی ۔ زنانہ پن تو کیا، انسانیت اُس سے چھن جاتی ہے ۔ جاب کی تلاش ، ملے ہوئے جاب کی برقراری کی تگ و دو ، اور اداروں کی بھول بھلیوں میں خود کو زندہ رکھنے کے جھنجھٹ میں اُس سے حنا ، سرمہ، گنگناہٹ ، دھنک آشنائی سہیلی گیری، لوری ، ممتا، خوشی، مسرت ، اطمینانِ قلب سب کچھ چھن جاتا ہے، سب کچھ کچل دیا جاتا ہے ، کچلتا جاتا ہے۔ایک ایسا سماج جہاں ’’مردہ ‘‘زندہ کو کوئی پرواہ نہیں کہ کُوچ کے وقت زرد پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی یا کُھلی۔
۔۔۔۔۔۔ایک عمومیsuperficiality، ایک لامتناہی بے گانگی ہے جس میں نہ روح آسودہ ہے نہ جسم۔ ایک کراہت کا راج ہے، منڈی کی ’’ ہمہ اوستی ‘‘ہے۔ ’’ مزید‘‘ ، ’’ مزید ‘‘، اور ’’مزید‘‘ کی ان بجھی ابدی ازلی پیاس کی حاکمیت ہے۔چمک دمک ہے، ریل پیل ہے، دھکم پیل ہے۔ سٹیٹس بلند کرنے کی رومن ارینائیں سجی ہیں، انسانیت کڑھائی میں تل رہی ہے۔ زندگی سرمایہ کے پرکار کے مرکزوں اور قوسین کی مکمل تحویل میں ہے۔ بھوک جسموں روحوں کو بھسم کرتی جاتی ہے۔ زندگی کاپوآ سے روم جانے والی سپارٹیکسی سڑک ہے جس کے کنارے کنارے مصلوب لوگ عبرت بنے ٹنگے ہیں۔بیروزگار بھوک کے ہاتھوں کمتر انسان بنتا جارہا ہے اور روزگار والا انٹرنیٹ استھان پہ بیٹھی خواب کی ملکہ بنی رہتی ہے۔ زندگی کا جو ہر نا پید ۔ بس تصوروں تصویروں کی خواب سرائی۔تنہائی لا متناہی تنہائی۔ خواہشوں، بے تسکینیوں اور آدھے سچوں کے ہجوم میں بے انت حتمی اور تکمیل یافتہ تنہائی۔ سر ددلوں ، انسانی ماسک پہنے رو بوٹوں، بے روح بے جذبہ گویوں رقاصوں عاشقوں میں گھری مکمل تنہائی۔
سانس در سانس بارود مہکتا ہے۔ آدمی آدمیت سے بہکتا ہے۔ خاک لاشوں کے بکھرے ٹکڑوں کی فصلیں جنم رہی ہے۔ لوریوں کی زباں سرد ہے۔حبس کا زمانہ ہے۔امید کی صبحیں راستہ بھٹک چکی ہیں۔ فاصلہ ہی فاصلہ ہے ، خلا ہی خلا ہے۔ درد کی پوٹلی ہے کُُھلتی جاتی ہے، کِھلتی جاتی ہے۔ اندھیرا روشنی کو نگلتا جاتا ہے۔ رژن روشنی قید میں ہیں۔عوام الناس معیشت کے جبڑوں میں سَکراتی ہیں۔ منافقت کے سگ آزاد ہیں۔ ڈالر اور درہم کا بوجھ اٹھائے حاکم کی کمر خمیدہ ہو چکی ہے۔سوگ ہی سوگ روگ ہی روگ۔زندگی حزیں ،اندوہ گیں ہو چکی۔ زندگی، موت جس کے وجود پہ حیران ہے۔۔۔۔۔۔۔
کاظم رضا کی یہ بیٹی ( پیدائش5 مئی1972)اس سب کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔ وہ ’’ حروف کی زبان کاٹنے والے ‘‘ اس سماج سے لڑ پڑتی ہے۔میں نے اسے کئی نظموں میں یہ سو گ الاپتے دیکھا پڑھا ہے ۔ اسی طرح ثروت زہرا کونپلوں کے بدن اور آہٹوں کے دیے بھاری بوٹوں تلے روندتے جاتے آمروں کے خلاف بھی بولی،خوب بولی۔
آہ مگر شاعر ثروت کا سوگ، تجزیہ نگاروں کے تجزیہ کا پنّا، اور انقلابی کی ترتیب دی ہوئی حکمتِ عملی ۔۔۔۔۔۔ سب کی سب بوڑھی ہوچکی ہیں۔ تبدیلی نامی محبوبہ تاحال اپنی نا ترسی اور بے احساسی برقرار رکھے ہے ۔
سماج میں کوئی بڑ ی تحریک چل نہیں رہی۔ رات کے پگھلنے کی کوئی راہ نہیں سوجھتی۔ ایسی خموشی کہ ’’ ہماری چاپ ہم پر چونکتی ہے ‘‘۔حرفوں کا سچ مقید ہے،لفظ کب کا بے تاثیر ہو چکا ہے، فقرے گونگے ہو چکے ہیں،پیراگراف اندھیری لکیروں کی کھائی بن چکے ہیں، پرومی تھی اَس تنہائی کے ہاتھوں چیخوف کے وارڈ نمبرشش میں داخل ہے ۔
اورشاید ایک اور بڑا غضب یہ ہے کہ ا ندھیرے خوف اور بھوک میں لتھڑے تھرڈ ورلڈ کے ممالک کے اندراس ’’سٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھنے کا کام اب مقامی یا ملکی اسٹیبلشمنٹ نہیں کرتا۔ اب تو یہ سارا کام بین الاقوامی مالیاتی سرمایہ نے سنبھال رکھا ہے ۔ہمارے ہاں سٹیٹس کو کی برقراری کا ڈور ایک ایسا طوطا تھامے ہوئے ہے جو دور رداز کسی خفیہ جزیرے کے آئی ایم ایفی فائلوں میں رہتا ہے،جس کی حفاظت بڑے بڑے دیو کرتے کرتے ہیں اور جس کے پنجرے تک پہنچنے کے لیے انسانوں کی نہیں جنوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ تبدیلی کی معروض میں بین الاقوامی پچ (Pitch) دیکھنے کی مجبوری شاید سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔
آج سائنس ٹکنالوجی، بجٹ اقتدار اوراسمبلی عدالت بشردشمنوں کے ہاتھ میں ہیں۔شمشیر بردار راکھشس پنکھڑی کاٹنے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہر سال درجنوں بڑے بڑے بحری جہاز گندم کو سمندر میں ضائع کرکے دنیا کی غربت کو کم کرنے خاندانی منصوبہ بندی کے غبارے بانٹتے پھرتے ہیں۔ گدھے کو بکری کا گوشت، تھورکویوریا، ریسلنگ کو عالمی ادارہ امن کا شناختی نشان بنا کر فنا کو قریب تر کیا جارہا ہے۔ بدترین اسلحہ کا مالک امریکہ دوسروں کو ’’ ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ رکھنے کے الزام میں بھسم کر ڈالتا ہے۔
مکمل تیاریاں ہیں کہ دنیا کو کاغذ کی طرح جلا ڈالا جائے اور آرٹ کی ساری تخلیقات اس آخری بھیانک شعلہ کی نذر ہوجائیں اور پھر حتمی اندھیر ہوجائے۔اتھاہ خاموشی سے بھی بڑھ کر گھمبیر اندھیر۔
لے دے کے ادب کا بس کچھ ٹکڑا ہے جو انسان کے زخموں کو چاٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہمیں ادب کے اس ٹکڑے کی خدمت کرنی ہے۔
ایک بات کہنا ضروری ہے ۔ اور وہ یہ کہ بہت کم شاعروں دانشوروں نے اپنی تخلیق پڑھاتے وقت مجھ سے اتنی محنت کروائی ہوگی جتنی کہ ثروت نے کرائی۔ میں اُس کی شاعری بہت روانی سے نہیں پڑھ پایا۔ اس کی ہر نظم (غزل کی شاعرہ تووہ ہے ہی نہیں) مجھے دو تین بار پڑھنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اُس کی ہر نئی نظم کو ’’ اچک‘‘ کر نہیں پڑھتا۔ میں اُس کی شاعری دیکھ کر خوش توہوتا ہوں۔ مگر اسے ایک طرف رکھ کے پہلے دوسری’’ لائٹ ‘‘ چیزیں پڑھتا ہوں۔ثروت کی شاعری میں وہ شوق گم ہوجاتا ہے جوآپ اتنے بڑے شاعر کی کوئی چیز پڑھنے سے پہلے محسوس کرتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ، ایک ایک مصرع دماغ اورآنکھ کو بریکیں لگوادیتا ہے۔ میں نے اُس کا حل نکالا ہے۔ اب میں اُس کی نظم دوبار پڑھتا ہوں۔ایسی الفاظ سازی اور تمثال سازی وہ کرتی ہے کہ میں ایک بار تونظم کی روانی کے مزے لینے کے لیے اُسے پڑھتا ہوں، مگر دوسری بار معانی کے طلائی سکے جمع کرنے کوپڑھتا ہوں۔مشاہدہ، مطالعہ اور تجربہ کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ فنکارانہ جمالیات کے مصالحہ میں بھگوکر وہ خود بھی ایک جائنٹ شاعر بن جاتی ہے اور اُس کے شعر بھی موسیقیت بھری گہری معنویت کے بازو پھیلائے قاری یا سامع کو جادو کرتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی بظاہر اس ساری سیاہ پوش صورت حال کے باوجود انسان کی بھلا ئی چاہنا ہماری جبلتوں میں شامل ہے۔ ہم چوپائے نہیں ہیں کہ مناسب معروض کے انتظار میں اپنی چار روزہ زندگی ضائع کریں۔ معروض خواہ کتنا ہی بڑا شاشان ہو اُسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
شاعرہ کو ملا شیرانی کی نظریاتی کونسل کی طرف سے عورتوں کے خلاف سفارشات کو بیہودہ قرار دینا ہے۔ اُسے عام محنت کرنے والے انسان کی غیر انسانی زندگانی کا واحد سبب پاکستان میں موجود ون یونٹی نظام، اور بلوچستان میں قائم طبقاتی نظام کو قرار دینا ہے۔ اسے وقت کے آئینے میں برفاب بنی آہٹوں کو بیدار کرنے کی تدبیر لکھنا ہے، آگہی لکھنا ہے، روشنی سجانی ہے۔اسے زردوئی (یرقان) کی زرد خدائی کے خلاف لکھنا ہے۔ اسے بھاری مونچھوں بوٹوں تلے کونپلوں کے بدن اور آہٹوں کے دیے روندنے والوں کے قصیدہ خوانوں کے خلاف لکھناہے۔ کرپشن، درباری پن، اورُ لُوسی گیری کی تنقید لکھنی ہے۔ اسے طبقاتی نظام کے پیداکردہ درد اور ناامیدی سے نجات کی مستقل راہیں تلاشنی ہیں۔اُسے سویرے لکھنے ہیں۔ اسے مست ومگسی کے خوابوں کی تعبیر لکھناہے، اُسے گل خان کی تفسیر لکھنا ہے۔اُسے ضبط کردہ کبوتریوں کی اڑانیں لکھنا ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے