نیلامی
کسی دیہات میں تین آدمی ’’الف‘‘، ’’ب‘‘ اور’’ج‘‘ رہاکرتے تھے، جو ترتیب وار اونچے طبقے، درمیانی طبقے اور نچلے طبقے سے تھے۔ تینوں نے ہی الگ الگ سرکاری قرض لے رکھاتھا۔ قسطیں نہ پٹنے پر ایک بار اس دیہات میں وصولی افسروں کادورہ ہوا۔ سب سے پہلے وہ ’’الف‘‘ کے گھر پہنچے۔ وہاں وہ مرغے کی ٹانگے کھینچتے اور شراب پیتے ہوئے کہنے لگے:’’ آپ سے توہم پیسے کبھی لے لیں گے۔۔۔پیسے بھاگ تھوڑے ہی جا رہے ہیں‘‘۔ وہاں سے وہ ’’ج‘‘ کے گھرپہنچے، اس مفلسی دیکھ کر ان کی آنکھیں بھرآئیں، اور وہ اس سے بناکچھ کہے ’’ب‘‘ کے گھر کی اور چل دیئے اور وہاں پہنچ کر انھوں نے دھمکانا شروع کردیا:’’کیوں بے!پیسے دیکھ کرتیری نیت خراب ہوگئی۔۔۔سالے کی زمین، جو قرض لیتے وقت رہن رکھی تھی، نیلام کرتے ہیں۔
۔۔۔اور نیلامی پرعمل شروع ہوگیا۔
بے اعتمادی
ایک گھرمیں تین شخص بیٹھے ہوئے ہیں۔ پہلااس گھرکامالک ، دوسرا اس کا ایک نزدیکی دوست اور تیسرا وہ جو اس کے سائیڈوالے کمرے کو کرائے سے پانے کی امید میں اس کے نزدیکی دوست کے ساتھ آیاہے۔ چونکہ امیدوار کنوارا ہے اس لیے مکان مالک اسے کرائدار نہیں بناناچاہ رہاہے، پر ساتھ میں نزدیکی ہونے کی وجہ سے وہ پس وپیش میں ہے۔
ان کے درمیان باتوں کاسلسلہ شروع ہوتاہے۔
مکان مالک۔۔۔فی الحال تومکان کرائے پراٹھانے کاہماراکوئی ارادہ نہیں ہے۔
امیدوار۔۔۔کیوں؟
مکان مالک۔۔۔کیونکہ اس کمرے کی کھڑکیوں میں پلے نہیں لگے ہیں اور بجلی کاکنیکشن بھی پیچھے پول سے ہے، اسے سامنے پول سے لینا ہے۔
امیدوار۔۔۔مجھے کوئی ہرج نہیں ہے۔ میں چابی آپ کے پاس ہی چھوڑ جایاکرونگا، پھر آپ چاہے جیسے ریپرنگ کرواتے رہیے۔
(مکان مالک سوچنے لگتا ہے یہ سالا ایسے ٹلنے والانہیں۔۔۔مجھے کوئی دم دار بہانہ سوچناچاہیے، تبھی اسے کچھ سوجھتا ہے۔)
مکان مالک۔۔۔ہمارے یہاں بھتیجے بھی ساتھ میں رہتے ہیں۔ ان کی پڑھائی میں خلل نہ پڑے، سوچ کر بھی ہم فی الحال مکان کرائے پر دینے کے ارادے میں نہیں ہیں۔(اس بیچ مکان مالکن چائے لے کر آتی ہے۔)
امیدوار۔۔۔(چائے پیتے پیتے) بھائی صاحب، پڑھائی کے معاملے میں تومیں اور بھی سنجیدہ ہوں۔ میں خود سول سروس کی تیاری کررہاہوں۔ یہ تو آپ کے لیے پلس پوائنٹ ہوناچاہئے۔
مکان مالک پھرسوچنے لگتاہے، سالا ہے تودماغ کاتیز پرجب مسز چائے لے کر آئی تھی توایسے گھوررہاتھا مانو کچا ہی چبا جائے گا۔۔۔ اس سے صاف کہنا ہی ٹھیک رہے گا۔)مکان مالک۔۔۔یارہم لوگ فیملی والوں کوہی مکان کرائے سے دیناچاہتے ہیں۔
اب امیدوار جانے کے لیے ناامیدی کے ساتھ اٹھ کھڑاہوجاتاہے، کیونکہ اسے معلوم ہے اس کے چہرے پرتو اس کا کیریکٹر کھودا ہوانہیں ہے، لیکن جاتے جاتے وہ کہہ کر ہی جاتاہے:’’بھائی صاحب، پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو مجھ پراعتبار نہیں ہے، یا اپنے آپ پر، یاپھر اپنی بیوی پر۔۔۔
پرواز
اس بچی نے مسرور ہوکر اپنی دونوں آنکھیں بند کرلی۔ کچھ دیر بعد اسے محسوس ہواکہ وہ اپنے دونوں پرپھیلائے اونچی اوراونچی اڑرہی ہے۔۔۔ فوراً اسے لگا کہ باز اس پر جھپٹا مارکراسے زمین پرلے آیاہے، اور اس کے پرنوچنے لگاہے۔ گھبراکر اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
۔۔۔اس بیچ ایک دور ختم ہوگیاتھا۔ اب وہ بچی سے ایک عورت بن گئی تھی، اور معاشرہ باز نے اس کے پرنوچ لیے تھے۔