آدمی سوچتا ہے
وہ مٹی ہو کر بھی مٹی سے افضل ہے
لیکن جب دن اور رات کی حرکت رُک جاتی ہے
اِس کا کھوکھلا دل کوکونٹ کا چھلکا بن جاتا ہے
اور خوابوں کا گودا اَندر ہی گل جاتا ہے
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے

آدمی اپنے اندر کتنا شوریدہ ہے
لیکن ساحل پر لیٹا تو بس معمولی گھونگاہے
جسے سمندر ایک لہر میں ریت بنادیتا ہے
اِس وسعت میں نہ وقت ٹھہرتا ہے نہ بہتا ہے
بس محوِ حیرت رہتا ہے
آندھی تاروں سے کپڑے لے جاتی ہے
اور سیلاب گھروں کو لاشیں دے جاتا ہے
آدمی دیکھتا رہ جاتا ہے

جہاں سمندر تنہا ہو
مچھلی کے چانوں کی طرح چمکتا ہے
اِن چمکیلے چانوں میں اَن جانے چہرے دیکھ کے
آدمی اپنی تنہائی سے ڈر جاتا ہے
آدمی
اپنے ہونے میں مٹی سے افضل ہے
اوراپنے نہ ہونے میں مٹی کی بھی مٹی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے