تہہِ کوہِ صدا آتش فشاں رکھا ہْوا ہے
اک ایسا لفظ بھی زیرِ زباں رکھا ہْوا ہے
تِری آنکھوں میں کیوں جھلکا نہیں رنگِ تمنّا؟
ترے سینے میں دِل کیا رائیگاں رکھا ہوا ہے !۔
کسی منظر میں بھی تادیر رک سکتا نہیں میں
یہ چشمہ آنکھ کا پیہم رواں رکھا ہوا ہے
تکبّر سے کمَر کْوزہ ہوئی ہے آسماں کی
زمیں کو خاکساری نے جواں رکھا ہْوا ہے
میں اپنے تن میں دِل کو دیکھ کر حیراں ہْوا ہوں
عجب قطرہ سرِ صحرائے جاں رکھا ہوا ہے!!۔
یہ خود اک دوسرے کو راستہ دیتے نہیں ہیں
خیالوں نے خیالوں کو گراں رکھا ہوا ہے
وہ جو دِکھلا رہا ہے مجھ کو دو آنکھوں سے دنیا
اسی نے مجھ کو مجھ سے کیوں نہاں رکھا ہوا ہے؟
یہی تو ہے دلیل اس کی اماں بخشی کی رحمان
کہ اس نے مجھکو اب تک بے اماں رکھا ہوا ہے