ہمارا کیا ہے
ہماری عادت سی ہوچکی ہے
شفق کی بے خواب وادیوں میں بھٹکتے رہنا
گئی بہاروں کو یاد کرنا
فریب خوردہ سماعتوں کے فسوں میں رہنا
افق میں تحلیل ہوتے رنگوں کو رتجگوں میں تلاش کرنا
تمام اُجڑے ہوئے دیاروں میں خاک ہوتے ہوئے مزاروں پہ جا نکلنا
اور اپنے گزرے ہوئے دِنوں کو حساب کرکے کتاب کرکے ملول ہونا ملول کرنا
ہمارا کیا ہے
ہماری عادت سی ہوچکی ہے
حروف و قرطاس سے الجھنا الجھتے رہنا
خیال کی بے پناہ وسعت میں گرد ہوتی ہوئی مسافت کی چاپ سننا
کہیں کہیں پہ خود اپنے سائے کی صف بنا کر، قیام کرنا کلام کرنا
خلا کی نیلی ردا پہ جو کچھ رقم ہوا ہے اُسے سمجھنا
سمجھ کے دُنیا میں عام کرنا
اور آنے والی تمام نسلوں کے نام کرنا
ہمارا کیا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے