لکھنے والے بھی عجیب ہیں وہ یوں کہ درددل بیان کر کے ہی رہتے ہیں بیشک اُ ن کے قارئین میں کوئی چارہ گر بھی نہ ہو ۔ شاید اس لیے کہ سیل غم کے سامنے بند باندھنے سے جو عاجز رہے۔یہ چند سطور نہ تو مضمون کے زمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی کسی اور صنف ادب کے، اسے بس آپ قلم کے آنسو سمجھیے جو حروف کی صورت کاغذ کے چہرے پر نمودار ہوئے ہیں۔ دل ویسے بھی بچھڑے ہووں کو یاد کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے ۔
آٹھ آگست کا سانحہ وکیل شہداء نے خون سے تاریخ رقم کردی۔ یہ واقعہ بلا شبہ تاریخ میں ایک اور خونچکاں باب کا اضافہ ہے۔ دشمن نے صرف ہمارے بیباک اور حق گوہ وکلا کو بلکہ ہم میں پائی جانے والی وفا اور وضع داری کی خُو کو بھی نشانہ بنایا ۔یہ حملہ اسی لیے حد سے زیادہ خطرناک ہے کہ قاتلوں نے یہ واضح کردیا کہ وہ ہمارے آپس میں موجود فطری اور مثبت قبائلی روایات سے خوف زدہ ہے۔ امن ہو یا جنگ ، خوشی ہو یا غم اجتماعیت کے ساتھ نمٹنے کی عادت اور آپس میں اُنس اور محبت کا معاملہ ہمارے قبائلی معاشرے کا قابل فخر خاصہ ہے۔ آٹھ آگست کو وہ لوگ بھی ہسپتال پہنچے جن کو بلال انور صاحب کے زخمی ہونے کی خبر ملی اور وہ بھی جن کو پتہ تھا کہ وہ جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ یہاں واقعی ایک کٹورے پانی کی قیمت ساری زندگی کی وفا ہے ۔
بیشک آنے والی نسلیں اس بات پر سوچیں گی کہ یہ جنگ آخر کیسی جنگ تھی جس سے متاثر ہونے والوں کو زبردستی اس میں شامل ہونے کے جتن ہوئے۔اس میں زندگی سے محروم ہونے والوں میں سب سے بڑی تعداد ان کی ہے جن کو مد مقابل فریقین نے صرف ایندھن کے طور پر استعمال کیا، اور یہ کہ اپنی بے گناہی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد اُن سے بھی بڑھ کر ہے جنہوں نے امن دشمنی کو پیشے کے طور پر اپنایا ہے اور ان سے بھی جنہوں نے عالمگیریت کے اس زمانے میں اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بناکے ساری دنیا کی آشتی کو تاتاریت کا لبادہ پہنایا ۔ مگر یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ تاتاریوں میں بھی کچھ اُصولوں کا پاس تھا ۔۔۔ اُنہوں نے اپنی بربریت کو مذہب سے کبھی نہ جوڑا اور نہ ہی کبھی کسی آدرش یا مقدس آئیڈیالوجی کا سہارا لیا۔ ان کے لیے تو اُن کا اپنا تحفظ ہی سب کچھ تھا وہ جس سے لڑے اُن سے genuineخطرہ تھا ۔
اس جنگ کا ایک اندوہناک پہلو یہ بھی ہے کہ مرنے والے کو یہ جاننے کی کوشش سے روکا گیا کہ ان کا اصل دشمن کون ہے، ظاہرہے اکیسویں صدی کے ذرائع ابلاغ کی اسٹیرنگ سیٹ پر کون بیٹھے ہیں۔کچھ اس واقعے کی مماثلت زلزلوں اور قدرتی آفات میں ڈھونڈ رہے ہیں گوکہ تاریخ بابڑہ جیسے مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ سیاسی کم ظرفی نہیں تو کیا ہے؟ اور کسی نے قیمتی جانوں کی بھیانک موت کو صرف ایک سڑک پر حملہ قرار دیا اور یہ کہ اس کے بعد بھی اہمیت سڑک کی رہے گی نہ کہ انسان کی ، مستقبل کیلئے جو حکمت عملی وضع کی جائیگی وہ سڑک کے وجود سے زیادہ متاثر ہوگی۔پتہ نہیں وہ دنیا کہاں ہے جہاں سڑک انسانوں کیلئے بنتے ہیں نہ کہ انسانوں کی صورت میں سڑک کا صدقہ اُتارا جاتا ہے۔بس کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ اپنے جام کے شکستہ ہونے کا اعتراف کرتے ۔واقعیت پسندی کی یہ انتہا ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ان کی قبر پہ میکاولی کا بھی گزر ہو تو کہے کہ یا اُستاد۔
یہ نہ کہا گیا کہ درجنوں چراغ گل ہوئے، تپتی دھوپ میں سائبان ہٹا دیے گئے، بادبان طوفان کی زد میں آئے، معصوموں کے گلاب چہرے کملا گئے، سہاگ اُجڑ گئے۔ گودیں ویران ہوئیں۔اور یہ کہ اچھے دوست اور بھائی لمحہ بھر میں جدائی اور فاصلوں کے نذر ہوئے ۔
ایک پرانی کہاوت ہے کہ گیدڑ کہ دُم سے پکڑنا اگر ناممکن نہیں تو خطرے سے ہر گز خالی نہیں اس لیے کہ جان چھڑانے کی چکر میں وہ آپ کا چہرہ بھی نوچ سکتاہے ۔ زندگی کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ کے جینے کی ادا پتہ نہیں کب پیدا ہوگی۔ یہ حیلے بہانے یہ ٹامک ٹوئیاں ، یہ لیت و لال دراصل اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ پڑوسی پر الزام لگانے سے پہلے سوچو کہ گھر کی چاردیواری اور دروازے کی حفاظت پر آپ مامور تھے اور گھر کے اندر ہر طرح کے وسائل بھی آپ کے disposalپر تھے پھر یہ سلسلہ ء بربریت آخر کیوں؟؟
مجھے یقین ہے کہ ہماری بصیرت سے عاری سیاست اگر مذکورہ بالا نکتے کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی وضع کرے تو عام آدمی کا ایک بھرپور مقدمہ لڑا جاسکتا ہے اوراس طرح دونوں طرف سے متحارب قوتیں عام انسان کو بیچ سے ہٹا کر ایک دوسرے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ عام انسان کا یہ دعویٰ کہ میرا نقصان سب سے زیادہ ہے، میں رتی برابر بھی شک نہیں۔ اور یہ کہ فریقین میں سے کوئی بھی جیتے، عام آدمی کو ان سے کیا ملنے والا ہے ،،، اپنی جگہ ایک بڑا سوال ہے۔ مذکورہ بالا دونوں فریقین میں سے کوئی بھی جیت جائے تو عام انسان کی قسمت میں آزادی اور نجات نامی کوئی شے نہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اپنی محنت سے کماکر کھانے والا ایک بیانیہ جاری کردے جو مکمل طور پر ان کے حقیقی مشکلات کا احاطہ کرے اور خود کو ایک entityکے طور پر منوالے ۔ جو دنیا کو باور کرادیں کہ ہمیں عسکریت کی غلام بنانے والی خُو سے بھی ڈر ہے اور استحصال جیسی slow poisoningسے بھی خطرہ ہے۔ ہمیں ایک خاص سمت میں بڑھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ایک طرف devil اور دوسری طرف deep seaکی سی صورتحال سے چھٹکارا حاصل کرنے کا یہی ایک واحد طریقہ ہے ۔
اتنے پرآشوب صبح و شام جھیلنے کے بعد ہم اتنے سادہ بھی نہیں کہ اپنے قاتل کو نہ جان سکے یا پھر اپنے دوستوں کو پہچاننے میں کوتاہی سرزد ہو۔ دشمن سے بدلہ لینے کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کو بازمحمد، قاہر شاہ، بیرسٹر عدنان، داود کاسی، ایمل خان ، عسکر خان ، رحمت اللہ ، جمال ناصر اور فیروزخان وغیرہ وغیرہ کے راستے پر ڈال دیں ۔ اس طرح وہ مستقل طور پر دشمن کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہیں گے۔