ہمارے دوست ہم سے چلے گئے ۔ انہیں کہاں سے لائیں۔ پوری زندگی پڑھنے کے بعد وہ ایک دھماکے یا گولیوں کا شکار ہوکر گہری نیند سو جاتے ہیں۔ کون ہیں کہاں سے آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہر چوک پر سیکورٹی کھڑی ہے ہر موڑ پر گاڑیوں رکشوں موٹر سائیکلوں کا لائن لگا ہوا ہے۔ تلاشی کے اس عالم میں کتنی آسانی سے ہمارے لوگ شہید ہورہے ہیں ۔ کون ہے اس کا ذمہ دار۔۔۔۔۔۔؟ کوئی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں آج وکیل ، کل ڈاکٹرز پرسوں انجینئر، سب کے سب ایک ایک کرکے چلے جائیں گے۔ پھر کس کی تلاشی لی جائے گی۔۔۔۔۔۔؟ تعلیمی ادارے محفوظ نہیں۔ ہم کیا کررہے ہیں، کون سوچے کون بولے کہ ’’ لب آزاد ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ ماتم اور فاتحہ خوانی ہے، کب تک؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا ابھی تک کوئی جواب نہیں، ڈاکٹر ہو یا انجینئر وکیل ہویا کہ عام شہری اپنے فرائض انجام دینے کے بعد وہ گھر لوٹتا بھی ہے کہ نہیں، سانس آتی اور جاتی ہے اور جاتی رہی اب تو اس کا بھی اعتبار نہیں۔
8 اگست کا سانحہ ہو کہ دیگر واقعات ہوں۔ سوالیہ نشان ہیں، ہسپتالوں کے اندر جگہ نہ رہی، خون تک مریضوں کو فراہم نہیں ہوسکا ۔ معاشرہ اتنا بے حس ہوگیا ہے کہ شہید تو شہید ہوگئے جن کی سانس باقی تھی جن کا دل دھڑک رہا تھا اُسے بھی ہم خون کا قطرہ دے کر بچا نہ سکے۔ اس دل کے ٹکڑے ہوئے ہزار کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا اور ہم ہاتھ ملتے ہی رہ گئے۔ فوٹو سیشن، اخباری بیانات تقریر کرنے کے بعد اور عشائیہ کا اہتمام بھی کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ اور یہ خیال کون کرے گا ، اتنے پڑھے لکھے وکیل50اور100 سالوں میں کیا ہم پیدا کر پائیں گے۔ اور پوری زندگی اس طرح ماتم کرکے رہیں گے اور شہیدوں کی لاشیں اُٹھائیں گے۔ کون آگے آئے گا ، کون سوچے گا کس طرح اس کا حل ممکن ہوگا۔ اسی طرح ہماری صدائیں لوٹتی رہیں گی اور ہم صرف صدائیں دیتے رہیں گے۔ 8 اگست کے سانحہ نے ہمیں مفلوج کردیا ہے ہم مرگئے ہیں اس طرح ہم روتے رہیں گے دیکھتے رہیں گے الزام کسی اور پرڈالتے رہیں گے۔ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں سے جاتے ہیں بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جس نے ہمارا نام و نشان مٹا دیا ہے ۔ جنازے پڑھ پڑھ کر تھک گئے، تدفین ہی تدفین کس کس لختِ جگر کا نام لوں۔ باز محمد کاکڑ، قاہر شاہ ، بلال انور کاسی ، داؤد کاسی، سنگت جمالدینی،چاکر رند، قاضی بشیر احمد، نصیر احمد لانگو، 75 سالہ قاضی عبدالحمید شہزاد کے بیٹے قاضی جمیل کا جس کے پیراں سالی جوان والد کے حوصلے کو کیا نام دوں۔ کہ قبریں کھود کھود کر تھک گئے کس کس کا نام لوں سب کے سب چلے گئے، ایک ہی دھماکے میں جس کا دھواں آج بھی آسمان میں منڈلا رہا ہے اور اُس میں مسکراتے چہرے ابدی نیند ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ اور ہم نیلے آسمان کو دیکھتے رہ گئے، ان شہداء کے ساتھ ہی نیلا آسمان بھی سوگیا۔ صبح آئی تو بستر پر کوئی نہیں تھا، کوئٹہ کی سڑکیں اُداس ویران تکتی رہ گئیں۔ نہ جانے کتنے واقعات ہوئے ہیں ان گنت دوست اور ساتھی بچھڑ گئے ہیں اور ہم اب بھی دھماکوں کو پٹاخوں کی مانند سمجھ کر اردگرد سے گزررہے ہیں جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں اور ہر آنے والے دن کو بہتر سمجھ کر خاموش ہوجاتے ہیں کب امن ہوگا ، دھرتی کب نغمے گائے گی۔ چین و سکون کب نصیب ہوگا۔ ہم سراب کی مانند صرف جو خود کو تسلی دے رہے ہیں اور کچھ کر نہیں پارہے ۔۔۔۔۔۔
میں اِتنا ہی کہوں گا جو شہید وکلاء کے نام خلیل رونق بلوچ نے کہا ہے:
کیا کہوں! کیا بتاؤں کہ کیا ہوگیا
اک دھماکہ ہوا سب فنا ہوگیا
آج پھر بہہ گیا خون مظلوم کا
آج پھر ایک نیا سانحہ ہوگیا