کوئی فجر کی نماز پڑھ کر گھر والوں کے ساتھ ناشتہ کرکے روزی روٹی کمانے نکلا کوئی جوگنگ، واک اور پی ٹی کرکے گھر آیا نہا دھو کر کورٹ کچہری کا راستہ لیا۔ کسی نے ماں باپ سے دواؤں کی چٹ لے کر واپسی پر دوائیں لے کر آنے کا وعدہ کیا۔ کوئی اپنے مستقبل کے سہاروں کو سکول چھوڑ کر کورٹ پہنچا کسی نے بیوی سے واپسی پر راشن لانے کی یقین د ہانی کرائی۔ کوئی رات بھر اپنے مقدمے کی پیروی کی تیاری کرکے گھر سے نکلا۔ کوئی بار کے ہونے والے انتخابات میں اپنے پینل کے حق میں نئے نعرے سوچ کر روانہ ہوا۔ کوئی اخبارات میں فوتگی کی خبریں پڑھ کر کورٹ سے واپسی پر تعزیت کرنے کی نیت سے فرض نبھانے نکلا۔۔۔۔۔۔۔
ان میں سے کسی کو علم نہیں تھا کہ ظالم معاشرے میں پروگرام اور منصوبے نہیں بنائے جاتے۔ اور نہ ہی رشتوں اور تعلق کے زیادہ دیر تک قائم رکھنے کی یقین کی جانی چاہیے۔ کیونکہ ظلم انسانوں کو لتاڑتے پچھاڑتے اپنا راستہ بنا رہا ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا ۔ بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کو اس کے گھر کے سامنے قتل کیا گیا۔ یعنی خونی سیلاب کے بند میں پہلا شگاف ڈالا گیا۔بلال کی موت کی خبر کورٹ میں موجود وکلاء تک پہنچی۔
چونکہ یہ ناگہانی غیر یقینی واقعہ تھا اس لیے کوئی اسے کنفرم کرنے اور کوئی اپنے دوست کی مدد کرنے کو ہسپتال پہنچا۔ اور راستے میں وکلاء سوچتے رہے کہ بلال کاسی کو قتل کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ۔ نہ تو اس کی کسی سے دشمنی تھی نہ ہی وہ ریاست کے غداروں میں شامل تھا اور نہ ہی کسی تنظیم سے اس نے کبھی ٹکر لی ہے۔ نہ ہی وہ قبائلی شخصیت تھی۔ مطلب اس سے یااس کی کسی سے دشمنی کا کوئی بھی درنہیں کُھل سکا۔ آخر کار انہوں نے اسے بھی بیرسٹرامان اللہ کی قتل کی طرح ٹارگٹ کلنگ سمجھنے پر اکتفا کیا۔ انہیں کیا خبرتھی کہ آج وہ سب دشمن کے ٹارگٹ پر ہیں۔
وہ سب جھنجھلائے ہوئے آنسو پہنچتے ہوئے سول ہسپتال پہنچے جو کورٹ سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ ہسپتال میں بلال انور ایڈووکیٹ کے خون آلود جسم کو دیکھ کر کوئی دھاڑیں مار رہا تھا۔ تو کوئی بت بنا اسے پتھرائی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ تو کوئی کسی دوست کے گلے لگ کر حوصلہ پانے کی کوشش کررہا تھا۔ جو اس غم سے نڈھال تھا دیوار سے ٹیک لگا کرسہارہ حاصل کررہا تھا۔ نہ سمجھ آنے والے لمحے سب سے بھاری ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قدم ساتھ نہیں دیتے۔
وکلاء کے اس مجمع نے آخر کار فیصلہ کیا کہ مقتول کا جسد خاکی لے کر تھوڑی دیر کے لیے احتجاجی جلوس نکالا جائے۔ ابھی انہوں نے چار پائی کو کندھا دیا ہی تھاکہ ان کے درمیان موجود ظالموں کے نمائندے نے اپنی کاروائی ایک دھماکے کی صورت میں کردی۔ پھرکیا تھا ۔ ہر طرف خون آلود جسم تڑپ رہے تھے۔ کچھ موقع پر ہی کوئلہ ہوچکے تھے ۔ بعض کے اعضا ء ادھر ادھر بکھر چکے تھے۔ جس ایمر جنسی وارڈ میں معمولی ایمر جنسی سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں وہاں اتنی لاشیں اور زخمی علاج معالجے کی سہولت کیسے پاسکتے تھے۔ مریض، ڈاکٹر، تیماردار سب بھاگ نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے تھے۔ کیونکہ بی ایم سی کا واقعہ ابھی ان کے ذہنوں میں تازہ تھا کہ وہاں ایسی ہی صورتحال کے بعد دہشتگردوں نے ہسپتال پر قبضہ کیا۔ مریضوں، ڈاکٹروں اور اہلکاروں کا قتل عام کیا۔ واقعے کے بعد جس میں ڈی سی او کوئٹہ عبدالمنصور کاکڑ مارا گیا۔ پولیس و دیگر اعلیٰ افسران، سیکیورٹی اہلکاروں نے ہسپتال میں بروقت پہنچناچھوڑ دیا ہے۔ چند ایمبولنس ایک ڈرائیور کے ساتھ موجود تھے۔ جن کے ساتھ رضا کار نہیں ہوتے اور نہ ہی اس شہر میں رضا کارانہ مزاج پایاجاتا ہے۔ اب تو پورے ملک کا المیہ ہے کیونکہ جن معاشروں میں انسان زبان، نسل علاقہ، سیاست، فرقہ پرستی کے غلام بنے وہاں رضا کارپیدا نہیں ہوتے۔ یہ وکلاء، ادبا اور ٹریڈ یونین ہی ہیں جو اس خلا کو پورا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ یا اتحاد و اتفاق کا بے غرض پر چار کرتے ہیں ۔جو مرے پڑے تھے انہیں چھوڑ دیا گیا زخمیوں کو زندہ بچ جانے والے وکلاء اور قریبی جناح روڈ کے دکاندار ایمبولینسوں میں ڈالتے رہے۔ ایک ہسپتال کے اندر سے دوسرے ہسپتال میں منتقل کرتے رہے۔ بعض سی ایم ایچ جو کہ چھاؤنی میں ہے۔ ان دنوں وہاں سیکیورٹی کا یہ عالم ہے ٹی وی آرٹسٹ محمد انور بلوچ جسے دل کا دورہ پڑا جو کینٹ کے قریب تھا اسے سی ایم ایچ جانے کے لیے ناکہ پر موجودسیکیورٹی اہلکاروں نے جانے نہیں دیا وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔ سنا ہے وکلاء کے زخمی کسی طرح سے سی ایم ایچ تو پہنچ گئے انہیں خون کی ضرورت تھی ۔ خون دینے والوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے بعض وکلاء جانبر نہ ہوسکے۔ اس واقعہ کے بعد شہر میں عجیب حالت تھی۔ لوگ ہونقوں کی طرح گاڑی چلا رہے تھے۔ ہر جگہ ٹریفک جام تھا۔ ہر شخص گھر بھاگنے یا بچوں کو سکولوں سے نکال کر لے جانے کے لیے بے چین تھا۔ لوگ گھروں سے پریشانی میں اپنے رشتے داروں کو فون کرکے بلا رہے تھے۔ ٹی وی پر لاشوں کی گنتی جاری تھی۔ زخمی صحافیوں کے دوست گومگو کا شکار تھے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد کریں یا بریکنگ نیوز کی بازی لے جانے کی ہدایات پر عمل کریں۔ زندہ مردہ وکلاء کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ چکی تھی۔ وکلاء کے کالے کوٹ تاروں سے لٹک رہے تھے۔ یا پھر ٹکڑوں میں ادھر ادھر پڑے تھے۔ البتہ وہ جیبیں محفوظ تھیں جن میں ماں باپ کی دواؤں کے چٹ، یوٹیلٹی بل ، مقدموں کی فہرست پڑی تھی۔ ابھی لاش اٹھائے ہی نہیں گئے تھے کہ سیاسی رہنماؤں کے مذمتی بیانات بریکنگ نیوز بن کر ٹی وی سکرین پر نمایاں ہونے لگے۔ کسی سیاسی پارٹی کے ورکروں کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ رضا کارانہ کاموں میں امداد کو پہنچتے ۔ اگر جلاؤ گھیراؤ کا معاملہ ہو تو ہر گلی، کوچہ سے سینکڑوں جیالے نکلیں گے۔ اس قتل عام میں تمام زبانیں بولنے والے وکلاء تھے۔ لوگ ایک جنازے سے دوسرے جنازے کی تدفین کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ بعض قبرستانوں میں بیک وقت چار چار پانچ پانچ جنازے ایک ساتھ دفنائے جارہے تھے ۔وہاں بھی خوف کا عالم تھا کہ کہیں ظالم مزید خونی سیلاب کے بندات میں شگاف ڈالنے کا کام نہ کریں۔ چند ہی گھنٹوں میں دہشتگرد گروپ نے شہیدوں کی شہادت کی ذمہ داری قبول کرلی۔ اگلے روز پورا شہر سنسان تھا۔ شہدا کے گھروں میں تعزیت کا سلسلہ جاری تھا۔ چمن، پشین، خضدار، تربت، نوشکی اور دیگر شہروں کو بھی جنازے گئے۔ بعض زخمیوں کو کراچی منتقل کیا گیا۔
اللہ کرے یہ سلسلہ یہیں رک جائے۔ حالات واقعات اور دھمکیوں سے لگتا ہے کہ یہ سلسلہ رکھنے والا نہیں۔ نہ ہی حکمران ہوش کے ناخن لے رہے ہیں اور نہ ہی ان کے دشمن۔ بیچ میں معصوم اور نہتے لوگ قتل ہورہے ہیں۔ معاشی طوپر لوگ تنگدستی کاشکار ہورہے ہیں۔ خوف کی وجہ سے بچوں ، خواتین اور خاص طورپر بزرگوں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ والدین بچوں کو سکول ، کالج نہیں جانے دے رہے ۔اس واقعہ کے تیسرے روز سیکیورٹی اداروں کے دعوؤں کے باوجود شریعت عدالت کے جج جسٹس ظہو ر شاہوانی کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم کا حملہ ہوا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے