سنگت کے بکھرے موتیوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے عابدہ رحمان ایک دفعہ پھر حاضر ہے۔ ماہتاک سنگت میں نا جانے کیسا نشہ سا ہے کہ یہ جوں ہی ہمارے ہاتھ میں آتا ہے اور جیسے ہی ہم اس کا آخری صفحہ پڑھ ڈالتے ہیں ،اسی وقت سے ہم نئے سنگت کا انتظار کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہمارا انتظار بڑا طویل رہتا ہے ۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ماہنامہ میرے ہاتھ میں تھا۔ ایک خوب صورت ٹائٹل کے ساتھ لیکن پھر بھی ایک کمی سی محسوس ہوئی اور وہ یہ کہ مجھے یقین تھا کہ اس بار کا ٹائٹل عبدالستار ایدھی صاحب کا ہوگا۔یہی سوچتے ہوئے جب لڑی دیکھی تو اطمینان ہو گیا کہ ایدھی صاحب پر بہت کچھ تھا اس سنگت میں۔
لڑی کے پہلے دو موتی جو ہم نے چن کرڈالے ،وہ شونگال ہی تھا ۔ جس میں ایک تو کامریڈ واحد بلوچ پر ایک خوب صورت مضمون تھا جس میں کامریڈ کی زندگی اور ان کے کام کا احوال تھا۔ جسے پڑھ کے میں صرف یہ سوچ رہی تھی کہ آخر کب تک یہ معلوم افراد ،نا معلوم رہیں گے؟ !
انسانیت کے علم بردار بابائے خدمت ، ایدھی صاحب ، جن کا سبق تھا کہ انسانیت ایک بہت بڑا خزانہ ہے اسے لباس میں نہیں بلکہ انسان میں تلاش کرو۔ ایدھی جنھوں نے نفس کی غلامی کرنے کی بجائے نفس کو اپنا غلام بنا لیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون ، عبدالستار ایدھی ،میں کہتے ہیں ’’ کہاں گئیں وہ غیرت والی مونچھیں جنھیں زلزلہ، قحط اور ہر طرح کی غیرت سے دوری کبھی بھی نیچے نا کر پائی تھی؟ ’حرامی‘ اولاد ایدھی کے پنگھوڑے میں جاتے ہی’حلالی‘ ہو جاتی ہے۔ مونچھ ، گردن ، ایمان سب کچھ اس کے رکھے ہوئے اس بے جان پنگھوڑے کے سامنے سر نگوں تھا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے اس معاشرے اور اس کے کرتا دھرتا کے منہ پر ایک زبردست تھپڑ رسید کیا ہے۔
بدبودار لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھانے والے اس بڑے انسان کے بارے میں �آصف فرخی اپنے مضمون ’’ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ، ننگا وارڈ جس میں وہ ذہنی مریض رکھے جاتے تھے جو کپڑے پھاڑ دیتے تھے اور شرم اور غلاظت کے احساس سے دور جا چکے تھے یا پھر مار پیٹ پر آمادہ ہو جاتے تھے لیکن وہ ایدھی صاحب سے مانوس تھے اور ان سے بات کر رہے تھے، اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے‘‘۔ تو میرے قاری بھی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ محبت کی زبان پاگل بھی سمجھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اصل پاگل کون ہے اور پتھر کس کو مارنے چاہئیں؟! ایک خوب صورت مضمون فرخی صاحب کا۔
ایک اور شان دار موتی جو ہم سنگت کی لڑی میں پرونے کے لیے تیار ہیں، وہ ہے وحید زہیر صاحب کا ،’’معاونِ انسانیت: ستار ایدھی‘‘ ایک خوب صورت مضمون۔ لکھتے ہیں کہ،’’ ستار ایدھی ایک منفرد پہچان جسے سوچو تو انسانیت جاگ اٹھے، جسے پرکھو تو اعتبار ہی اعتبار ملے، جسے دیکھو تو رہنمائی کا ہر دعوے دار بونا لگے‘‘۔ بالکل ٹھیک کہ ایسے ہی انسانوں کی وجہ ہی سے تو ہمارا اعتبار قائم ہے۔ ایک جگہ وحید صاحب کہتے ہیں کہ ،’’حکمرانوں کی زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ شرم و حیا بھی کوئی شے ہے‘‘، ان کی اس بات پر تو میں صرف اتنا ہی کہوں گی کہ وحید بھائی شرم دلانے سے کب آتی ہے ؟ یہ تو بس جس کے خمیر گندھی جائے! یہ تو بس وہی بات کہ سوتے کو تو جگایا جا سکتا ہے ، پر جاگے ہوئے کو کون جگائے؟!
چلیے ملاقات کرتے ہیں،’’ محبت کی جھلسائی روح۔۔۔ثروت زہرا‘‘ سے۔ ایک حسین تبصرہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا، لیکن پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کہیں ثروت کی شاعری کی انگلی مری صاحب کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ اپنا کوئی اور حسین مضمون اس میں مکس کر گئے ہیں۔
اور پھر سلمی اعوان کے ہم راہ، ’’قربتِ لینن میں چند گھڑیاں‘‘ گزاریں۔ ایک مکمل اور جامع مضمون ۔ پڑھ کر واقعی لینن کی زندگی ان چند گھڑیوں میں میری آنکھوں میں گھوم گئی۔
سنگت کی لڑی کو مکمل کرنے کے لیے ہم نے جناب ایک اور موتی اٹھایا، پوہیں مڑد کا ’’پولیٹیکل اکانومی‘‘ جس میں انھوں نے غلام داری سماج میں ، غلاموں آقاؤں کے بارے میں ایک مفصل مضمون لکھا کہ کس طرح غلاموں کی پیشانی کو داغا جاتا، گلے میں پٹہ ڈالا جاتا، غلاموں کی خرید وفروخت، غلاموں کے حصول کے لیے جنگیں، سود خوری، اس سب کے بارے میں تفصیلات ہیں۔ پڑھ کر بس سپارٹکس کا خیال آتا ہے کہ ہر دور میں ہی سپارٹکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بہت اچھا مضمون۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور مضمون’’ میاں محمود احمد‘‘ کی سوانح عمری پر مبنی ہے، جس میں بڑی خوب صورتی سے اس شخصیت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح وہ سام راجی قرضوں سے انکاری تھے اور کس طرح انھوں نے کسان کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی۔
چلیے کہ کچھ دیر’’ لینن کے نظریہ جمالیات‘‘ میں جھانکیں کہ جہاں جاوید اختر صاحب نے حسن کو قبیح سے کس خوب صورتی سے الگ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ،’’کائنات رنگ و بو میں حسن سے زیادہ لطیف اور قبیح سے سے زیادہ کثیف کوئی شئے موجود نہیں۔ حسن مظاہرِکائنات کے اجزائے ترکیبی میں حسین و جمیل تناسب و توازن، ترتیب و تنظیم اور توافق و تطابق کا نام ہے۔ حسن مظاہرِ کائنات کی کثرت فی الوحدت اور وحدت الکثرت سے وجود پزیر ہوتا ہے۔‘‘ پڑھتے ہوئے یہ بھاری بھرکم الفاظ حلق میں ایک دو دفعہ لڑھک کر سنبھل جاتے تھے لیکن مذاق برطرف ، ایک بہت اچھا مضمون تھا۔
’’ کتاب پچار‘‘ میں عابدہ رحمان نے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی دو کتابوں ’’ بلوچ ساحل اور سمندر‘‘ اور’’ میر عبدالعزیز کرد‘‘ پر تبصرے لکھے ۔
ہمیشہ کی طرح حال احوال میں سنگت پوہ زانت، بلوچستان سنڈے پارٹی، سمو راج ونڈ تحریک اور بلوچستان ادبی فورم کے اجلاس کی رپورٹس تھیں۔
افسانہ قصے کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ قصے کا تعلق انسان سے فطری ہے۔ ہمیشہ سے ہی دن کے واقعات قصے کی صورت میں سنائے جاتے رہے ہیں ،بنا کسی فنی مہارت کے کہ جیسے الف لیلوی داستانیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ فنی ترقی ہوتی گئی اور قصہ حقیقت کا رنگ اختیار کرتا گیا اور اس فن سے معاشرتی اور اخلاقی اصلاح کا کام لیا جانے لگا۔ وقت کی کمی کے باعث قصے کا دامن سمٹ کر افسانے کی شکل اختیار کر گیا۔ آج بھی یہ قصہ بھی کہلاتا ہے۔
بات کرتے ہیں سلمیٰ جیلانی کے ’ لوئی شوئی کی گلیوں میں‘۔ ہو سکتا ہے میری رائے سے باقی پڑھنے والے اتفاق نہ کریں۔ سلمیٰ نے اس میں کوئی بھاری بھرکم الفاظ استعمال نہیں کیے اور نہایت ہی سادہ انداز میں کہانی کو مکمل کیا ہے۔ قصہ ایک غریب کچرہ چننے والی عورت لیو ڑنگ کا ہے جو کچرہ چننے کے دوران نوزائدہ بچوں کو بھی کچرے کے ڈھیر سے چن کر اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی پرورش کرتی تھی ۔ ایک سیدھی کہانی چل رہی تھی لیکن سمجھ یہ نہیں آئی کہ لیوڑنگ جہاں ڑانگ سے پہلے بھی کئی بچے لوگوں کو دے چکی تھی وہاں پھر اس بچے کو دینے میں کیا مسئلہ تھا۔ کیوں اور کیسے اسکی سوچ بدل گئی اس کا کوئی ذکر نہیں اور اسی بات نے اس کہانی کو متاثر کیا۔
بھوک جو کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے ۔ اس کے آگے دنیا کے باقی تمام فلسفے ہیچ ہیں۔ پھر جب کوئی غریب عورت روٹی کی تلاش میں مجبوراً گھر سے نکلے تو کس طرح معاشرے کے گدھ کوئی اور بھوک مٹانے کے لئے عورت کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اس کی عزت کو تار تار کر دیتے ہیں ۔ یہ کہانی ہے کائنات آرزو کے افسانے ’ گدھ‘ کی۔ اچھا افسانہ تھا لیکن اسے مزید اچھا لکھا جا سکتا تھا۔
عورت کے استحصال کاایک اور رخ ’ پرچھائیں ‘ میں نسترن احسن نے دکھایا ہے کہ جب عورت ماں، بہن ، بیوی اور بیٹی کے روپ میں سارا دن مشینی انداز میں کا م کرتی ہے ۔اپنے گھر والوں کو سکون ، آرام اور خوشی پہنچانے کے لیے لیکن وہی سارے رشتے صرف ایک پرچھائیں ثابت ہوتے ہیں۔ آخر میں وہ تنہا، تہی داماں رہ جاتی ہے ۔ اس کی تنہائی، خوشی سے اس کے رشتوں کو کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ سادہ سے الفاظ کے مجموعے کی ایک مکمل کہانی۔
ڈاکٹر عقیلہ بشیر نے ایک نہایت اہم موضوع جو کم از کم ہمارے صوبے میں تو عام ہے یعنی دھماکے پر اپنا افسانہ’ روشنی‘ ایک عام روایتی انداز میں لکھا ہے۔
یار محمد چانڈیہ کے سندھی افسانے کا ننگر چنا نے بہت اچھا ترجمہ کیا جو ایک فضول اور گھٹیا رسم کاروکاری پر لکھا گیا ہے۔ایک مختصر سے افسانے میں ایک بہت بڑے موضوع کواچھے انداز میں سمیٹا ہے۔
چلتے ہیں ایک اور حقیقی قصے کی جانب جس کا نام ہے ،’پروٹوکول‘ اور اسے تحریر کیا ہے رزاق مہرنے، سندھی سے ترجمہ کیا ہے جاوید شیخ نے۔ ہمارے ملک کی سیاست، کھوکھلے وعدوں اور ووٹ کے حصول کی کہانی جو سراسر بے ایمانی، منافقت اور نا انصافی پر مبنی ہے۔ لکھا ہے ،’’ ہماری زمیں جس پر شہید بیٹوں کی شہادتوں کا نوحہ یوں ہی سرکاری لانگ شوز کے نیچے دھنس جاتا ہے اور بوڑھے والدین کو اسی طرح پولیس لاٹھیاں اور ٹھڈے مار کر باہر گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔ ‘‘ہمارے معاشرے کی ایک سچی عکاس کہانی۔
’’ کرشمہ سازی‘‘ جو مریم جہانگیر کا افسانہ ہے۔ اس افسانے میں ہیروئن جو زندگی سے بھرپور لڑکی تھی، زندگی جیتی تھی لیکن والدین کی وفات کے بعد وقت اور حالات اسے اس نہج پر لے آئے کہ وہ اپنے گرد خودمختاری بننے اور انا کا ایسا خول چڑھاتی رہی کہ اس کی اپنی شخصیت گھٹ کر رہ گئی اور وہ ایک نا تمام تنہائی کا شکار ہو گئی لیکن اس کی زندگی میں آنے والے مرد نے ذرا مختلف انداز میں اپنی محبت سے اس کے اندر چھپی ہوئی عورت کو پھر سے بیدار کر دیا۔ ایک بہت اچھی اور مختلف کہانی تھی کرشمہ سازی کی جسے بڑی خوبصورتی سے مریم نے نبھایا۔
قصہ کے حصے میں دو بلوچی افسانے بھی شامل ہیں، جن میں پہلا ذوالفقار علی زلفی کا نیم علامتی انداز میں لکھا گیا طبع زاد افسانہ ہے، اور اچھا افسانہ ہے۔ جب کہ دوسرا ایک ترجمہ ہے۔ جسے گرازیاڈیلیڈا نے لکھا ہے اور مسرور شاد نے بلوچی میں ترجمہ کیا ہے۔ مذکورہ مصنف کس زبان کے ہیں اور انہیں کہاں سے ترجمہ کیا گیا ہے، اس کا مختصر تعارف ہوتا تو اچھا تھا۔۔۔ترجمہ البتہ رواں اور سلیس ہے۔
ڈاکٹر منیر رئیسانی اور سلمیٰ جیلانی کی نظمیں پڑھ کر بے ساختہ منہ سے نکلا ،مکرر۔۔۔ مکرر ارشاد۔
روح میں آکر دھیرے دھیرے
آتش کاری کرتی ہے
اور پھر اک دن
(اک منظر میں)
شعلوں کی قے ہوتی ہے واہ
سلمی جیلانی کہتی ہیں ؛
تب وہ جنت کو جاتے ہوئے فرشتوں کے جلو میں کفِ افسوس مل رہا تھا
کاش اس نے اپنا جسدِ خاکیجاہ و حشمت کے متوالوں کی پہنچ سے دور
رکھنے کی وصیت بھی کر دی ہوتی۔
ان کے علاوہ ڈاکٹر سمی پرواز، سبین علی اور سدرہ عمران کی شاعری بھی کافی اچھی تھی۔