یہ کس جنوں کا شرارہ لہو میں ڈھل آیا
بدن نے آہ بھری روح میں خلل آیا

ہمارے گھر میں سبھی لوگ خواب دیکھتے تھے
میں ایک خواب میں آیا تو بر محل آیا

میں اپنے باپ کے سینے سے پھول چنتا تھا
سو جب بھی سانس تھمی سیر کو نکل آیا

تجھے خبر ہی نہیں بارگاہِ حسن مآب
ترے حضور کوئی ایڑیوں کے بل آیا

ذرا سی دیر کو برسا وہ ابرِ دیرینہ
دھلی دھلائی جبینوں سے دن نکل آیا

بہارِ وقت نے خاشاک کر دیا حماد
خزاں کے دور میں جن شاخچوں پہ پھل آیا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے