میرے چہرے پہ زندگی نے اتنے تھپڑ مارے ہیں کہ اگر میں سالہا سال آئینے میں اپنا عکس کھوجتی رہوں تب بھی اپنی اصل شکل دیکھ نہیں سکتی ۔ وہ شکل جو میں نے شیرخوارگی میں خد و خال میں مختلف تبدیلیوں کے بعد آخر کار اپنائی تھی ۔ اب اس شکل پہ بھی صدیوں کی مسافت کے اثرات نظر آتے ہیں ۔ وہ سب لہجے جو میری سماعتوں میں زہر بن کر گھلتے رہے میرے چہرے پہ اپنی نشانی چھوڑ گئے ہیں ۔ میرے بدن کی نیلاہٹ گم گشتہ غازے کی کہانی سناتے ہوئے بھی ڈرتی ہے۔ ایک عمر تھی جب میں دنیا و مافہیا سے بیگانی تھی ۔ میرے سنہرے بال کندھوں پر جھولتے اور میں اٹکھیلیاں کرتی پھرتی ۔میرے پاؤں کو زمین پر جمنے کا کبھی سلیقہ ہی نہیں آیا تھا ۔ ایک عجیب سی اتھل پتھل تھی جو میرے وجود میں برپا رہتی ۔ میں خوشیاں ڈھونڈتی اور خوشیاں ہی تلاش کرتی ۔
اب تو ماضی کی راکھ میں اگر غلطی سے ہاتھ پڑ جائے ہاتھ جل جاتے ہیں کہیں نہ کہیں سے یادوں بھڑکتا ہوا کوئلہ میری انگلیوں کو جھلسا دیتا ہے اور میرے ہاتھ ماضی کی طرف جانے والی ہر شاہراہ کو دیکھتے ہی مٹھی بن جاتے ہیں ۔والدین کا سایہ اٹھنے کے بعد ہر شے عذاب ہی ہوئی.یادوں کی تپش انگلیوں کو جھلسانے کے لئے بے قرار رہتی ہے. میری شوخی اور شگفتگی بابا کی آنکھوں کا چین تھی اور ماما کی نبض کا سکون ۔ مجھے معلوم ہوتا کہ میرے والدین مجھ سے اتنا لاڈ پیار اس لئے کرتے ہیں کہ اتنی جلدی مجھے چھوڑ جائیں گے تو مجھے ان کی محبت کو اپنی زندگی کے آخری دن تک تقسیم کرلیتی چاہے مجھے تھوڑا پیار ملتا ، بیشک وہ مجھے ہتھیلی کا چھالا نہ بنا کر رکھتے ، کبھی جھڑک دیتے ، کبھی ٹوک دیتے لیکن کم از کم وہ میرے ساتھ تو رہتے ان کا سایہ میری حیات کے لیے کتنا ضروری تھا یہ مجھے تب پتہ چلا جب ان کا سایہ بھی نہ رہا ۔
ان کی موجودگی میں لوگ مجھے یوں لیتے جیسے میں چھوٹی سی گڑیا ہوں. ان کے بعد بھی لوگوں نے ہاتھوں میں لینا چاہا لیکن ان کے ہاتھوں کی ہر جنبش کے معنی و مطالب ہی بدل گئے ۔ میرے اندر محرومیاں بال کھول کر بین کرتی ہیں لیکن میں اپنی ناتمام آرزوؤں کے پیش نظر خود کو گڑیا بنا کر اپنے کردار کو موم نہیں کرنا چاہتی تھی میرا کردار وہی تھا جو میرے ماں باپ کی محنت کی کمائی سے تخلیق ہوا ۔ میں نے اپنی حسرتوں کی ساری کھڑکیاں اپنی ذات کے اندر کھول دی ۔ جو گرم ہوائیں چلتی وہ میری ذات کے کواڑ توڑ دیتیں لیکن باہر سے میں برف کا مجسمہ معلوم ہوتی بیجان ، سخت اور سرد زمانے کے سارے کچوکے میرے اوپر لگتے چلے گئے ۔ میرے اندر سے لے کر باہر تک دراڑیں ہی دراڑیں پڑ گئیں لیکن میں خود کو سنبھالے خاموش رہی۔
تعلیم اور نوکری میری مجبوری بن گئی ۔ میں نے اس مجبوری کو زیور کی طرح اپنی آرائش کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ لوگ اب ٹھٹھک کر مجھے دیکھتے لیکن ان آنکھوں اور ہاتھوں کی جنبش سے ابھی تک کھیلنے کی خواہش نہیں گئی تھی۔ میں نے خود پر اتنے خول چڑھا لیئے کے میں خود بھی نہیں جان سکی کہ تنہائی سے فرار کی خواہش کب اندر ہی اندر دستک دے کر میری ذات کے دروازے کو کھوکھلا کرتی رہی ۔ میں بس خود مختاری کا جھنڈا لئے اپنے اندر کی لڑکی کو چھپاتی پھرتی رہی ۔ لوگ مجھے جاننے کی خواہش میں میرے قریب آتے لیکن ان کی تجسس سے کھولتی ہوئی منہ زور موجیں میرے ساحل پہ آکر سر ٹپکتی یونہی نا کام لوٹ جاتی ۔ میں چاہتی تھی کہ اگر کوئی میری زندگی میں آنا چاہے اس تھکے ہوئے مسافر کی طرح آئے جو اپنا ساز و سامان برگد کے پیڑ تلے رکھ کر ٹھنڈی چھاؤں میں پاؤں پھیلا کرسو جاتا ہے لیکن جو کوئی بھی میری زندگی میں آیا اس کے ہاتھوں کی لرزش اور ناخنوں کی دھار میرے اندر تک سے مٹی کرید لینے کو بیتاب نظر آئی ۔ حالانکہ کوئی بھی زرا سا صبر کرتا تو میں خود اپنے سارے پتے اس کے سامنے پھینک دیتی ۔ اس کو اپنی محرومیوں کا پتہ بتا کر اپنی محبتوں کی ہوا دیتی ۔ پھر یوں ہوا کہ محدود زندگی میں محدود سے لوگ اپنے بار بار پٹخے ہوئے سر کو لے کر انسانوں کے ہجوم میں گم ہونے لگے ۔ میں انسانوں کو ڈھونڈتی تو سر ملتے جن پر میری سرد مہری ایک مہر کی طرح ثبت تھی اور وہ مجھے بتانا چاہتے تھے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے.اگر سروں کو ڈھونڈنے نکلتی تو مجھے وہ انسان ملتے جو یا تو بہت خداترس تھے یا بہت منافق ۔ میرا دونوں صورتوں میں گزارا نہیں تھا ۔ مجھے میانہ روی چاہئے تھی جو مل ہی نہی رہی تھی ۔ میں دوپٹہ گلے میں ڈالتی تو لوگ مجھ سے سر ڈھکنے کی امید کرتے اور اگر سر ڈھک لیتی تو ان آنکھوں میں مجھے برقع میں دیکھنے کی خواہش جاگ اٹھتی ۔ کبھی سب کو خوش کرنے کے چکر میں رہتی اور کبھی سب کو خفا کرنے کے پیچھے پڑ جاتی ۔ اس سب میں ” میں ” نہیں رہی تھی کیونکہ سب تو صرف سب تھے ان میں کوئی بھی اپنا نہیں تھا ۔
عمر رواں نے اپنی رفتار تیز کر لی کہ اچانک ہی مجھے غازے کی ضرورت پڑنے لگی اب میری سرد مہری کرختگی میں بدل رہی تھی مجھے اس بات کا احساس ہونے لگا ۔ لیکن ٹھہرئیے ! مجھے بتانا چاہئے کہ ایسا کب سے ہوا ؟ اس کا نام زغفران تھا ۔ موٹی موٹی آنکھوں والا ، ہلکی سی رنگت والا عجیب سا شخص ۔ اس کے آنے کی دیر تھی کہ میرا سارا سکون آخری سسکیاں بھرنے لگ گیا ۔ مجھے اس کے آنے سے معلوم ہوا کہ مجھے غازے کی ضرورت ہے ۔ وہ مجھ پر ہنستا میں بے اعتنائی برتتی تو ایسے منہ چڑاتا جیسے میں نے اس کا قرض دینا ہے ۔ آہستہ آہستہ وہ کمبل ہو رہا تھا ۔ میرے بالوں کی لٹ کھینچ لیتا میں اس کے ہاتھوں کو دیکھتی لیکن ان میں کوئی لرزش نہیں تھی لیکن موٹی موٹی آنکھوں میں اتنی شرارت تھی کہ مجھے ماں باپ کی موجودگی کا اپنا بچپن یاد آجاتا ۔ وہ مجھے سادہ دیکھتا تو بوڑھی روح کہہ کر پکارتا ۔ غازے کو دیکھ لیتا تو بوڑھی گھوڑی کہتا ۔ پتہ نہیں وہ مجھ سے کیا چاہتا تھا ۔ کتنی دفعہ میں چائے یونہی کپ میں چھوڑ کر اس سے روٹھ جاتی ۔ مجھے لگتا وہ میرے پیچھے آئے گا اور میرا ہاتھ تھام لے گا ۔ مجھے منائے گا اور مجھے جانے نہیں دے گا ۔ لیکن وہ ایسا نہیں تھا ۔ وہ بالکل بھی ایسا نہیں تھا جس سے کوئی توقع کی جا سکے عرصے بعد میں نے پھر سے کرکٹ دیکھنا شروع کیا اور مجھے اس کے تقابل کے لئے کوئی چیز ملی ۔ وہ کرکٹ ٹیم جیسا تھا پاکستانی کرکٹ ٹیم ۔ جو ہمیشہ توقع کے خلاف ہی کھیلتی ہے ۔ پھر یوں ہوا وہ گھر بھی آنے لگا میں دروازہ نہ کھولتی تو گھنٹی پر ہاتھ رکھ کر بھول جاتا میں لوگوں سے خوفزدہ تھی دروازہ کھولتی تو دل کے دروازے پر بھی دستک ہونے لگتی ۔دروازہ نہ کھولتی تو گھنٹی سے نکلنے والی موسیقی لوگوں کے گمان کو ہوا دیتی ۔ خود پر قابو رکھنے کا غرور جیت گیا میں دروازہ کھولنے لگی ۔ وہ پہلے خالی ہاتھ آتا تھا پھر گلاب لانے لگا ۔لیکن میری طرف سے چپ ہی تھی …میں شاید بولنا بھول گئی تھی.سالوں سے لگے قفل کو ٹوٹنے میں چند سال تو لگنے ہی چائیے ۔
دفتر میں بالوں کی لٹ کھینچ لیتا لیکن گھر یوں سمٹ کر بیٹھتا جیسے مسجد کے تقدس کی پامالی کا خدشہ ہو اور وہ دنیا کا آخری مسلمان ہو ۔
ایک دن دفتر سے واپسی پر میرے راستے میں آکر کھڑا ہو گیا
” واپس کیسے جاؤگی ؟ ”
” جیسے ہمیشہ جاتی ہوں ”
میں نے مسکرا کر جواب دیا ۔ میرے جسم میں لگی بندھی روٹین نے تنگی بھر رکھی تھی اور میری مسکراہٹ پہ میرا اختیار نہیں تھا ورنہ میں کبھی اسے مسکرا کر نہیں دیکھتی ۔ اس مجھے جواباً کہا
” جو طرز زندگی اپنایا ہوا ہے اس میں ہمیشہ کی طرح اکیلے جانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ”
میں خاموش رہی۔ مجھے لگا شاید وہ مجھے گھر تک چھوڑ دے گا یا ایک کپ کافی کی آفر کرے گا وہ ویسا ہی رہا عجیب و غریب کبھی کبھی مجھے لگتا کہ وہ میرے قریب آ کر مجھ سے دور اس لئے جا رہا ہے کہ میں اس کے دامن سے لپٹ جاؤں لیکن اس کا رویہ اس کی شرٹ جیسا تھا جس پر پتلون یوں کسی ہوتی کہ اور کسی چیز کی گنجائش ہی نہ رہتی.اس کے رویے کی وجہ سے میرا اس کے دامن سے لپٹنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ میرا دل کرتا کہ میں ٹھنڈی آہیں بھروں اور اپنا دل اس کے سامنے کھول کر رکھ دوں کہ وہ بارشوں کے موسم میں سردیوں کی دھوپ کی طرح ضروری ہے لیکن میری انا مجھے اجازت ہی نہیں دیتی تھی میں اس کے سامنے بند باندھ کر رکھتی ۔ وہ اپنے رویوں کی مختلف کشتیاں میرے ساحل پہ کھڑی کرتا ۔ میری نظریں ان کشتیوں کا پیندا چوم لیتیں لیکن انہیں اپنے جذبات کی ہجانی سے تباہ نہ کرتی جو بھی تھا میرا ماننا تھا کہ مجھے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہییں۔ وہ تین لفظ جو رشتوں کو نئے پیراہن عطا کرتے ہیں انہیں زغفران کے منہ سے نکلنا چاہئے ۔
اگر میں کہہ دیتی تو رشتہ مل جاتا لیکن پرانے زمانے کی لڑکی جو آج کی لڑکیوں میں خال خال نظر آتی ہے ساری زندگی میرے سامنے روتی رہتی ۔ وہ آتا میں لفظ سمیٹ لیتی لب سی لیتی اور سماعتیں انتظار کرنے لگ جاتی ۔ وہ مجھ سے باقاعدہ طور پر پنگے لیا کرتا شاید وہ چاہتا تھا کہ میں کھل کر لڑوں ۔ کھل کر بات کروں لیکن میرا آئینہ مجھے کچھ کہنے نہ دیتا ۔ میری دراز زلفوں کا سایہ بھی اس نے نہیں دیکھا تھا اسے آج تک میرے چہرے کے مشینی سے تاثرات نظر آئے تھے صرف ایک لٹ جو سامنے ہوتی اسے کھینچ کر اس نے ایک دفعہ یہ بھی کہا کہ سکارف کے ساتھ نقلی تو نہیں باندھ لاتی۔
یہ کئی مہینوں بعد کی بات ہے اس نے مجھے کہا کہ وہ آج شام میرے گھر اپنی بہن کے ساتھ آئے گا ۔ اس نے کوئی ہدایت نہ دی میں نے بھی امید نہ باندھی ۔ میں اسے آنے سے منع بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ کیونکہ اس نے مجھ سے پوچھا ہی نہیں تھا ۔ سیدھا سیدھا بتایا تھا ۔ میں نے سوچا آج بال کھول ہی لوں ۔ سفید نیٹ کے فراک اور چوڑی دار پاجامے پر میرے سنہری بالوں کی آبشاریں اس کے جذبات کو زبان دینے کے لیے محرک ثابت ہو ہی سکتی تھی ۔
بال پشت پر کھلے چھوڑ دیئے اور سامنے دو تین چھوٹی چھوٹی لٹیں جھولنے کو چھوڑ دی ۔ وہ لٹ بھی جس کو وہ کھینچ لیا کرتا تھا لیکن ان سے میرے بالوں کی لمبائی کا اندازہ لگانا ناممکن تھا ۔ جونہی بیل بجی میں نے سنہری سکارف میں سارے بال جوڑے کی شکل میں چھپا لیئے ۔ اپنی ذات کی نمائش کرنا مجھے بالکل بھی نہیں پسند تھا ۔میرے اندر کی دقیانوسی لڑکی بیل کے بجتے ہی جاگ گئی .
وہ اور اس کی بہن آئے ۔ جاتے وقت وہ پہلے باہر نکل گیا اور بہن جاتے جاتے حکم صادر کر گئی کل سے آپ دفتر نہیں جائیے گا۔ زغفران بھائی نے کہا ہے کہ جمعہ کو آپ دونوں کا نکاح ہوگا اور ولیمہ بھی ۔ میں حیران کھڑی رہ گئی ۔ اگر اسے مجھ سے محبت ہے تو مجھ سے کہا کیوں نہیں اور اگر شادی کا فیصلہ کرنا تھا تو میری رائے تو لیتا ۔ میں جو بس کنڈیکٹر سے پانچ روپے بقایا لیتے وقت لڑ پڑتی تھی اور خود مختار ہونے کو بادشاہت سے کم نہیں سمجھتی تھی ۔ خاموش رہی بالکل خاموش ۔ انسان اس وقت خاموش ہو جاتا ہے کہ جب کام اس کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہو ۔ اگر اس کے مزاج کے خلاف کام ہو جائے تو وہ آسماں سر پر اٹھا لیتا ہے ۔ یہ غلط ماننا ہے کہ کوئی صبر کر لیتا ہے صبر کوئی نہیں کرتا اور تحمل کا مظاہرہ بھی کوئی نہیں کرتا ۔ بات صرف مزاج کی ہے۔ جہاں تک مزاج اور طبیعت اجازت دے ہم اچھے ہیں ۔مجھے بھی اس وقت محبت نے خاموش اور اچھا بنا دیا.
جمعہ کو نکاح ہوا اور میں اسی سفید سوٹ میں اس کے گھر آگئی ۔ بستر پر بیٹھتے میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
سامنے آئینہ دیکھا تو میرا چہرہ زندگی کی دھوپ سے جھلسا ہوا نظر آیا ۔ کیا یہ کمرہ ہمدردی میں تو نہیں ملا مجھے ؟ اس ڈر سے مجھے ٹھنڈے پسینے آنے لگ گئے ۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو مجھ میں آنکھ اٹھانے کی بھی طاقت نہیں تھی ۔
” اگر میں آپ کو اپنی زندگی میں شامل نہ کرتا تو محترمہ آپ تو کبھی بھی مجھے اپنے جذبات سے آگاہ نہ کرتیں ”
وہ پھر پنگا لے رہا تھا ۔ میں خاموش رہی ۔ ” ایک دفتر میں کام کرنے والی لڑکی میرا مطلب عورت اتنی خاموش رہے تو حیرت ہوتی ہے ”
اس نے ہاتھ بڑھا کر میرے پیچھے سے تکیہ نکالا اور نیم دراز ہوگیا ۔ میں چپ رہی ۔ اور دھڑکنوں کے تلاطم کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتی رہی ۔
” سفید کپڑے ایسے پہن لیتی ہو جیسے بہت ڈیسنٹ خاتون لگ رہی ہو ۔ اچھی خاصی بدروح لگتی ہو۔ دنیا کی پہلی مسلمان دلہن ہوگی جو سفید جوڑے میں رخصت ہوئی ۔ دفتر میں تو کبھی کسی کام کے لئے اتنی آسانی سے راضی نہیں ہوئی تھی جتنی جلدی اس نکاح کے لئے تیار ہوگئی ۔”
وہ بول رہا تھا اور میرے صبر کی چٹان میں دراڑیں پڑ رہی تھی ۔ میں اضطراب میں انگلیاں چٹخنے لگی ۔
” تم سوچتی نہیں ہو کہ میں نے تم سے شادی کیوں کی ؟ شادی کے بارے میں تو ہمیشہ مسز واسطی کو آئیڈیلائز کرتی تھی کہ جیسے وہ اپنے میاں کی جی حضوری کرتی ہیں اور جیسے ان کی میاں ان کو آپ جناب کہہ کر پکارتے ہیں تم بھی اس قسم کے کسی مدبر شخص سے شادی کروگی لیکن میرے جیسے شوخ نوجوان سے کیسے شادی کرنے پر راضی ہوگئی ۔ جو طنز کے علاوہ تمہارے ساتھ لفظ آپ استعمال بھی نہیں کرتا ۔ لیکن میں بھی یہ سوال کس سے پوچھ رہا ہوں جس کے جھاڑ جھنکار جیسے چھوٹے چھوٹے بالوں اور موٹے موٹے عدسے والی عینک کے پیچھے چھپی چینی آنکھوں کو کسی اور نے قبول ہی نہیں کرنا تھا ۔ ”
میں اٹھی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا پرس نیم دراز زغفران کو دے مارا پشت اس کی طرف کر کے بستر سے اتر کر کھڑی ہو گئی. اسکارف اتارا پھر ایک پن ہٹانے کی دیر تھی سارے بال کھل گئے. عینک کو مسہری پر رکھا اور شہزادہ گلفام پر جھپٹ ہی پڑی ۔
” میں بوڑھی ہوں تو آپ کہاں کے نوجوان ہیں میری عمر تیس تو اپ کی پینتس برس ہے ۔ یہ میرے بالوں کی لمبائی دیکھے اور اپنے اڑتے ہوئے بالوں پہ ہاتھ پھیریں آپ کیا چاہتے ہیں کہ میں رونے دھونے لگ جاؤں ۔ آپ نے شادی کر کے مجھ پہ احسان کیا ہے یا نہیں لیکن آپ سے شادی کر کے میں نے آپ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ ساری زندگی تم اور تم کرتے گزر گئی اب شاید آپ جناب کرنا آہی جائے ۔اور کچھ نہیں تو تمیز سکھا ہی دوں گی. میری آنکھیں چینیوں جیسی ہیں تو مڑی ہوئی پلکیں دیکھتے وقت آپ اندھے کیوں ہو جاتے ہیں ۔ باتیں کرنا آتی ہیں لیکن ایک اظہار محبت کرنا نہیں آیا ۔ ”
زغفران پر نظر پڑی تو ان کی آنکھوں میں وہی شرارت رقصاں تھی .وہ کامیاب ہوئے تھے.مجھے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تو ایک لمحے کے لئے خاموش ہوگئی ۔وہ مسکرا رہے تھے اور میرے باہر کی خودمختار عورت میرے اندر کی عورت کے باہر آجانے پر حیران تھی ۔ زندگی کے سارے تھپڑ محبت کی کرشمہ سازی نے بھلا دیئے تھے ۔