ہر آہٹ پر
یوں لگتا ہے
وہ آیا ہے
ہانڈی میں بھجیا تو کم ہے
لیکن
سورج کے گھٹنے بڑھنے کی
ا س لک چھپ میں
آنگن میں کس کاسایہ ہے
آئینے میں
کون اپنی چھب دکھلاتاہے
چپکے چپکے کون آتاہے
آنکھوں کے جلتے دیپک میں
جلتی بجھتی کیا مایا ہے
روح اورجسم کی ٹھنڈی مٹی
چپ سے لیپی تیری اٹّی
میں ہی جانوں
چوکھٹ سے چادر کے کونے تک
سارے منظر آس سمیٹے
گنگ کھڑے ہیں