سامان مرا ، دشت کے اْس پار پڑا ہے
یہ عشق تو میں نے کسی ہجرت میں کیا ہے
ٹھہرے ہوئے پانی میں دْھواں پھیل چکا تھا
مٹّی کا پیَالہ بڑی مشکل سے بھرا ہے
اب دیکھئے صحراؤ ں کی نخوت کا تماشا
دریا مری آنکھوں سے روانہ تو ہوا ہے
بہتر ہے کہ دو رْویَہ سڑک ، خواب کی حد ہے
عْجلت میں مری نیند کا طوفان اْٹھا ہے
آنکھیں تو نہیں ہیں مگر اِس ہجر کے صدقے
زنجیر کی ہلچل میں تْجھے دیکھ لیا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے