ایک فرشتے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ باقی رہ گئی ہے۔
آج میرا شہر بھی میری طرح یتیم ہوگیا۔ عبدالستار ایدھی رْخصت ہوگئے، اپنی فقید المثال زندگی کی یادیں چھوڑ گئے جو انسانیت کے دکھ درد سے اس طرح عبارت تھی کہ اس بے حس اور شقی القلب دور میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
کراچی کے بیش تر شہریوں کی طرح میں نے ان کا نام سْن رکھا تھا اور ان کی تیز160رفتار ایمبولینس سروس سے واقف تھا، مگر اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ یہ ضرور معلوم تھا کہ اگر کبھی ضرورت پڑ جائے تو ایک بار ٹیلی فون کرنے پر دوڑی چلی آتی ہے۔
1985 میں عبدالستار ایدھی سے پہلی بار ملاقات ہوئی، ان کی سادہ زندگی اور کام کرنے کے طریقے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ایدھی سے ملنا جتنا آسان تھا، اتنا ہی مشکل بھی۔ ان سے سرکاری، دفتری معنوں میں اس طرح ’’میٹنگ‘‘ کرنا مشکل تھا جس کے ہم عادی ہوتے جارہے تھے۔ ایک ہی طریقہ تھا کہ صبح صبح میٹھادر ان کے دفتر پہنچ جاؤ۔ جہاں ہر شخص بے جھجک اور بلاتکلّف داخل ہوسکتا تھا۔ وہ اپنے مخصوص سیاہ ملیشیا کے لباس میں، جو ان کی وردی بن گیا تھا، سادگی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ملتے۔ وہاں آنے والے ہر شخص کی طرح وہ مجھے دیکھتے اور پوچھتے، ’’حاجی صاحب، کوئی کھدمت؟‘‘
میں سمجھ گیا تھا کہ وہ میرا نام بھول جاتے ہیں اور ایسے سبھی لوگوں کے ’’حاجی صاحب‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ لیکن جب میں نے ان کو پہلی بار ’’مولانا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، میں ویسا مولانا نہیں ہوں!
تو پھر کیسے مولانا ہیں؟ یہ بھی جلد ہی پتہ چل گیا۔
آغا خان یونیورسٹی میں کمیونٹی ہیلتھ سائنسز پڑھانا شروع کیا تو ہم تین چار نوآموز اساتذہ کو مامور کیا گیا کہ فرسٹ ایئر کے طالب علموں کو فیلڈ وزٹ کے لیے ایسی مخصوص جگہوں پر لے جایا جائے جن میں اورنگی میں اختر حمید خان کا دفتر اور ایدھی سینٹر شامل تھا۔ اس کی تفصیلات طے کرنے کی غرض سے ہم ایدھی صاحب کے پہنچے۔ آنے والا کوئی بھی ہو، ایدھی صاحب حسبِ عادت خندہ پیشانی کے ساتھ خوش آمدید کہتے۔ طالب علموں سے بھی وہ اسی طرح ملے۔ ایک آدھ جملہ اس یونیورسٹی کے ایک مال دار ادارہ ہونے اور اسپتال میں رفاہ عام کی کمی کے بارے میں ضرور کہتے، پھر اپنے کام کے بارے میں بتانے لگتے، اپنی زندگی کی تفصیلات بتانے لگتے، کہ اس وقت تک سب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا کام اور ان کی زندگی دو الگ الگ کیفیت نہیں رکھتی ہیں۔
لوگ کس طرح آتے ہیں، کیا دکھ درد بیان کرتے ہیں، شکایات کا اندراج کیسے ہوتا ہے، عمل درآمد اور کارکردگی کس طرح کروائی جاتی ہے، رکارڈ کیسے رکھا جاتا ہے، دوائیں کیسے ملتی ہیں، کھانا کہاں سے آتا ہے__ تفصیلات کی ایک بھرمار تھی اور ذرا ذرا سی بات سے بھی باخبر، مصائب کے درمیان اور لوگوں کے کبھی نہ ختم ہونے والے ہجوم میں گھرے ہوئے وہ خود پوری استقامت کے ساتھ موجود رہتے۔ لوگوں سے باتیں بھی کرتے جاتے اور یہ بھی دیکھتے رہتے کہ ایک اعلیٰ درس گاہ کے طالب علم، جن کے لیے غْربت اور خلاکت کتابوں میں پڑھے ہوئے الفاظ ہیں، کس طریقے سے ’’سسٹم انالیسس‘‘ کررہے ہیں اور خوبیاں، خامیاں گنوا رہے ہیں۔
ان طالب علموں کووہ سہراب گوٹھ میں لے کر جاتے جہاں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے لیے آرام گاہ یا شیلٹر قسم کی جگہ فراہم کی گئی تھی۔ ان میں سے بیش تر لوگوں کو ان کے رشتہ داروں نے اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے abandon کر دیا تھا۔ یہاں ان کو کھانا کپڑے اور حسبِ ضرورت دوا ملتی تھی۔ میں وہ دن نہیں بھول سکتاجب ایدھی صاحب مجھے اس حصّے میں لے گئے جس کو وہاں کام کرنے والے (باہمّت!) لوگ ’’ننگا وارڈ‘‘ کہا کرتے تھے۔ یہاں وہ مریض رکھے جاتے تھے جو کپڑے پھاڑ دیا کرتے تھے، شرم یا غلاظت کے احساس سے دور جاچکے تھے یا پھر مارپیٹ پرآمادہ ہو جاتے تھے، ذہن اپنے کور ؟؟ سے ہٹ جاتے تو انسانیت کیا بن جاتی ہے__ بیش تر طالب علموں کے لیے یہ کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ کئی طالبعلموں نے مجھ سے کہا کہ وہ رات کو سو نہیں سکے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا کہ ایدھی صاحب ان کے درمیان اطمینان کے ساتھ گھومتے رہتے، ان کے چہرے پر شکن ہوتی اور نہ کسی قسم کی گھبراہٹ۔ بلکہ دیکھنے کے لائق یہ بات ہوتی کہ وہ سارے کے سارے افراد ان سے مانوس ہیں، ان سے کسی نہ کسی طرح بات کررہے ہیں یا اپنے جذبات کا اظہار۔ ایدھی صاحب ان میں سے ہر ایک کی بات اسی طرح سنتے چاہے وہ کتنی ہی معمولی یا بے معنی کیوں نہ ہو۔ ان ذہنی مریضوں کے ساتھ اپنے برتاؤ سے ایدھی صاحب نے مجھ پر واضح کر دیا کہ ان کی انسانیت کس درجے پر پہنچ چکی ہے۔
اس یونیورسٹی کے بعد میں اقوام متحدہ کے ایک ادارے سے وابستہ ہوگیا اور ایدھی صاحب کو بتانے کے لیے ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا،’’حاجی صاحب، کوئی کھدمت؟‘‘
اس بار انہوں نے میرے لیے چائے منگوائی۔ مجھ سے پوچھا، وہاں کیا کام کرتے ہو؟ میں نے بچّوں کے حفاظتی ٹیکے اور پولیو کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ ایدھی صاحب فوراً اس کام کی افادیت کے قائل ہوگئے۔ ایک دن صبح صبح ہمارے دفتر آگئے اور اس کی سربراہ سے ملنے کے لیے تیار ہوگئے جو ایک غیرملکی خاتون تھیں اور ایدھی صاحب کی گفتگو نہیں سمجھ سکتی تھیں۔ ایدھی صاحب نے اس کام کے لیے میں پاکستان کے لوگوں سے بھیک مانگوں گا، آپ بھی میرے ساتھ چلیے۔
اس وقت تو شکریہ ادا کرکے ایدھی صاحب کو روانہ کر دیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد ایک دن دیکھا کہ کلفٹن پْل سے ذراآگے، میریٹ ہوٹل سے پہلے بہت سے لوگ جمع ہیں۔ ہم نے گاڑی روکی تو دیکھا سڑک کے کنارے ایدھی صاحب کھڑے ہیں، آتی جاتی گاڑیوں سے پاکستان کے بچّوں کے لیے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگ رہے ہیں۔ لوگ رْکتے ہیں، ان کو سلام کرتے ہیں اور پیسے دے کر چلے جاتے ہیں۔
ایک مرتبہ ایدھی صاحب نے مجھے یہ بتایا کر حیران کر دیا کہ ان کو سب سے زیادہ چندہ کراچی کے عام افراد کی طرف سے ملتا ہے جو اپنی استطاعت کے مطابق پیسے دے جاتے ہیں اور قطرہ قطرہ دریا بنتا جاتا ہے۔
ہمارے ادارے نے یہ کوشش کی کہ ایمبولینس چلانے والے اہل کاروں کو زچگی کے مراحل میں مبتلا خواتین کو طبی امداد کے طریقے سکھائے جائیں ایدھی صاحب فوراً تیارہوگئے۔ لیکن اس بات پر اڑ گئے کہ ان کو ٹریننگ کا کوئی الاؤنس نہیں ملے گا۔ ’’یہ رضا کار ہیں، آپ ان کو پیسے کی عادت ڈالنا چاہتے ہو؟‘‘ انہوں نے ناراض ہو کر کہا، مگر پھر اس بات پر مان گئے کہ ان لوگوں کو ایک وقت کھانا کھلا دیا جائے۔
ان کا کام اب بہت بڑھ گیا تھا اور وہ سماجی زندگی کے ان شعبوں کو بھی دیکھنے لگے تھے، جہاں سے حکومت نے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ مثال کے طور پر سول اسپتال، کراچی میں داخل ہونے والے مریضوں کے لیے کھانا، سرکاری اہل کار دواؤں کے لیے بجٹ نہ ہونے کی شکایت کرتے، کھانا تو پھر ان کے لیے سامانِ تعیش کی طرح تھا۔ مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا اسپتال ہے اور یہاں تین وقت کھانا ایدھی سینٹر سے آتا ہے۔ اس سینٹر میں کام کرنے والے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ اس کھانے کا اتنا حصّہ فلاں، فلاں بڑے افسروں کے گھر پہلے پہنچانا پڑتا ہے، لیکن ایدھی صاحب نے اجازت دے رکھی ہے تاکہ مریضوں تک کھانا پہنچ جائے۔
ایدھی صاحب خود بھی یہی انتہائی سادہ کھانا کھاتے تھے۔ ان کے دسترخوان میں شریک ہونے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ ایک بار کسی خاص موقع کا سا اہتمام تھا اور وہاں مدعو کیے جانے والے افراد حلیے سے نوبیاہتا لگ رہے تھے۔ بلقیس باجی نے بتایا کہ ان کے سینٹر میں آنے والی بے سہارا لڑکیوں کی شادی ہو جاتی ہے تو ایدھی صاحب ان کو کھانے پر بلاتے ہیں جس طرح عام طور پر شادی کے بعد دولہا دلہن کو لڑکی کے گھر والے بْلاتے ہیں، اس لیے کہ ان کو یہ احساس ہو جائے کہ اب وہ بے سہارا ہیں اور نہ بے گھر۔
ایسی بظاہر معمولی بہت سی باتیں ایدھی صاحب کی انسانیت کی گواہی دیتی تھیں۔ ڈاکٹر شیرشاہ سید اور اسلم خواجہ کے ساتھ کئی بار ان سے ملنے اور اس سادہ زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
ان کے یہ اصول گھر والوں کے لیے بھی اتنے سخت تھے۔ ایک بار ایک میٹنگ میں فیصل ایدھی کو آنا تھا مگر دیر ہوگئی۔ کراچی یونیورسٹی سے پی ایم اے ہاؤس آنا تھا، پہنچنے کے بعد انہوں نے کہا، بس ملنے میں دیر ہوگئی۔ کسی نے تعجّب کا اظہار کیا کہ آپ کے ادارے کی گاڑیاں تو تمام شہر میں گھومتی رہتی ہیں۔ فیصل نے مختصر جواب دیا، اپنے کام کیلئے ایدھی صاحب کی اجازت نہیں ہے۔
ایدھی صاحب انسان تھے، فرشتہ نہیں۔ انسان کی طرح کم زوریوں سے عبارت، وہ برملااعتراف کرتے تھے کہ ایک عورت ان کو دھوکا دے کر ایدھی سینٹر کا پیسہ لے کر غائب ہوگئی۔ ایدھی صاحب نے کوئی تاویل پیش کی، نہ چھپایا، بلکہ بلقیس باجی سے عوام کے سامنے معافی مانگ لی۔ بلقیس باجی بھی تو اسی مٹّی سے گْندھی ہوئی ہیں، انہوں نے معاف کر دیا۔
پھر ایدھی صاحب کی زندگی میں ایک طوفان اور آیا۔ سیاست کے طالع آزماؤں نے اقتدار کی کشمکش نے ان کو شطرنج کا مْہرہ بنانا چاہے۔ ایدھی صاحب کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ کچھ لوگ ان کو برملا بْرا کہنے لگے اور بہت سے لوگ شک شبے کا اظہار دبے دبے الفاظ میں کرنے لگے، مگر ایدھی صاحب کی پیشانی پر بل نہیں آیا۔
کراچی سے باہر سے آنے والے دو ایک مہمانوں کو ان سے ملوانے کے لیے گیا تو ایدھی صاحب اسی طرح مسکراتے ہوئے ملے۔ میرے چچا انور احسن صدیقی نے ان کے بارے میں بچّوں کے لیے ایک کتاب لکھی تو بہت خوش ہوئے اور شکریہ ادا کیا جس سے ہم شرمندہ ہونے لگے۔
دیکھتے ہی دیکھتے ان کی نقاہت بڑھتی جارہی تھی۔ ’’کھدمت‘‘ کے لیے تو وہ برابر پوچھتے رہتے مگر حاجی صاحب کہنا چھوڑ دیا تھا، ڈاکٹر صاحب کہنے لگے تھے۔ اب وہ خود شہر کے ایک اور بے مثال معالج کے مریض بن گئے تھے جس نے عوامی فلاح کو فن کے اعلیٰ درجے پر پہنچا دیا ہے، میری مراد استادِ محترم ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سے ہے۔ دنیا بھر کی خدمت کرنے والے ایدھی صاحب کا علاج ان کے علاوہ اور کون کرسکتا تھا؟
ایدھی صاحب کی طرح ان کے یہ معالج بھی اسی شہر میں دھمکیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں جہاں ان کی خدمات سے فیض اٹھانے والوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں میں پہنچ گئی ہے۔
اپنے مخصوص مزاج کے مطابق ایدھی صاحب نے مرنے کے بعد اپنی آنکھیں عطیہ کر دی تھیں۔ ان کا فیضان ان کی موت کے بعد بھی جارہی رہے گا۔ کاش ان آنکھوں سے وہ حکم راں بھی دیکھ سکتے جن کو بے یارومددگار عوام دکھائی نہیں دیتے۔ حکم رانوں سے اور کچھ تو نہ بن پڑا، ان کے جنازے کو appropiate کرلیا اور اسے ایک ’’ریاستی تماشے‘‘ (State spectade) میں تبدیل کر دیا گیا۔ ٹیلی وژن کے تمام چینلز160سے چیخ چیخ کر اس نماز جنازہ میں شریک ہونے والے وزراء، سرکاری و فوجی افسروں کے نام کا اعلان مسلسل کیے جارہا ہے۔ اسی لیے میں ایدھی صاحب کے جنازے میں شریک ہونے کے بجائے یہاں بیٹھا یہ چند سطریں لکھ کر ان کو یاد کررہا ہوں۔
اس شہر کے بے نام و نشاں مرنے والوں کو ایدھی صاحب کفن دفن دیا کرتے تھے، میں اب ان کے جنازے کو کاندھا کیسے دوں؟
میرے لیے افسوس کرنے کے بہت مقام ہیں۔ ٹیلی وژن نے بتایا کہ ایک مفتی نے ایدھی صاحب کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ میں ان مفتی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس جنازے کو اپنی موجودگی سے پاک رکھا۔ ایک بڑے سیاست دان کا بیان ٹی وی اسکرین پر جگمگا رہا ہے کہ خدا ایدھی صاحب کا سفر آخرت آسان کرے۔ میری دعا ہے کہ خدان ان بڑے سیاست داں کا باقی ماندہ سفر زندگی بھی آسان کردے۔ ایدھی صاحب کو جو کرنا تھا وہ کر گئے۔ مفتی اور سیاست دان، ان کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔