پری سفر میں افق تک نہیں گئی ہوگی
مجھے پتہ ہے دھنک تک نہیں گئی ہوگی

یہ آسمان جو معمول کے مطابق ہے
زمیں کی چیخ فلک تک نہیں گئی ہوگی

نظر میں آتی ہوئی تیرگی خلاؤں بیچ
یہ روشنی بھی چمک تک نہیں گئی ہوگی

اسے خبر ہے طبیعت ہی میری ایسی ہے۔۔۔۔
مجھے یقیں ہے وہ شک تک نہیں گئی ہوگی

دبا کہ رکھا گیا بھید خون کے رنگ کا
مری سمجھ تو شفق تک نہیں گئی ہوگی

یہ لفظ یونہی پگھلتے رہیں گے کاغذ پر
یہ آگ شہر خنک تک نہیں گئی ہوگی

پھر آسمان کا منظر جلا ہوا دیکھا
کسی کی آنکھ پرکھ تک نہیں گئی ہوگی

وہ پھر خموش نگاہیں لیے ہوئے باسط
میری کسی بھی جھلک تک نہیں گئی ہوگی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے