کوئی مکاں ہو تو خود کو مکیں کریں ہم لوگ
گماں کی بات پہ کیسے یقیں کریں ہم لوگ
وہ لا زوال نہیں ہے فنا کی زد میں ہے
سو ترک کس لیے دنیا و دیں کریں ہم لوگ
وہاں سے لوٹ کر آنا محال ہے اپنا
اگرچہ لاکھ غم واپسیں کریں ہم لوگ
بہت سے لوگ بہت دل نشیں سہی اے دوست
کسی کسی کو مگر ہم نشیں کریں ہم لوگ
حسن جمیل یہاں ابر کھل کے برسے گا
گنہ سے پاک جو اپنی زمیں کریں ہم لوگ