آدم خان نے جب مسجد بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو مولوی غلام نبی نے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا ۔ مگر علاقے میں دوسری مسجد کا سنگ بنیاد اتنی دوری پہ رکھا جہاں پہلی مسجد کی آذان کی آواز گم ہوجاتی تھی ۔ بقول اس کے ، یہاں شہر کا ماحول نہیں ہونا چاہیے۔ اور آدم خان بھی تو یہی چاہتا تھا کہ اس کی مسجد آبادی سے دور اس گزرگاہ پہ بنے جہاں ایک چھپر نما ہوٹل ، ایک غیر قانونی پیٹرول پمپ اور چھوٹا سا پرچون اسٹور تھا ۔ یوں تو یہ Main Highwayتھا، مگر سڑک کچی تھی ۔ جس سے ایک پگڈنڈی آکر ملتی تھی۔ جو لونگ خان جیسے چھوٹے موٹے اسمگلروں کی موٹر سائیکلوں کا راستہ تھا ۔ وہ ان پہاڑوں کے پیچ درپیچ راستوں سے گزر کر سرحد پار سے کولر ، کپڑے ، کراکری اور اس قسم کا دوسرا چھوٹا موٹا سامان لاکر یہاں سے گزرنے والی بسوں کی چھتوں پر لاد کر شہرکی مارکیٹ میں بھجواتے تھے۔ اس علاقے کے نوجوان چھوٹی موٹی ملازمتوں کے لیے بڑی بڑی رقمیں دینے سے قاصر تھے ،اس لیے سرکاری نوکری نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر یہی سمگلنگ نما کاروبار کیا کرتے تھے۔
بس اسی بھاگ دوڑ کے دوران ایک دن آدم خان کو مسجد بنانے کا خیال آگیا۔ ایک ایسی مسجد جو آتے جاتے مسافروں کے لیے ایک سرائے کا کام دے ۔ جہاں لوگ وضو کی صورت میں اپنی ضروری حاجات سے فارغ ہوکر نماز بھی پڑھیں اور برآمدے میں کچھ دیر سستاکر تازہ دم بھی ہوجائیں ۔مسجد کی افادیت کا اندازہ آدم خان کو اس لیے بھی تھا کہ وہ اپنے ’’کاروبار‘‘ کے سلسلے میں اکثر راستے بدلتا اور کبھی بھٹکتا بھی تھا ۔ اس مسافت میں اس کا واحد سہارا مسجد ہی ہوتی تھی جہاں اسے ایک مسافر کی حیثیت سے روٹی ،پانی ،سایہ ،سب مل جایا کرتا تھا ۔
آدم خان اور مسجد۔ پہلے تو اس اعلان پر ہی قہقہے لگے۔ مگر مولوی غلام نبی کے ترغیب دینے پر لوگ ثواب کمانے کے لئے آگے بڑھے ۔ ’’ہم ثواب ہم خُرما ‘‘کے مصداق چندے کی پیٹی اور جھولی لے کر منچلے ہر جگہ دوڑپڑتے ہیں۔ کچھ نشے کی پڑی اور سگریٹ کے پیکٹ کا خرچہ بھی نکال لیتے ہیں ۔چندہ دینے والے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ ،مسجد ہے کس کی ؟ کون سی پگڑی والوں کی ۔۔۔؟؟ آدم خان نے کبھی پگڑی پہنی نہیں تھی ،سو وہ کیا بتاتا ۔ مگر جب مسجد کی دیواریں زمین پہ بچھی بنیاد سے سر اٹھاکر باہر جھانکنے لگیں تو مختلف پگڑی والوں کے نمائندے باقاعدہ طور پر آدم خان کے پاس چندہ نہیں پوری مسجد کی قیمت لے کر آئے ۔ ہر کسی نے آدم خان کو اپنی پگڑی پہنانے کی کوشش کی ۔ مگرآدم جو دس سال کی عمر سے یتیم ہونے کے بعد ، گلیوں میں رُل پھر کر لوگوں کو ٹوپیاں پہنانے کا ماہر ہوچکا تھا ، مسجد کے معاملے میں بہت پکا نکلا ۔ اس نے کسی قیمت پر اپنی وہ پانچ سالہ پرانی ٹوپی نہیں اتاری ، جو اس کی ماں نے اپنی آخری عید پر اسے بناکے دی تھی ۔ لونگ کو وہ ٹوپی شاید اس لیے بھی پیاری تھی کہ اس کی ماں جب تک زندہ رہی ایسی ٹوپیاں بناکر اسے رزقِ حلال کھلاتی رہی ۔ البتہ اس کی شادی کے کپڑے ، گہنے اورپھر بعد کے خرچوں نے اس کی پیٹھ پر وہ وزن لاد ھ دیا جو اسے سرحد پار لانے لے جانے لگا ۔
آدم نے اپنی ٹوپی کسی پگڑی کے ساتھ اس لیے بھی نہیں بدلی کہ وہ جس مقصد کے لیے یہ مسجد بنوارہا تھا ، وہی فوت ہوجاتا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بسوں سے اتر نے والے صرف چند مسافر اس مسجد سے فیض یاب ہوں اور باقی نفرت سے منہ پھیر کر اکلوتے کھجور کے بالشت بھر سائے کے نیچے اپنی پیشانیاں خاک آلودہ کریں ۔ اگر وہ ایک ہوٹل کے چھپر کے نیچے کھانا کھاسکتے ہیں تو ایک مسجد کی چھت کے نیچے عبادت کیوں نہیں کرسکتے ۔ حرم پاک میں بھی تو وہ پگڑیاں اتارکر ایک دوسرے سے کاندھا ملاتے ہیں۔
اپنی مسجد کے لیے حرم پاک والی مثال پر اکثر لوگ نعوذ باللہ بول کر اس کی جہالت سے منہ پھیرلیا کرتے تھے۔ مگر اس کی پشت پر مولوی غلام نبی کی تھپکی تھی ۔ سو وہ دھڑلے سے بات کرتا تھا۔ مسجد کے لیے اس نے اپنی پیٹھ کا بوجھ اور بڑھادیا۔ پانچ کی بجائے دس واٹر کولر ، دس کی بجائے بیس کپڑوں کے تھان ۔ سگریٹوں کے ڈنڈے ، بسکٹوں کے پیکٹ اور اس کے پھیرے بھی بڑھ گئے ۔ آدم کی بیوی بھی چولھے کے ساتھ بندھ گئی۔ شہر سے دوکاریگر ملاکر سات بندے آئے تھے ۔ ایک بندہ پانچ پانچ روٹیاں ۔ مگر خدا کا گھر ہے ، سو کرنا تو ہے ۔
آخر کار خدا اور اس کے بندوں کی مدد سے چار دیواری کھڑی ہوگئی اور عین اس روز جب چاولوں کی ایک بڑی دیگ کا صدقہ دے کر مسجد کی چھت ڈالی جارہی تھی ، مولوی غلام نبی کا بیٹا حافظ غلام محمد دستار فضیلت باندھے مدرسے سے فارغ التحصیل ہوکر واپس لوٹا۔ بس سے اتر کر اس نے اللہ اکبر کی جوشیلی صداؤں میں کنکریٹ سے بھری تغاریوں کی آوازیں سنیں اور بجری کے ڈھیر پر اپنے والد صاحب کو آنکھیں بند کیے تسبیح پڑھتے دیکھا تو اس کی دستار فضیلت کے بل کسی خیال کی مسرت سے اور کس گئے۔ ایک پسرانہ ، محبت کی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی ۔ اس کے باپ نے اس کی آمد سے قبل ہی اس کے لیے منبر و محراب کا انتظام کردیا تھا ۔
مولوی غلام نبی خود کسی مدرسے سے باقاعدہ فارغ التحصیل نہیں تھے بلکہ اسی مسجد کے سابقہ پیش امام مرحوم مولوی عبداللہ کے سب سے تابعدار شاگرد تھے، جن کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی ۔اس لیے انہوں نے اپنی ایک صاحبزادی بطور نکاح اور ایک چھوٹی سی کچی مسجد بطور ترکہ مولوی غلام نبی کے سپرد کی اورخود پیدل حج کے لیے چلے گئے اور پھر واپس نہیں لوٹے ۔ ہونہار شاگرد نے اپنے استاد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ پنجگانہ نماز کے علاوہ رمضان میں قرآن کی آخری20سورتوں والی تراویح ، نکاح اور جنازے پڑھانے کے علاوہ مسجد میں قدرے توسیع کرکے جمعے کی نماز بمعہ وعظ و خطبہ کا بھی اہتمام کرنے لگے ۔ سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے علاقے کے بچوں کو صحن میں درس قرآن بھی دیتے اور گلیوں میں چلتے پھرتے لڑکوں کو نصیحتیں بھی کرتے رہتے ۔ کھانا پینا اردگرد کے گھروں سے آجاتا ۔ کپڑا لتااور دوسری ضروریات علاقے والوں کے غم وخوشی کے موقعوں سے پورے ہوجاتے۔اور اگر کچھ کمی رہ بھی جاتی تو اس پر صبر کرتے مگر رزق کا کوئی دوسرا وسیلہ کبھی اختیارنہیں کیا۔ اس لیے کہ کاروبار یا ملازمت کسی پیش امام کو زیب نہیں دیتا ۔ البتہ ان کے تین میں سے دو بیٹوں نے اس روایت سے بغاوت اختیار کی ۔ بڑا بیٹا عبدالغنی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کی سرکاری مسجد میں جاکر مؤذن بھرتی ہوا ۔ اور گھر گھر جاکر روٹی مانگنے کے بجائے سرکار کی تنخواہ پہ اپنے بیوی بچے کی کفالت کرنے لگا ۔ جب کہ اس سے چھوٹا غلام یاسین تو اس سے بھی زیادہ باغی نکلا ۔ وہ تو شہر جاکر ایک منیاری والے کی دکان پہ خواتین کو چوڑیاں پہنانے لگا ۔ ’’مردود!‘‘۔ مولوی غلام نبی کی تین بیٹیوں میں سے ایک کی رخصتی کردی گئی تھی اور دوسری دو ،کچھ واجبی دینی تعلیم کے ساتھ رخصتی کے لیے اپنی بلوغت کا انتظار کر رہی تھیں۔ بہرحال !مولوی غلام نبی کی ساری امیدیں حافظ غلام محمد سے ہی وابستہ تھیں ۔ دنیا کا فخر بھی اور آخرت کا اجر بھی ۔
حافظ غلام محمد کی آمد پہ تھوڑی دیر کے لیے کام رکواکر مولوی غلام نبی نے ایک بار پھر دعائے خیر کروائی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی مسجد میں لے گیا۔نیز مغرب اور عشا دونوں نمازوں کی امامت کے لیے اس کو آگے کردیا ۔ حافظ غلام محمد کی خوب صورت قرأت نے سماں باندھ دیا اور مقتدیوں کو حافظ غلام محمد کے عربی اور مولوی غلام نبی کے مقامی لہجے کی قرات سے ہی دونوں باپ بیٹے کی درس گاہوں کے معیار اور فضیلت کا اندازہ ہوگیا۔ یہ ایک طرح سے حافظ غلام محمد کی تخت نشینی کا ایک خاموش اعلان بھی تھا جس کو مقتدیوں نے بھی خاموشی سے بخوشی قبول کرلیا۔اور کیوں نہ کرتے ، غلام محمد کی اعلیٰ معیار کی قرات سے انہیں اپنی نمازوں کا معیار بھی بلند لگنے لگا۔لیکن حافظ صاحب نے وہ اعلیٰ تعلیم اور خوب صورت قرأت ایک چھوٹی سی کچی مسجد اور چند نادار اور مفلس مقتدیوں کے لیے تھوڑی حاصل کی تھی ۔ اس نے تو اپنے اس دس سالہ تعلیمی عرصے میں اللہ تعالیٰ کے وہ شاندار گھر دیکھے تھے ،جن کا تصور بھی یہاں کے مقتدی نہیں کرسکتے ۔ اور ان گھروں کے منبر و محراب پر براجمان جبہ و دستار پہنے حسین نورانی پیش امام دیکھے تھے جو اپنی وضع قطع سے ہی ’’نائب اللہ فی الارض‘‘ نظر آتے تھے ۔ جن کے مقتدیوں میں بڑے بڑے سرمایہ دار ، جاگیردار ، فوجی اور سول افسران شامل تھے ۔ وہ افسر جن کی رعونت کے آگے انسان تو کیا دفاتر کے درودیوار بھی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ۔ وہی سر جھکاکر دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے آتے تھے ۔ حافظ غلام محمد کی سند کے آگے تو لونگ خان کی مسجد بھی چھوٹی پڑرہی تھی ۔ مگر اس غریب اور پسماندہ علاقے میں بہرحال یہ گزارے لائق تھی ۔
دوسرے روز فجر کی نماز کی امامت کے بعد حافظ غلام محمد زیر لب تسبیحاں پڑھتا ہوا آدم خان کی مسجد کا معائنہ کرنے پہنچا جہاں لونگ خان نئی نویلی چھت پر ترائی کرنے کے لیے ریت کی کیاریاں بنا رہا تھا ۔ اس نے جلدی سے اپنے ہاتھ دھوئے اور نیچے اتر کر عقیدت سے حافظ صاحب سے مصافحہ کیا ۔ حافظ صاحب نے بھی بہت پیار اور اپنائیت سے اس کا ہاتھ تھامے رکھا اور اس کی ہمت اور ایمان کی تعریفوں کے ساتھ اسے جنت میں ایک محل کی بشارت بھی دے ڈالی ،لیکن آدم خان ابھی اس بشارت کی سرشاری میں ہی گم تھا کہ حافظ صاحب نے اپنے تئیں اسے دوسری خوش خبری بھی سنائی کہ وہ مسجد کے باقاعدہ افتتاح سے قبل ہی اس مسجد کی امامت کا فریضہ سنبھال رہے ہیں ۔ اور باقی ماندہ کام اب وہ اپنی نگرانی میں مکمل کروائیں گے ۔ اس خوش خبری پہ آدم خان نے اپنے کھردرے ہاتھ حافظ صاحب کے نرم ہاتھوں کی دوستانہ گرمی سے چھڑا لیے۔اور نہایت مؤدبانہ انداز میں حافظ صاحب کو بھی وہی تقریر سنائی جو اس مسجد کی امامت کا خیال دل میں لانے والے ہر صاحب علم کو وہ سناتا آیا ہے ۔
’’مسجد اللہ کا گھر ہے ، لیکن امامت کی آڑ میں لوگوں نے اسے اپنی بیٹھک بنالیا ہے ۔ ان سرداروں ، نوابوں ، ملکوں ، وڈیروں اور چوہدریوں کی بیٹھکوں کی طرح جہاں صرف ان ہی کا حکم چلتا ہے ۔ ان کی جی حضوری اور واہ واہ کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے ۔ جہاں انہوں نے لوگوں کو لالچ اور خوف میں جکڑ کر اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے قبیلوں اور برادریوں میں بانٹ دیا ہے ۔ ویسا ہی کچھ صاحبِ علم افراد نے الگ الگ پگڑیاں پہن کر معصوم مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے ۔ اور یہ سارا فساد مسجدوں کی باقاعدہ امامت سے ہی شروع ہوتا ہے ۔امامت کے لیے تو حکم ہے کہ جب لوگ نماز کے لیے جمع ہوجائیں تو ان میں سے جو بہتر ہے وہ امامت کرے ۔امامت کے لیے ملّا اور مولوی کے نام پر ایک خاص وضع قطع کی شخصیت کو کسی مستقل ملازم یا معتبر کی شکل میں تعینات کرنا ضروری نہیں۔جو اپنے عہدے اور اختیار کو استعمال کرکے نہ صرف مسجد بلکہ لوگوں کے دل و دماغ اور فہم و فراست پر بھی قابض ہونے کی کوشش کرسکتا ہے ۔ اوریہ مسجد تو خالصتاًرفاع عامہ کے لیے بنائی گئی ہے ۔ اس لیے اس میں ۔۔۔۔۔۔‘‘
آدم خان کی اتنی لمبی چوڑی تقریر کے جواب میں حافظ غلام محمد صرف ایک مسکراہٹ دے کر رخصت ہوگیا ۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ساری تقریر اس کے باپ کی سکھائی ہوئی ہے ۔ ورنہ آدم خان جیسا معمولی سا جاہل اسمگلر اور ایسی باتیں ۔ لیکن حافظ صاحب کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ علم تو شاید درس گاہوں کی چاردیواریوں کے اندر ملتا ہو مگر فراست کی کوئی شرط نہیں ۔ اس کے لیے تو چار دیواری سے نکلنا پڑتا ہے ۔ اور پھر آدم خان جیسے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے لوگ ،جواپنی ہر مسافت کے لیے ایک نیا راستہ تلاش کرتے ہوں، وہ تو چلتے پھرتے بنا پڑھے بہت کچھ جان جاتے ہیں ۔اور پھر فراست کے لیے تو درس گاہ اور مسافت سے بھی زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے ، وہ ہے ’’نیت‘‘۔
مولوی غلام نبی چاشت کی نماز پڑھ کر ابھی جائے نماز پر ہی بیٹھا تھا کہ حافظ غلام محمد اپنی چائے کی پیالی لے کر اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور اس سے لونگ خان کی تقریر کا ذکر کیا ۔ اس کا خیال تھا کہ باپ بھی لونگ خان کی اس جہالت پہ مسکرائے گا جو مسجد کا چندہ مانگتے مانگتے خود کو خطیب سمجھنے لگا تھا ۔ مگر مولوی غلام نبی نے لونگ خان کی وہی باتیں سنجیدگی سے دہرائیں ۔
’’اس مسجد کی صرف عمارت پکی ہے ، باقی اس کی حیثیت گزرگاہوں پر بنی ہوئی ان ہی مساجد کی سی ہے جو چند پتھر رکھ کر ایک علامت کی صورت میں بنادی جاتی ہے ۔ جن کے کنارے مسافر آکر رکتے ہیں ، اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں ۔ جن میں ایک ایک وقت میں کئی جماعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ ‘‘
’’آپ کو نہیں لگتا کہ لونگ خان ایک مسافر خانے کی شکل دے کر مسجد کا تقدس پائمال کر رہا ہے ؟‘‘حافظ غلام محمد نے ایک خالصتاً عالمانہ مگر مؤدبانہ لہجے میں اپنے باپ کی علمیت کو چیلنج کیا۔ مگر مولوی غلام نبی نے پدرانہ شفقت سے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔
’’ اگر مسافروں کے قیام سے اللہ کے گھر کے تقدس میں کچھ فرق آتا ہے تو حرم پاک میں کسی کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اللہ کا گھر ہی تو ہوتا ہے جس کے دروازے بلا رنگ و نسل حتیٰ کے مذہب کی تفریق سے بھی بالاتر ہوکر بندے کے لیے کھلے رہنے چاہئیں۔‘‘
’’آدم خان نے تو یہ دروازے خواتین کے لیے بھی کھول دیے ہیں ۔ بالا ئی حصہ ان کے لیے مخصوص کر ے گا ؟۔ ‘‘ حافظ غلام محمد نے فتویٰ لینے والے انداز میں پوچھا تو اس کے باپ نے کہا۔
’’اچھی بات ہے نا ۔۔۔ ہوٹل پہ بے پردہ بیٹھنے سے تو بہتر ہے کہ وہ مسجد میں جاکر بیٹھ جائیں ۔ ‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا بابا کہ یہ مسجد ہے یا کہ ہوٹل ۔۔۔؟‘‘
’’یہ تو داخل ہونے والے کی نیت پر ہوگا کہ وہ اسے ہوٹل سمجھتا ہے یا مسجد ۔۔۔! وہ جانے اس کا خدا۔‘‘
مولوی غلام نبی مزید بحث کرنے کے بجائے اٹھ کر روانہ ہوا تو حافظ غلام محمد کو ایسا لگا جیسے اس کی دستار لونگ خان کی ٹوپی کے آگے ہیچ ہوگئی ہے ۔ وہ تو لونگ خان کی مسجد کو بھی اپنی سند کے شایان شان نہیں سمجھتا تھا۔ اور یہاں اس کے باپ نے اسے اپنی کچی مسجد کے منبر پر بٹھادیا تھا۔اس نے اپنی دستار کھولی اور پھرکچھ سوچتے ہوئے اس کو کس کے بل دینے لگا ۔ بس اسی رات عشا کی نماز کے بعد لوگوں کو ایک ضروری اعلان کے لیے متوجہ کیا اور اپنا یہ فتویٰ سنادیا کہ ’’لونگ خان کی مسجد کا قبلہ ٹیڑھا ہے اس لیے اس میں پڑھنے والی کوئی نماز قبول نہیں ہوگی ۔ تاوقتیکہ محراب کو توڑ کر قبلہ رو نہ کردیا جائے ‘‘۔ حافظ غلام محمد نے عربی زبان میں کچھ دلائل دیے اور سورج چاند اور ستاروں کے مقامات کے تعین سے ایک ہی دن میں اس نے قبلے کی کجروی کا اندازہ لگالیا تھا ۔ دوسروں کی علمیت تو اس معاملے میں بالکل صفر تھی مگر مولوی غلام نبی بھی اس شرعی بحث میں بیٹے سے اسی طرح ہار گیا جیسے کہ قرأت میں اس کا لب و لہجہ ہارگیا تھا ۔ باوجود اس کے کہ حافظ غلام محمد کی ساری آیتیں اور احادیث مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام کی جانب قبلے کی تبدیلی کے متعلق تھیں ، اس میں کسی اور مسجد سے متعلق کوئی ذکر نہیں تھا ، مگر پھر بھی مولوی غلام نبی اگلے دن صبح سے شام تک مسجد لونگ خان کے سامنے بجری کے ڈھیر پر بیٹھا تسبیح کے دانے پھیرتا مسجد کے محراب کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ اور لونگ خان مولوی غلام نبی سے کوئی امید لگائے پریشان نگاہوں سے مولوی غلام نبی کا جائزہ لیتا رہا۔
مسجد لونگ خان میں مولوی غلام نبی کی دلچسپی ،جس نے حافظ غلام محمد کو خوش فہمی میں مبتلا کردیا تھا دراصل کچھ اور تھی ۔ اس کی پلاننگ آبادی سے قدرے دور بنیادی سہولتوں سے آراستہ ایسی مسجد کا قیام تھا جس میں تبلیغی جماعت والے آکر ٹھہرا کریں گے۔ اور ان سارے نوجوانوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں رائیونڈ لے جائیں گے جو روزگار کے لیے وزیروں کے گھروں اور افسروں کے دفتروں کے ناکام چکر لگارہے ہیں ۔ اور پھر دلبرداشتہ ہوکر یا تو کچرے کے ڈھیروں پہ دھوئیں اڑارہے ہیں یا پھر جذباتی ہوکر بندوق اٹھارہے ہیں ۔ یوں تو مولوی غلام نبی خود بھی ہر جمعے کو انہیں دوزخ کی آگ سے ڈراتا ہے ، جنت کے خوب صورت باغ دکھاتا ہے ۔ انہیں صبر و شکر کی تلقین کرتاہے کہ اگر وہ صدق دل سے دعا مانگیں تو انہیں گھر بیٹھے من و سلویٰ بھی مل سکتا ہے ۔ مگر بگاڑ اتنی تھی کہ مولوی غلام نبی کی وعظ و نصیحت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا تھا ، اس لیے اُس کی ساری امیدیں تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوگئی تھیں جو چرسی ، شرابی حتیٰ کہ ہیئرونچیوں کو بھی بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔ اور جب وہ واپس لوٹتے تو سگریٹ سے بھی تائب ہوچکے ہوتے ۔
یوں تو تبلیغی جماعت والے گاؤں کی کچی مسجد میں بھی اپنی تشکیل کرواتے تھے مگر کچھ بدبختوں نے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے تھے ۔ کہنا تو بظاہران کا یہ تھا کہ گاؤں کی چھوٹی سی مسجد جو گاؤں کے گھروں میں گھری ہوئی ہے ، وہاں پندرہ بیس غیر مردوں کا آکر تین چار دنوں کے لیے بیٹھ جانا بہت بڑی بے پردگی ہے مگر مولوی غلام نبی یہ جانتا تھا کہ ان کی سوچ کیا ہے ۔ وہ ان درویش ،فقیر صفت لوگوں کو بھی نشے کی پڑیا بولتے تھے جو اپنا گھر ، کاروبار چھوڑ کر اللہ کی راہ میں نکلے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ اللہ کے نام پہ نوجوانوں کا وہ جوش اور جذبہ ٹھنڈا کرنے آتے ہیں جو اپنی بدحالی اور پسماندگی کے خلاف ایک جنگ کی صورت اختیار کر رہا تھا ۔ مولوی غلام نبی خود بھی اس علاقے کی بدبختی سے واقف تھا، جس کے معدنیات سے بھرے پہاڑوں پر کچھ جذباتی نوجوان مورچہ بند تھے اور باقی کے لڑکے سونا اگلتی زمین پر بے مقصدیت کی دھول اڑاتے پھرتے تھے ۔ ان کے بیچ میں لونگ خان جیسے کچھ لوگ سمگلنگ کے ناجائز کاروبار سے رزق حلال کمارہے تھے ۔ یا پھر سیکڑوں میل پر پھیلے سمندر کے سینے پر مچھیروں کی کچھ کشتیاں شہر کے ساہوکاروں کی جیب اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے مچھلیاں پکڑتی تھیں۔
مولوی غلام نبی خود بھی ریاست کی اس بے توجہی کا شاکی تھا ۔اس کے علاقے میں روزبروز ان نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی جو اپنی بے روزگاری کی پریشانیوں سے آزاد ہونے کے لیے ہیروئن کی پڑیا کو جہاز بناکر اڑتے پھر تے تھے۔ لونگ خان خود بھی کبھی کسی نشئی ٹولی کا حصہ تھا مگر وہ جہاز بن کر اڑنے کے بجائے کشتی کی سواری کرتا تھا ۔ یعنی پُڑی کے بجائے بھری ہوئی سگریٹ پیتا تھا ۔ اسی لیے تو وہ بچ گیا ورنہ اس کے باقی سارے ساتھیوں کے جہاز تو کب کے کریش ہوچکے تھے ۔ مگر آوارہ کتوں کی طرح غول درغول دھول اڑاتے نوجوانوں کا کچھ تو کرنا تھا نا ،جو نشے کی ایک پُڑی پر کسی ہڈی کی طرح جھپٹ پڑتے تھے ۔ اور پھر سردی ، گرمی ، برف ، بارش سب سے بے نیاز ہوکر نشے کی گود میں سورہے ہوتے تھے ۔ جو اپنی دنیا کے ساتھ اپنی آخرت بھی برباد کر رہے تھے ۔
مولوی غلام نبی اس تصفیے کا کوئی خانگی حل تلاش کرنے کے لیے بیٹے کے کمرے میں پہنچا جہاں وہ دستار فضیلت سر سے اتار ے ہوئے اپنے شرعی انداز میں تراشیدہ بالوں اور داڑھی کو کھجلاتے ہوئے اپنے موبائل فون پر کسی سے گفتگو کر رہا تھا ۔ باپ کی آمد پر گفتگو کو پوشیدہ رکھنے کے لیے وہ اٹھ کر باہر چلا گیا ۔ حالاں کہ وہ عربی میں گفتگو کر رہا تھا ۔ شاید گفتگو اتنی رازدارانہ تھی کہ حافظ غلام محمد صرف چند سورتوں اور دعاؤں کے لفظ بہ لفظ ترجمے سے واقف مولوی غلام نبی کے سامنے بھی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ یا پھر وہ زبان کے ساتھ اپنی نگاہیں بھی چھپارہا تھا ۔ جن پر اس بچے کی سی شکایت درج تھی جو باپ سے فرمائش پوری نہ ہونے کی صورت میں کسی اور سے اپنے پسندیدہ کھلونے کی فرمائش کرتا ہے ۔
مولوی غلام نبی کی ناکامی پہ اپنی مسجد کا قبلہ بچانے کے لیے لونگ خان نے اپنے طور پر کوشش شروع کردیں۔ اس سلسلے میں وہ اپنی واحد ٹیکنیکل گواہی لانے کے لیے شہر پہنچا تو پتہ چلا کہ اس کا مستری جو منبر و محراب کی تعمیر کا ایک ماہر مانا جاتا تھا، حالات سے گھبرا کر شہر ہی چھوڑگیا تھا ۔ مگر آدم خان نے اس سے بھی بڑی گواہی تلاش کرلی ۔ وہ واپس لوٹا تو اس کے ہاتھوں میں کمپیوٹر سے کھینچی ہوئی ایک تصویر تھی جس میں ایک سرخ لکیر اس کی مسجد کے منبر سے شروع ہوکر خانہ کعبہ تک سیدھی جارہی تھی ۔ جو اسے شاید کسی نے googleسے بناکر دی تھی ۔مگر حافظ غلام محمد اسے تسلیم کرنے کے بجائے شدید ناراض ہوا ۔ اور اسے یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دے کر لونگ خان کو باز آنے کی دھمکی بھری نصیحت کرنے لگا اور لونگ خان سمجھ گیا کہ موجودہ قبلے کو درست ثابت کرنے کی مزید کوئی کوشش اسے یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ قرار دے سکتی ہے ۔ کفر کے فتوے سے بچنے کے لیے اس نے مزید اصرار ترک کردیا مگر قبلے کی کجروی اس کے لیے ایک ایسا مذاق بن گیا جس کے بیسیوں لطیفے گھر ، گلی ، کوچے ، ہمسائے ، رشتے داروں ، ہوٹل ، دکان اور مسجد تک میں اس کا پیچھا کرنے لگے حتیٰ کہ اس کی بیوی بھی مسجد کے لیے قربان کردینے والے اپنے زیور ات کا دکھ لے کر اسے طعنے دینے لگی ۔ لونگ خان گھر کے کوسنوں اور باہر کے قہقہوں کے بیچ میں سر جھکاکر بیٹھا سوچنے لگا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے ۔ اب اس کے پاس دو صورتیں تھیں ؛ یا تو وہ علاقہ چھوڑ کر بھاگ جائے یا پھر قبلے کی سیدھ حافظ غلام محمد کی رہنمائی میں بنائے ۔ جس کا مطلب تھا ،دوبارہ تعمیر جتنی توڑ پھوڑ۔
اور پھر اُس نے فیصلہ کرلیا ۔ اس بار جب وہ اپنی موٹر سائیکل پر سوار باڈر کی جانب روانہ ہوا تو اُس کی پیٹھ پر کچھ لدا ہوا نہیں تھا بلکہ پیٹ کے ساتھ بندھی ہیروئن کی تھیلیاں تھیں ۔ اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اس ’’زہر‘‘ کا آلہ کار بنے گا، جس نے اُس علاقے کے کئی گھر برباد کردیے تھے ۔ مگر اللہ کے گھر کے لیے اُس نے ایک "Trip”کی اجازت خود سے لے لی تھی ۔ جس سے اتنی کمائی کی امید تھی کہ اپنی جیب سے قبلہ سیدھا کرسکتا تھا۔ بس اسی جوش جذبے ، امید اور لگن نے اُس کے پرخطر Tripکی ساری مشکلیں آسان کردیں۔
لیکن جب وہ اپنی جیب میں پیسے اور آنکھوں میں عزم لیے دھول اڑاتا واپس پہنچا تو وہاں کا منظر ہی کچھ اور تھا۔ اُس کی مسجد مسمار کردی گئی تھی اور برابر میں ہی حافظ غلام محمد کی نگرانی میں ایک عظیم الشان مسجد و مدرسے کی بنیاد رکھی جارہی تھی ۔ لونگ خان کا عزم سوال بن کر حافظ غلام محمد کے مقابل کھڑا ہوا، تو اُسے جواب ملا ۔
’’چرسی موالیوں نے اُس عمارت کو اپنا ٹھکانہ بنالیا تھا ۔ مسجد کے نام کی بے حرمتی ہورہی تھی ۔ اس لیے ہم نے مسمار کردیا‘‘۔ آدم خان نے نئی عمارت کے لیے جیب سے کمائی ہوئی رقم نکالی تو غلام محمد نے حقارت کے ساتھ لوٹا دی ۔
’’میری مسجد کے لیے سارا پیسہ اللہ کے گھر سے آیا ہے۔ اسے تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں ‘‘۔ حافظ غلام محمد نے قبلہ رخ ہوکر تفاخرانہ لہجے میں بولا ۔ اور منہ پھیر کر روانہ ہوا۔
آدم خان اپنی مسجد کا ملبہ دیکھنے لگا، جس میں سے کوئی شخص سریے کے ٹکڑے چن رہا تھا ۔ شاید کوئی ہیروئنچی تھا۔