شام میں سرمئی رنگ دھکاہوا
سانس در سانس بارود مہکا ہوا
آدمی آدمیت سے بہکا ہوا
آنکھ کاجل کے بدلے دھواں گھولتی
سوگ میں زندگی زلف کو کھولتی
صحن در صحن ماتم کی لوڈولتی
خاک لاشوں کی فصلوں سے سرسبزہے
کوکھ تک لوریوں کی زباں سرد ہے
الاماں !الاماں! ! درد ہی در د ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے