غم کے لہجے کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں
میری آنکھوں میں چھبتی ہوئی چوڑیاں
زندگی کی کتابوں کے اک باب میں
دل کے بستے میں روٹھی ہوئی چوڑیاں
ایک رنگوں کا میلہ لگا جاتی ہیں
میرے رستے میں ٹوٹی ہوئی چوڑیاں
تیرے ہاتھوں کی نرمی سے کِھل جاتی ہے
پھول دستے پہ سمٹی ہوئی چوڑیاں
رات کے ایک پہر گونجتی ہیں بہت
میرے تکیے میں ٹوٹی ہوئی چوڑیاں
سب سے آگے رہیں اور زندہ رہیں
غم کے سہنے میں روتی ہوئی چوڑیاں
سب وصال آشنا لمس کے راز داں
میرے رستے میں بوتی ہوئی چوڑیاں
روز جاتا ہوں میں روز لاتا ہوں میں
غم کے میلے میں ٹوٹی ہوئی چوڑیاں
کس سے پوچھیں مرادؔ کون بتلائے گا
دل سہارے کی لوٹی ہوئی چوڑیاں