آٹھ اگست2016 کی کوئٹہ تباہی اور ایک ہی ہاتھ میں رقیب و عاشق تھامی ناکام ہوتی ریاست کا منہ چڑانے کی تفصیلات میں جائے بغیر آئیے اندازہ کریں کہ نقصان کتنا بڑا ہوا۔ اٹھارویں ترمیم والے محکمہ صحت بلوچستان کی مکمل ناکامی کے نشان سول ہسپتال کوئٹہ میں درندگی کے شکار اِن ایک سو نمیران شہیدوں کا تعلق درمیانہ طبقے سے تھا۔ وکیلوں، صحافیوں، ڈاکٹروں ، نرسوں اور عام شہریوں پہ مشتمل شہرِ خموشاں کو روانہ کیے گئے یہ افرادبھرپور جوانی میں پھول اور مسکان تھے، معطر ہوا کا جھونکا ، بادل کا ٹکرااور فطرت کی نعمت تھے۔دانش کا مرگِ انبوہ تھا یہ۔
اِن جوان اجلی صورتوں کو اندھیر کی چتائیں بھسم کرگئیں۔ ایسے پڑھے لکھے لوگ جن کی تعلیم کے لیے اُن کے ماں باپ نے بلوچستان کے اپنے دور دراز علاقوں کو ترک کردیا تھا۔ وطن ، زمینیں، جانور، قبیلہ اور عزیز و اقارب بدر ہوکر ،وہ دارالحکومت کوئٹہ شفٹ ہوئے تھے۔ وہ کچے مکانات میں رہتے رہے، گندی سڑکوں کو پھانکتے رہے، اور پانی بجلی گیس کی غیر موجودگی میں ٹکہ ٹکہ آنہ آنہ جوڑ کر اپنے اِن بچوں کو پڑھایا تھا۔
لمپن کلاس کو چھوتا ہوا یہ لوئر مڈل کلاس جیسے تیسے کرکے اِن سو افراد کو انٹر اور گریجوئیشن تک پہنچاپایا۔ کیمیا گری کے پراسس سے گزرے افراد کے بچے تھے یہ۔ ان شہیدوں میں سے اکثر نے سرکاری نوکریاں تلاش کی تھیں۔ نہ ملیں۔ پھر ٹیوشنیں پڑھا پڑھا کر، پرائیویٹ نوکریاں کرکرکے وکالت کی ڈگری لی اور مقہوروں مجبوروں محبوسوں کی ضمانتیں کروانے والے وکیل بن گئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ سو افراد مصنوعی پیدا کردہ نہ تھے۔یہ اپنی محنت مشقت سے پیدا شدہ ’’ سیلف میڈ‘‘ روشن فکر باپوں کی اولاد تھے۔ بلوچستان کا جینوئن ابھرتا ہوا مڈل کلاس تھے۔
یہ عام بے کار بازاری لوگ نہ تھے۔ یہ لُنڈا لغڑی لمپن لوگ نہ تھے۔ یہ وفا کا لشکر تھے جو اپنے ساتھی کی میت کے ساتھ وفا کرنے آئے تھے ۔ آباؤاجداد کی حسین روایت کے ماننے والے تھے یہ۔ یہ اچھے اخلاقی اقدار کے امین لوگ تھے۔ آٹھ اگست بلوچستان کی اخلاقی اقدار کو مارنے کی کوشش کا دن تھا ۔
بلوچستان کے سیاسی شعور کی بلندی کی بدولت یہ سب کے سب افراد سیاسی ورکر تھے ۔ اُن کے سیاسی خیالات تھے۔ یہ سیاسی پارٹیوں ، انقلابی اکیڈمیوں سماجی اداروں کے ممبر و عہدیدار تھے۔ سب کے سب، جی ہاں، سب کے سب مارشل لا مخالف تھے۔ یہ ڈاکٹروں کی تحریک کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔یہ ٹریڈ یونین کے احتجاج کے ساتھی تھے۔ یہ وکیلوں کی تحریک کے روح رواں تھے۔یہ سیاسی قیدیوں کی ضمانتوں کے لیے دوڑتے بھاگتے تھے۔ یہ تحریر و تقریر کے انسانی حق کے محافظ تھے۔ یہ تنظیم و احتجاج کے حق کے ضامن لشکر تھے۔ یہ ما قبل جاگیرداری نظام کا متضادتھے ۔ اور سب کے سب ، جی ہاں، سب کے سب روشن فکر افراد تھے۔
وہ تعلیم کے حق میں تھے۔ وہ لوگ شہری حقوق و سہولیات سے آشنا اور طرفدار تھے۔ وہ عدل اور جدید عدلیہ کی ملکی اور بین الاقوامی تاریخ سے بلد لوگ تھے۔ یہ لوگ پرائیویٹ جرگوں کے انعقاد اور فیصلوں کے مخالف تھے۔ جدید عدالتی نظام اور اداروں کے قیام و استحکام کے داعی تھے۔ پسماندہ سسٹم کے مخالف یہ لوگ سمجھو چینی چار مئی تحریک کے بلوچستان چیپٹر کے سربراہ لوگ تھے۔ یہ کارواں تھے، میرکارواں تھے۔ وطن و عوام کا درد رکھنے والے ۔ مٹی کے مہر سے وفا کرنے والے۔
چنانچہ حملہ محض افراد پہ نہ تھا،ایک طبقے پر تھا ۔جدید شہری سوچ والے طبقے پر۔ ایسا طبقہ جو عوام سے قریب ترین تعلق میں تھا، جو اُن کے مقدمے کرتا تھا،دلیل دیتا اور سُنتا تھا۔ رائے رکھتا اور بناتا تھا۔ شعور رکھتا اور بڑھاتا تھا۔ عوام کے حق کے فیصلوں پہ مٹھائی بانٹتا تھا اور اُن کے ہار جانے پر مغموم ہوتا تھا ۔
ایک سوچ کے خلاف حملہ تھا یہ ۔یہ ظلمت و بے انصاف ما قبل جاگیرداری بیک ورڈ نظریے کی طرف سے ایک جدید ریاست میں زندگی گزارنے والے روشن فکر نظریے پر حملہ تھا ۔ نہ حملہ آور بے نظریہ اور بے مدد گار تھا، اورنہ شہدا بے جڑ اور بے نظریہ تھے۔ یہاں قاتل ایک سوچ کی نمائندگی رہا تھا اور وطن کی مٹی اوڑھنے والے نمیران شہدا ء بھی ایک سوچ کے مبلغ تھے۔ایک سوچ انسانوں کو اکیسویں صدی کی سہولتیں دینا چاہتی ہے، دوسری سوچ انہیں تاریک ما قبل جاگیرداری عہد کے رسوم اور طرزِِ حیات میں دھکیلے رکھنا چاہتی ہے ۔قدامت پرستوں کا روشن فکر وں کے خلاف حملہ تھا یہ۔ یہ جدید اور قدیم کی جنگ تھی۔ ایک سوچ کی ایک سوچ کے ساتھ عمومی جنگ، جنگِ عام قتلِ عام ۔ یہ جنگ ایک سیاسی جنگ تھی۔
چنانچہ یہ تصور غلط ہے کہ طبقاتی جنگیں ناگزیر طور پرتنظیموں کے درمیان ہی ہوتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ایسا نہیں ہے ۔ طبقاتی جنگیں وسیع طبقات ہی کے درمیان ہوتی ہیں، تنظمیں تو محض فریم و چوکھاٹ مہیا کرتی ہیں، چرواہے کا کام کرتی ہیں ۔طبقاتی جنگیں جنگِ عام ہوتی ہیں۔ایک عملی ہمہ گیر اور ہم پہلو جنگ ہمارے سامنے ہے۔ایک بہت ہی وسیع جنگ ہے۔ ہر کوئی اس کے نشانے پر ہے، ہر جھنڈا، ہر نظریہ، ہر پارٹی اس جنگ کا ایندھن ہے۔
میدانِ جنگ میں شہیدوں کے جسم کے ٹکڑوں لوتھڑوں کے ساتھ کوئی تلوار نہ تھی، پستول بم نہ تھے۔ وہاں ملبے میں تو شہیدوں کے انوکھے ہتھیار پڑے تھے۔ وکیل کا قلم اور انصاف کی اگلی تاریخوں کی جلی تحریروں بھری اُن کی ڈائری۔ اور یہ ایک فیوڈل سماج کے لیے مہلک ترین ہتھیارہوتے ہیں۔ کبھی تو کوئی انسان دوست سرکار آٹھ اگست کو ہر سال یوم سوگ کے بطور مناتے رہنے کا اعلان کرے گی۔ کبھی تو سول ہسپتال کا نام اِن شہیدوں کے نام سے منسوب ہوگا۔ کسی چوک پہ کالی ٹائی، قلم اور ڈائری کی یاد گار بنے گی۔ اور ریاستی طور پر اُس یادگار پہ روشن فکروں کا سربراہِ مملکت پھولوں کا گلدستہ سجائے گا۔
ملک کے بقیہ صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان پہ یہ حملہ بہت مہلک ہے۔ دوسرے صوبوں کا مڈل کلاس سوچ و شعور میں خواہ جتنا بھی کمزور ہو، تعداد اور قوت میں بہت زیادہ ہے۔ مگر،بلوچستان کا مڈل کلاس تو ابھی نو خیز کونپل ہے۔ اس نے ابھی اپنی جڑیں بنانی ہیں۔ توانا ہونا ہے ۔سرقبیلوی پس ماندہ سماج کا پیٹ چیر کر اپنا مقام بنانا ہے۔ چنانچہ صرف ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ’’ درمیانہ طبقہ‘‘ پر حملہ ہوا بلکہ بہت ’’ ناتواں درمیانہ طبقے‘‘ پر حملہ ہوا۔ یہ نقصان اندازوں تخمینوں سے بھی بڑا نقصان ہے۔
پاکستان کا عدالتی نظام پہلے ہی فرسودگی اور انصاف سے انکار کی حد تک طویل اور پیچیدہ ہے۔ بلوچستان تو عدل کے لیے پیاسا ہے۔بلوچستان انصاف اوروکیل کے لیے سخت ضرورت مند ہے۔ اور ایسے میں ستر، اسی متحرک ترین وکیل اچانک منہا کردیے گئے۔ عوام الناس کی تکلیف کس قدر بڑھ جائے گی ہم تصور کرسکتے ہیں۔ مروج عدالتی نظام کے مخالفین کو کس قدر مسرت ہوگی۔ کتنا اطمینان ہوگا متوازی عدالتی نظام چلانے والوں کو!!۔
مگر کیا فیصلہ ہوچکا ؟۔ نہیں۔چھڑی ہوئی جنگ ہنوزشدت و آنت سوز درد کے ساتھ جاری ہے ۔
کل تک یہ جنگ دوسری شکل میں تھی جہاں یہ محض چند افراد، تنظیموں اور ایک آدھ سیاسی پارٹیوں کے بیچ تھی۔ آٹھ اگست کے بعد یہ جنگ نظر آنے اور نظر نہ آنے دونوں صورتوں میں ترقی و تمدن چاہنے والے عو ام الناس اور فیوڈل پسماندہ فکر کے چوکیداروں کی صورت اختیار کرچکی ہے۔
اِن ’’شہید سیکڑہ‘‘ کے لہو سے روشن کردہ سوچراغ اُس راستے پہ رکھے سنگِ میل ہیں جو انسانوں کو لاکالج ،یونیورسٹی ، دلیل اور انصاف کے اداروں کی جانب لے جائیں گے۔
بلاشبہ یہ نہ پہلا حملہ تھا اور نہ یہ آخری وار تھا۔ اب بھی بہت عرصہ تک نرسری سے یونیورسٹی تک، قلم ڈائری، یونیفارم، کھاتے ، علوم، اکیڈمیاں اور آگہی کے سارے ذرائع دہشت کی لپیٹ میں رہیں گے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آٹھ اگست کے باوجود آٹھ مارچ آتا رہے گا۔ خزاں کے بطن سے بہار گاہ جنم لیتی رہے گی۔گواڑخ ولالہ کے شگوفے کھلنا کبھی بند نہ ہوں گے۔
قدامت پسندی نے تعداد اور مقدار میں عوام الناس کو غم بڑا دیا ہے مگربہ یک وقت اس نے عوام کو رومانویت، لا یعنیت،عجلت پسندی ،نرگسیت، نسل و فرقہ پرستی، دائیں بائیں لفاظی، خام خیالی اور یوٹوپیا سے جھنجھوڑ کر نکالنے کا کام بھی کیا ہے۔آٹھ اگست کے شہدا ہاتھوں میں ہاتھ دے کر شاہ عنایت کا جنگی دائرہ بنا چکے ہیں۔۔۔۔۔۔بھئی شہیدوں کا بھی روحانی شجرہِ نسب ہوتا ہے۔ شہیدوں کے طرفداروں وارثوں کا بھی روحانی شجرہِ نسب ہوتا ہے۔ ایسا شجرہ جو رنگ، نسل ، زبان ، عقیدہ اور جنڈر سے بہت بلند ہوتا ہے۔آٹھ اگست نے ہر طرح کی ہوائی اور تخیلاتی اڑان پہ لاشیں ڈال دی ہیں۔
عوام کو پسماندگی کی سوچ سے جتنا اِن لاشوں نے متنفر کردیا ہے وہ ہزاروں آدمیوں کے ہزاروں کتابوں کے ہزار سالہ پڑھنے سے بھی زیادہ ہے۔ شہید ،اپنی ماتم کرنے والی ماں کے منہ میں کچھ با معنی بد دعائیں دے گئے ہیں۔ شہیدوں کی بہنیں بین کرتی جاتی تھیں، بولتی بھی جاتی تھیں۔ اور اس بولنے کے معانی مطلب تھے۔ ہم نے سر پہ مٹی ڈالتی بیواؤں کو دیکھا سنا ۔ مزید آنسو نہ پیدا کر سکنے والی اُن کی آنکھیں قتل کے اسباب تلاش کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اور ہر ایک شہید کے پانچ پانچ بچے بچیاں اگلے پورے ساٹھ برس تک خود پہ یتیمی کالیبل لگانے والی سوچ کے قسم خوردہ دشمن بن گئیں۔
شہید جاگرتا پیدا کرتے ہیں، عزم کو مصمم بناتے ہیں، شہید زندوں کو تنظیم ،ایسوسی ایشن اور سیاسی پارٹی میں منظم کرتے ہیں۔ شہید سوچنے والے روشن فکروں کو شہ دیتے رہیں گے کہ وہ وکیلوں، عورتوں،ڈاکٹروں،صحافیوں، طلباء تنظیموں اور مزدوروں کا بہت وسیع ڈیموکریٹک فرنٹ بنائیں۔ وہ اس بہت بڑے ڈیموکریٹک فرنٹ کے ممبروں کوباہر نکالتے ہیں، اُن سے بلواتے ہیں ،نعرے بنواتے لگواتے ہیں، انہیں سیاہ پوش فکر سے متصادم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ شہید، زندوں کو جینا سکھاتے ہیں۔