سڑک کے اس پار بہت سی دکانیں تھیں ۔ سبزی اور پھل کی ریڑھیاں بھی دونوں اطراف سجالی گئی تھیں۔ ابھی ساری دکانیں کھلنی شروع ہوئی تھیں ۔ یہاں کے لوگ راتوں کو دیرتک جاگنے اور دن کو دیر سے اُٹھنے کے عادی تھے۔ اس لیے دس گیارہ بجے ہی دکانیں کھلنی شروع ہوجاتیں۔ دکانوں کے شٹر وں کے کھلنے اور لوگوں کے زور زور سے بولنے کی آوازیں اس کو راحت پہنچاتی تھی ۔ کیونکہ صبح سویرے جب سورج نکلا بھی نہیں تھا وہ یہاں آکر بیٹھ گئی تھی۔تب جب لوگ اپنے نرم گرم بستروں سے نکلے بھی نہیں تھے۔ پوری سڑک سنسان تھی۔
وقفے وقفے سے ایک آدھ گاڑی اور موٹر سائیکل گزر جاتی لیکن کسی نے بھی اس کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔
اس کے پیٹ میں شدید درد تھا ۔ لیکن وہ درد کو محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن بھوک درد اپنی مرضی سے جاتا تھوڑا ہے۔
اس کے کانوں میں اس کی دس سالہ بیٹی کی آواز اب بھی آرہی تھی۔
’’ اماں مجھے لگتا ہے ہم سب مر جائیں گے۔ یہ بھوک ہمیں ختم کردے گی ‘‘۔ پھر دوسری آواز اُس کے شوہر تھا ’’ ایسی باتیں مت کرو۔ میں جب تک زندہ ہوں تم کام نہیں کرو گی۔ تم میرے گھر کی رانی ہو۔ اور رانیاں کبھی کام کرتی ہیں بھلا ۔۔۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔۔‘‘ پیار سے اس کے گرد باہیں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔ اور وہ تکیے میں شرما کر چھپ گئی تھی۔اس کو لگا تھا کہ وہ واقعی کوئی رانی ہے اور اس کے کچے گارے کا گھر اس کا محل۔۔۔۔۔۔
چھوٹا سا خاندان دو بچے اور وہ دونوں ۔اس کا شوہر سارا دن کام کرتا۔ رات کو جب گھر لوٹتا تو بچوں کے لیے ٹافیاں اور اس کے لیے جلیبی لانا کبھی نہیں بھولتا۔ اس کو جلیبیاں بہت پسند تھیں ۔ ان کا گھر ایک کچے کمرے پر مشتمل تھا۔ لیکن پیار اور محبت اور اس کے شوہر کی محنت سے وہ خود کو خوش نصیب محسوس کرتی تھی۔
لیکن شومی قسمت۔۔۔۔۔۔!
اس کو خوش رکھنے والا شوہر فیکٹری میں کام کرتے ہوئے آگ لگنے سے مرگیا۔ اس کے مرنے سے نہ ہی فیکٹری کو نقصان ہوا نہ کسی اور کو، کیونکہ فیکٹری انشورڈ تھی۔
لیکن ان کی خوش نصیبی بد نصیبی میں بدل گئی۔ اس کا غم۔ اس کی جدائی کا غم اور اوپر سے بھوک۔۔۔۔۔۔ بھوک ہر چیز پر حاوی ہوتی ہے۔ وہ تین دن ہی کیا گزرے تھے۔ اس کے پاس کچھ نہ رہا کہ وہ بچوں کا پیٹ بھرے۔ تبھی اس کو احساس ہوا اس کے پاس تو بیچنے کو کچھ نہیں ۔ خالی ہاتھ کی رانی۔ نہ کوئی چاندی کا زیور نہ سونے کی انگوٹھی ،نہ روپیہ نہ پیسہ بس دو بچے ۔لیکن اب تو۔۔۔۔۔۔
نہیں مری کل کائنات ہی یہی ہے ۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہونے دونگی۔ اس نے سوچا۔ چادر سر پر ڈالی ۔نکلی بیٹی کو کہا ۔ ’’ُ مُنی میں کھانا لینے جا رہی ہوں منے کاخیال رکھنا۔ دیر ہوجائے تو سوجانا ۔۔۔۔۔۔ڈرنا نہیں تم اکیلی نہیں ہو۔ اوپر اللہ ہے ناں ‘‘۔ بیٹی کو دلاسہ دے کر گھر سے نکلی اور اس کی نظر اوپر اُٹھی جیسے بچوں کو اللہ کے حوالے کرکے جارہی تھی۔ اللہ کے سوا اس کا تھا بھی کون ۔۔۔۔۔۔؟
پہلے دن کئی گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے پر ہر کوئی عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’ ہمارے گھر میں تمہارے لیے کوئی کام نہیں‘‘۔
یہی جواب ہر گھر سے مل رہا تھا ۔ بھلا مجھ میں کیا کمی ہے۔ ایک دن ،دوسرا تیسرا ،دن پھر کئی دن۔ وہ ہمت نہیں ہاری دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے۔ اس دن مغرب کا وقت تھا ایک گھر کے سامنے کھڑے ہوئے اس کو کافی وقت ہوگیا تھا۔ لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھلا ۔ تبھی ایک لمبی سی گاڑی دروازے کے سامنے رکی۔ میاں بیوی اور دو پیارے بچے ۔مرد نے کھانے والی نظروں سے اُس کو دیکھا۔
جیسے وہ عورت نہیں ہڈی ہو اور وہ مرد نہیں کئی دن کا بھوکا رال ٹپکاتا ہوا ۔’’ کتا‘‘ ۔ تبھی اُس عورت نے اپنے شوہر کی نظروں کا ثاقب کیا۔ میلی کچیلی کپڑوں میں مری مری جسم اور چاند سا چہرہ۔’’ تم کون ہو۔۔۔۔۔۔؟
’’ہمارے گھر کے سامنے کیا کررہی ہو؟‘‘ عورت نے غصے سے کہا۔
’’ بی بی جی مجھے کام چاہیے۔ برتن جھاڑو سب کرلیتی ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا اور سر نیچے کیا۔
’’ جانو۔۔۔۔۔۔! ۔۔۔۔۔۔ رکھ لو تم کو کام والی چاہیے تھی ناں ‘‘ مرد نے اس کے جسم پر نظرے گاڑتے ہوئے کہا۔ عورت نے مرد کی نیت بھانپتے ہو ئے کہا۔
’’ میں پاگل ہوں جو اتنی خوبصورت اور خطرناک چہرہ والی عورت کو رکھونگی ‘‘۔
’’ بے چاری بہت مجبور لگتی ہے۔ رکھ لواتنی معصوم ہے بیچاری ‘‘ مرد مسلسل نظریں گاڑے بول رہا تھا۔
’’ڈارلنگ تمھیں تو بہت پیار آرہا ہے بیچاری، مائی فٹ اچھی طرح جانتی ہوں خوبصورت چہرے والی عورتوں کو۔ دیکھو ناں اتنی جلدی تم کو پھانس لیا۔’’ بہت تیز ہو۔ چل نکل اور کبھی شکل مت دکھانا‘‘۔ عورت نے اس کو سخت لفظوں سے کہا۔ آنسو جل تھل جل تھل چہرے پر بارش برسا رہی تھی۔ اور وہ گھر لوٹ آئی خالی ہاتھ ۔۔۔۔۔۔ گھر کے کپڑے کے دروازے سے اندر جاتے ہوئے وہ اپنے بچوں کے متلاشی اور بھوک زدہ چہروں کا سامنا کرنے سے ڈر رہی تھی۔ لیکن اوپر والے کو شاید رحم آیا۔ اس کے بچے سورہے تھے۔ اس نے شکر ادا کیا۔ چار پائی پہ لیٹ گئی۔ جس پر پیار کی کئی یادیں وابستہ تھیں ۔آنسو تھے کہ رُک نہیں رہے تھے۔ آج اس کو پتہ چلا کہ نوکری کیوں نہیں مل رہی۔ کاش میں اتنی خوبصورت نہیں ہوتی یا میرے چہرے پر چیچک کے داغ ہوتے۔ ساری رات اس کو نیند نہیں آئی۔ صبح وہ بچوں کے جاگنے سے پہلے بھاگنا چاہتی تھی لیکن اس کی بیٹی جاگی صبح سویرے ’’ اماں کچھ نہیں ملا‘‘۔
’’ منی میں آج ضرور کچھ نہ کچھ لاؤنگی ‘‘ اس نے یقین سے کہا۔
نکڑ کے نل سے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور دو پٹے کے پہلو سے صاف کیا ۔۔۔۔۔۔ نہ کپڑے بدلے نہ کنگھی کی اس کو اب ان چیزیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس کو دیکھنے والا تو چلا گیا۔ سب کچھ چھوڑ کر۔
مین سڑک بالکل سنسان تھی لمبی پکی سڑک آنکھیں موندھے سورہی تھی اور ساری دکانیں بند۔ وہ ایک درخت کے سامنے جاکر بیٹھ گئی۔ گھروں میں کام نہیں ملا اور اب بھیک مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وہ رات کو نہیں سو پائی تھی۔ بیٹھے بیٹھے سو گئی۔ جب جاگی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں۔
سبزی اور پھل فروش آوازیں دے رہے تھے۔
’’ ٹماٹر60 روپے کلو‘‘، ’’ ٹماٹر، ٹماٹر ساٹھ روپے ‘‘ اس کو توکبھی بھی بید بھاؤ کا پتہ نہیں چلا۔ کھانے کی ساری چیزیں وہ لا کر دیتا تھا۔
’’آلو20 روپے کلو ‘‘ آلو مہنگے نہیں بچوں کو پسند ہیں۔ اس نے سوچا پیسے ملے تو جاکر آلو لونگی ڈھیر سارے آلو۔۔۔۔۔۔
تبھی ایک صاحب اس کے قریب سے گزرا صاحب10 روپے دیں ،بچے بھوکے ہیں‘‘ باقی بھکاریوں کی طرح اس نے کہا ۔’’ ہٹھی کھٹی تو ہو کام نہیں کرتی مفت خوری‘‘ صاحب نے پیسے تو نہیں مشورہ دیا۔
وہ خاموش ہوگئی۔ پھر کافی دیر تک کوئی نہیں آیا تو وہ خود اُٹھی۔ اورلرزتی کمزور جسم کے ساتھ دکانوں کی طرف چلی گئی۔ اور دکانداروں سے وہی جملے کہنے لگی۔ پرچون کی دکان کے ساتھ ہی گوشت کی دکان تھی جس میں بڑے بڑے جانوروں کا پورا جسم صاف کرکے لٹکا ہوا تھا اس کو متلی سی آنے لگی۔
پرچون کی دکان پر ایک موٹا گنجا شخص بیٹھا تھا جس کو سب سیٹھ مخاطب کہہ رہے تھے۔ وہ سیٹھ کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگی۔’’ صاحب بچے بھوکے ہیں‘‘۔
سیٹھ نے گھورتے ہوئے کہا’’ زیادہ چاہیے تو آجانا۔ یہ میرے گھر کا کارڈ ہے ‘‘ وہ اسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگا۔
اس نے مجبوری سے پیسے لیے کارڈ پھینک کر اس پر تھوکا۔ سیٹھ کو بھی غصہ آیا ’’پتہ نہیں کہاں سے آتے ہیں ،چل نکل ‘‘ وہ بھاگتی ہوئی آلو والے کے پاس گئی ۔ پورے دن سو جمع کیے تھے 20 روپے کے آلو لیے اورگھر کی طرف چل پڑی۔ راستے میں ٹافیاں اور جلیبی بھی لی۔
بچوں کو آلو اُبال کر دے۔
پھر تو معمول بن گیا ۔روز کے سو دو سو مل جاتے جو کھانے کے لیے کافی تھے۔ لیکن بازارسے گزرتے ہوئے لوگ اس کے جسم کا طواف ضرور کرلیتے انسان کتنے عجیب ہیں پیٹ بھر جائیں تو جسم کا بھوک۔ ان کی بھوک ختم نہیں ہو پاتی۔ آہستہ آہستہ اسے ان کتوں اور گدھوں کی عادت ہوگئی جو گوشت کی دکان کے باہر لٹکائے ہوئے گوشت کو گھورتے ہیں۔
اس دن وہ جب گھر آئی تو اس کا بیٹا بخار سے تپ رہا تھا۔ اس کے پاس سو روپے تھے۔نکڑ کے ڈاکٹر کو دکھایا۔ سو روپے ڈاکٹر کی قیمت۔ اس نے دوائیاں لکھ ڈالیں۔ مہنگی مہنگی۔ بنا دوائی لیے منے کو گود میں اٹھا کر گھر آئی۔ ’’ اماں کیا کہا ڈاکٹر نے؟ ‘‘ منی نے پوچھا۔ ’’ کچھ نہیں دوائی لکھ دی۔ کل لے کر آؤنگی‘‘ اس نے اطمینان سے کہا اور منے کو چار پائی پر رکھا جو ان کی پیار کی یادوں کا مرکز تھا۔
دوسرے دن پھر وہ بازار گئی تو ہڑتال تھی۔
ایک بھکاری نے بتایا کہ کسی نے ایک لیڈر کو گولی ماری تین دن تک ہڑتال ہوگی۔
و ہ مایوس ہوکر لوٹی تو بیٹا بخار سے تپ رہا تھا۔ بخار کو تین دن ہوگئے تھے۔
وہ ایک سٹور کے سامنے رکی وہ اندر گئی ’’ بھائی یہ دوائی کتنے کی ہوگی‘‘ اس ے دوائی کی پرچی لڑکے کو تھمائی۔
’’پانچ سو روپے ‘‘سٹور میں بیٹھے لڑکے نے کہا۔
’’ پانچ سو روپے‘‘ اس کی ہمت نے جواب دیا پانچ سو۔ اف کہاں سے لاؤں‘‘۔ اس نے سوچا صرف80 روپے تھے اس کے پاس ’’ بھائی آج دیں، میرا بچہ بخار سے تپ رہا تھا ۔ دو تین دن میں آپ کے پیسے واپس کرونگی‘‘۔
’’چل چل یہاں ادھار نہیں چلتا‘‘۔
’’ بھائی اللہ کے لیے رحم کر میرا بچہ مر جائے گا ‘‘
اس نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے ۔
’’ ہم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے ‘‘ اس نے اُسے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
’’ کیا ہوا شور کیوں مچا رہے ہو‘‘ اندر سے آواز آئی‘‘۔ صاحب ایک بھکارن ہے دوائی مانگ رہی ہے۔ ان لوگوں کو تو عادت ہوگئی ہے‘‘۔ لڑکے نے ہنستے ہوئے کہا۔ تبھی مالک باہر آیا اس نے اس عورت کو سر سے پاؤں تک بھوکے کتے کی طرح دیکھا ۔ وہ چادر کے اندر خود کو سمیٹ رہی تھی۔
’’ تم تو بہت خوبصورت ہو۔ تمہارے جسم کے میں ہزار دے سکتا ہوں‘‘۔
’’ صاحب! میں عزت دار عورت ہوں‘‘۔ اس نے غصے سے کہا۔
’’ عزت دار ہو تو گھر میں رہو۔ بھیک مانگتی کیوں پھر رہی ہو؟‘‘۔ اس نے نرمی سے پوچھا۔
’’صاحب میرا بیٹا بیمار ہے ۔ میرے پاس پیسے نہیں‘‘۔ اس نے بیچارگی سے کہا۔
تمہاری عزت تمہاری ممتا سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہاں کچھ لینا ہے تو کچھ دینا پڑے گا ۔ پیسہ نہیں تو ۔۔۔۔۔۔ کچھ اور۔ بہت کچھ ہے تمہارے پاس ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ رک جاؤ عورت ۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ پیچھے کے کمرے میں جا اور یہ ہزار کا نوٹ لے‘‘ اس نے ہزار کا نوٹ دکھاتے ہوئے کہا۔
ہزارکا نوٹ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اس کی عزت اس کے ممتا سے بڑھ کر نہیں۔
اور اس کی روح تو پاک ہے جسم کا کیا اس کو تو ویسے اپنے خوبصورت جسم اور چہرے سے نفرت ہے، اس نے سوچا ۔
اور پیچھے والے کمرے میں چلی گئی۔
وہ بوڑھا شخص ایک مردار گدھ کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا اور وہ مردہ جانوروں کی طرح پڑی رہی۔ اس کے آنسو نکل رہے تھے۔
اور اُس کے شوہر کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔’’ تو میری رانی ہو تم کام کروگی ۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘۔
It’s very nice