اردو ادب میں شعر و سخن کے حوالے سے سینئر تخلیق کاروں میں ایک معتبر نام صابر ظفر ہیں۔ بہت سارے دیگر شعراء کی طرح انہوں نے شاعری کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے غزل ہی کو چُنا ہے۔ اور غزل ہی کو اعتبار بخشا ہے۔ گو کہ انہوں نے خوبصورت گیت بھی لکھے ہیں۔ اور گیت نگاروں میں بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں لیکن غزل گو شاعر کے طور ہی انہیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اُن کے مطبوعہ 38 جی ہاں 38 شعری مجموعو ں میں4 کے علاوہ باقی سارے غزلوں پر مشتمل ہیں۔ اور ان چار میں گیت اور غزلیں ہیں۔ جبکہ اردو ادب میں طویل غزل کی روایت کو جلا بخشے ہوئے ’’ گردش مرثیہ‘‘ ، ’ سرِ بازار می رقصم‘‘ رانجھا تخت ہزارے کا ‘‘، غزل نے کہا’’ طویل غزلوں پر مشتمل ہیں۔6 شعری انتخاب اور کلیات صابر ظفر ( پہلے دس مجموعہ ہائے غزل) کی اشاعت بھی ہوچکی ہے۔
چونکہ وہ غزل کے شاعر ہیں ۔ اُن کی کوئی نظم یا نظم پر مبنی کوئی کتاب اب تک سامنے نہیں آسکی ہے۔
اُن کی شاعری کے موضوعات میں بڑا تنوع پا جاتا ہے۔ترقی پسندانہ سوچ لیے غزل کے اس میٹھے لہجے کے شاعر نے انسان کی آزادی، ظلم اور ناانصافیوں کے ساتھ ساتھ مہر و محبت اور زندگی کی خوبصورتیوں کے حوالے سے اپنی تخلیقات پیش کی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے جب گردش مرثیہ کے نام سے صابر ظفر کا ایک شعری مجموعہ ایک طویل غزل کی شکل میں سامنے آیا تو اُسے علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی ۔ اور لوگوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کیا اردو ادب میں بھی اس طرح کی تخلیق ہوتی ہے؟۔ اور وہ بلوچستان کے حوالے سے تھی۔ جہاں موضوع کے ساتھ ساتھ فکر اور فن ، تشبیہ ، استعارات اور علامات سے بلوچستان کے حالات، واقعات اور کیفیات کو بھرپور انداز میں تخلیقی جامہ پہنایا گیا ہے۔ اور وہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسی کتاب ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
حال ہی میں ’’ لہو سے دستخط‘‘ کے نام سے غزلوں پر مشتمل اُن کا نیا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا ہے جسے ا نہوں نے ’’بلوچستان اور اُس کے شہداء کے نام ‘‘ کیا ہے۔
جیسے کہ نام سے ظاہر ہے کم و بیش ساری تخلیقات میں فکر، فن اور موضوعات کے ایک ساتھ پروتے ہوئے ایک فکری رد عمل کے طور پر انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا ہے۔ جس کی شاید ہی کوئی مثال ہو ۔ کم از کم اردو ادب کی پوری تاریخ میں ایسا کوئی شعری مجموعہ سامنے نہیں آسکا ہے ۔ چونکہ غزل جناب صابر ظفر کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے۔ اُن کی غزل پر اور کچھ کہنا ہمارے جیسے ادب کے طالب علم کے بس کی بات نہیں۔ ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اُن کی غزل کے کیا کہنے ۔ خاص طور پر انسانوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے کرب کی جس کیفیت سے گزرتے ہوئے انہوں نے جو تخلیقی کام سرانجام رہا۔وہ انہی کا خاصہ ہے۔
چند اشعار ملا حظہ کیجیے۔ گو کہ اُن کے اشعار کا انتخاب بہت مشکل ہے۔ کیونکہ فکر و فن کے لحاظ سے ہر مصرعہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے:
عذاب آئیں گے، جب ظلم پر خموش رہو گے۔
یونہی اُجڑتے رہو گے، اگر خموش رہوگے۔
تم آزمائے ہوئے ہو، فریب کھائے ہوئے ہو
زبانیں کٹتی رہیں گی، مگر خموش رہو گے
یا
ستم جو دشت میں ہو، اہل شہر کیا جانیں
یہ اندر اندر اثر کرتا زہر کیا جانیں
اُمید تو ہے بہت ، مسکرائے گا یہ وطن
خدائی فیصلوں کو ، اہل دہر کیا جانیں
قدم قدم پر ظفر رستہ روکنے والے
ہوا سے ریت پہ چلتی ہے لہر کیا جانیں
بلوچی اور اردو کے معروف شاعر اور قلمکار غنی پہوال نے لکھا ہے ۔
’’ صابر ظفر خوبصورتیوں کے شاعر اور شیدائی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی انسانی آزادیوں اور عزت کے ساتھ گزار سکے‘‘۔
میں گل زمین ہو، جہاں زندگی غلام نہ ہو۔
اگر میں سانس لوں، جینا مراحرام نہ ہو۔
ٹھہریے ذرا اُن کی نذرِ فیض ؔ سے بھی ایک دو شعر ملاحظہ کیجیے۔
یہ جنونِ منزلِ عشق ہے ’’ جو چلے تو جاں سے گزرگئے ۔۔۔۔۔۔
کسی موڑ پر کبھی مل گئے تو بیاں کریں گے حکایتیں ،
ابھی دوستوں کی خبر نہیں وہ کہاں کہاں سے گزر گئے۔
کیے پیراہن کو لہو لہو ،ترے باصفا ، ترے باوضو
جنہیں خوفِ مرگ ذرا نہ تھا، وہ سبھی یہاں سے گزر گئے
اس گھٹن ذدہ ادبی فضا اور عصر حاضر میں ایسا شعری مجموعہ صابر ظفر جیسا شاعر ہی سامنے لاسکتا ہے۔ اور ایسی کتابیں ادبی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
ظفر اُن کی داد کا شکریہ ، مگر اتنی ہے مری التجا
کبھی وہ پڑھیں جو لکھا نہیں، کبھی وہ سُنیں جو کہا نہیں
جو نہیں رہا مرا ہم نوا ، کہوں دور سے اُسے الوداع
یہی بات ہے کہ نہ بات ہو، نہیں وقت دوسری بات کا
جب اہلِ عشق اندھیرے کی مُہر توڑتے ہیں
تو بھیجتا ہے انہیں ہر سویرا، سُرخ سلام
مریں کہیں وہ نقیبِ حقوق انسانی
جو ظلم دیکھ کے آنکھوں کو بند رکھتے ہیں