مختصر یہ کہ غلام کی محنت سماج کی زندگی کی بنیاد بن گئی اور سماج دو مخالف طبقو ں یعنی غلامو ں اور آقا ؤ ں میں بٹ گیا ۔غلام داری سماج میں ایک طر ف آزاد تھے اور دوسری طر ف غلام ۔آزاد لو گو ں کو ہر قسم کے سیاسی و سماجی حقو ق حاصل تھے البتہ عو رتیں ان حقو ق سے محروم تھیں جنکی سماجی حیثیت غلاموں جیسی تھی ۔غلام ہر قسم کے حقوق سے محروم تھے ۔اور کبھی ان آزاد انسانو ں کی صفو ں میں شامل نہیں ہو سکتے تھے ۔آزاد لو گ بھی دو حصو ں میں منقسم تھے ۔سینکڑو ں غلاموں کے آقا اور وسیع قطعات اراضی کے مالکو ں کا ایک گر وہ تھا۔ دوسراگر وہ دستکاروں اور خو د کاشت کرنے والے آزاد لوگو ں کا تھا ۔دوسرے گروہ میں جو صاحبِ حیثیت تھے وہ بھی غلامو ں کے آقاتھے ۔ اور ان کی محنت سے فا ئدہ حاصل کر تے تھے ۔پر وہت اور مذہبی آقاؤں کے وبستگان تھے ۔
غلامو ں اور آقاوں کے طبقاتی تضاد کے علاوہ دوسرا طبقاتی تضاد بڑے مالکو ں اور خود کاشت کرنے والوں کے مابین تھا ۔لیکن چو نکہ غلامو ں کی محنت بہت سستی تھی اس لئے پیداوار کے تمام شعبو ں میں اسی کو استعمال کیا جانے لگا اور سما ج کا بنیاد ی تضاد آقاو ں اور غلامو ں کا تضاد بن گیا ۔
سماج کی طبقاتی تقسیم نے ریاست کی ضرورت پیداکر دی۔ محنت کی تقسیم اور تجارت کے فر وغ کو ایک دوسرے کے ساتھ باند ھ دیا اور قبیلائی نظام کا پہلاکردار ختم ہو گیا ۔قبائلی نظام کے سماجی ادارے غلامو ں پر غلبہ رکھنے کے ادارے بن گئے اور غلامو ں کو لو ٹنے اور دبانے کے علاوہ پڑوسی قبیلوں کو لو ٹنے اور دبانے کا کام کرنے لگ گئے ۔قبیلو ں کے سردار اوقاتِ جنگ کے قائد اب بادشاہو ں اور راجا ؤ ں کے چو لو ں میں نمودار ہو ئے ۔پہلے قبیلو ں کے لو گ انہیں خو د بطو ر سردار چنتے تھے ۔ ان قبیلے کے افراد سے نہ تو حیثیت الگ ہو تی تھی اور نہ ہی حقوق الگ ہو تے تھے۔ مگر اب وہ آقاؤ ں اور بڑے مالکو ں کے مفادات کی حفاظت کا کام سر انجام دینے لگے اور اس مقصد کے لیے مسلح جھتے رکھنے لگے ۔درباری کا آغاز ہوا اور ان کی حکم عدولی کرنے والو ں کے لیے تعزیر یں مقررکی گئیں ۔اور اس طر ح ریاستی اقتدارسماج میں پیداہوا ۔
لینن نے اپنے ایک مضمون ’’ریاست ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’جب سماج میں طبقات پیداہو گئے ۔جب غلامی کا رواج ہو ا‘اور جب انسانی محنت زائد پیداوار کرنے کے قابل ہو ئی جو اس پیداوار کو پیداکرنے والے غلام کی کم سے کم ضرورت سے زیادہ بنتی تھی تب اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے ریاست کا وجو د نا گزیر ہو گیا‘‘ ۔ ریاست کا وجو د اس لئے ضروری ہو گیا کہ لو ٹی جانے والی اکثریت کو اقلیت کے مفاد کے لیے قابو میں رکھا جائے ۔ریاست نے غلام داری سماج کے پیداواری رشتو ں میں استحکام پید اکرنے میں اہم رول اداکیا اور غلامو ں کو محکو می میں رکھا۔ اس طر ح ریاست عوام کو دبانے اور ان پر غلبہ رکھنے کی ایک مضبو ط مشین بن گئی ۔یو نان اور رومہ کی شہری جمہوری ریاستیں جن کی بور ژوا مو رخ تعریفیں کرتے ہیں ان میں غلامو ں کو مطلق کسی قسم کے حقوق حاصل نہ تھے ۔
غلام داری سماج کے پیداواری رشتے
غلام داری سماج کے پیداواری رشتو ں کی بنیاد یہ تھی کہ نہ صرف ذرائع پیداوار بلکہ غلام بھی آقاؤ ں کی ملکیت تھے ۔غلام کی حیثیت آلاتِ پیداوار سے مختلف نہ تھی ۔آقاؤ ں کو غلامو ں پر مکمل اختیار ات حاصل تھے ۔اس سماج میں غلامو ں کی محنت کا استحصال ہی نہ ہو تا تھا ۔بلکہ ان کی حیثیت مو یشیو ں سے زیادہ نہ تھی۔آقاوں کو انہیں جان سے مار ڈالنے تک کے اختیارات تھا ۔ ابتدائی سماج میں جب غلامی کا رواج ہو اتوغلام کو کنبے کا فر د سمجھا جاتا تھا ۔لیکن غلام داری سماج میں وہ انسان بھی نہ رہ گیا تھا ۔
مارکس نے غلام داری سماج میں غلام کی حیثیت کا ذکر کر تے ہوئے لکھا ہے ۔’’غلام آقاکے پاس اپنی قوت محنت نہیں بیچتا تھا ۔اس کی حیثیت تو بیل کی سی تھی ۔جو کسان کے پا س اپنی قوتِ محنت نہیں بیچتا ۔غلام اپنے آقا کے پا س بک جا تا اور اس کے اس کی حیثیت بیل سے زیا دہ نہ رہتی تھی ‘‘۔
غلام کی محنت جبر یہ تھی۔ غلامو ں کو اپنی جسمانی قوت سے کام کر نا پڑتا تھا۔ انہیں چا بک سے ہا نکا جا تا تھا۔ معمولی سے معمولی لغزش کی سزاسخت تر ین ہو تی تھی ۔ غلامو ں کی پیشانی کو داغاجا تا تھا تاکہ اگر وہ بھاگ نکلیں تو پکڑنے میں آسانی ہو ۔ بعض آقاان کے گلو ں میں لو ہے کے پٹے ڈال دیتے تھے جن پر اُن کے آقاوں کا نام لکھا ہو تا ۔بعض کے کانو ں میں بالیا ں ڈال دی جاتی تھیں ۔’’ حلقہ بگو ش ‘‘ لفظ اسی زمانے کی یا د گا ر ہے جو غلامو ں کے لیے استعمال ہو تا تھا ۔
آقاغلامو ں کی محنت سے حاصل ہو نے والی ساری پیداوار لے لیتا تھا اور انہیں صرف معمولی خوراک دی جاتی تھی تا کہ وہ زندہ رہیں اورکام کرنے کے قابل رہیں ۔و ہ غلام کی محنت سے پیداکر دہ تما م اشیا ء ساری کی ساری لیتا تھا ۔اور اس کے پاس اتناچھو ڑ دیتا تھا جو اس کی بنیا دی ضروریات کے لیے بھی کافی نہ ہو تا تھا ۔
جو ں جو ں غلام داری سماج میں تر قی ہو ئی غلامو ں کی مانگ بڑھی ۔بہت سے ملکو ں میں غلامو ں کے اہل و عیال نہیں ہو تے تھے ۔غلامو ں سے اتنی زیادہ محنت لی جاتی تھی کہ وہ بہت جلد مر جا تے تھے ۔ اس لئے غلامو ں کی کمی کو پو راکرنے کے لیے جنگیں لڑی جاتی تھیں ۔چنانچہ اس دور میں غلام حاصل کرنے کا اہم ذریعہ جنگ تھا ۔
ایشیاء میں غلام داری سماج میں جو سلطنتیں قائم ہو ئیں وہ غلامو ں کے حاصل کر نے کے لیے دوسرے ملکو ں پر اکثر فو ج کشی کیا کرتی تھیں ۔ اور ہزاروں کی تعدادمیں لو گو ں کو غلام بنالیتیں ۔
قدیم یو نان کی تا ریخ ایسی جنگو نسے بھری پڑی ہے رومتہ الکبریٰ کی سلطنت اکثر جنگ کی حالت میں رہتی تھی اور غلامو ں کو حاصل کرنے کے لیے یو نان نے اسوقت کی آباد دنیا کو فتح کر لیا جنگ میں مفتو ح سپاہیو ں ہی کو غلام نہیں بنایا جاتا تھا مفتو حہ علاقے کی آبادی کے بہت بڑے حصے کو بھی غلام بنا لیا جا تا تھا ۔
مفتوحہ علاقے غلام حاصل کرنے مستقل ذریعہ تو تھے ہی فا تح ان علاقو ں سے غلامو ں کے علاوہ پیداوار بھی سمیٹ لیتے ہیں ۔غلامو ں کی تجارت کی بڑی بڑی منڈیا ں قا ئم ہو ئیں جن میں دور دراز سو تاجر آکر غلامو ں کی خرید فرو خت کرتے تھے ۔
غلام دار ی سماج کے طر یق پیداوار سے پیداواری قو تو ں کی ترقی کے لیے امکانات بڑھے اور اس سماج میں پیداواری قوتو ں کو ابتدائی سماج سے زیادہ ترقی ہو ئی ۔جب ریاستو ں اور آقاوں کے پا س غلامو ں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تو انہو ں نے ان کی قوت محنت سے پیداوار کو بڑاھا یا اس عہد مین چین ،ہندوستان ،مصر ،اٹلی ، یو نان اور وسط ایشیا میں غلامو ں کی محنت سے نہریں ،سڑکیں ، پل ،قلعے اور محل تعمیر ہو ئے ۔اہر ام مصر بھی اسی دور کی یا د گا ر ہیں ۔اس عہد کی تمام یا د گا ریں غلامو ں کی محنت کا نتیجہ ہیں ۔
غلام داری سماج میں سماجی محنت کی مزید تقسیم عمل میں آئی اورزراعت اور دستکاری نے مزید ترقی کی۔ تقسیم محنت سے محنت کی کارکردگی میں اضافہ ہوا۔
یونان میں غلاموں سے دستکاری کرائی جا تی بڑی بڑی ورکشاپیں قائم تھیں جن میں درجنو ں غلام بیک وقت کام کرتے تھے ۔کان کنی کے کام میں غلامو ں کو لگا یا گیا ۔لو ہا سو نا اور چا ندی کے کا نو ں سے نکالنے کا کام غلام ہی سر انجام دیتے تھے۔ اسی طر ح تعمیرات کا کام بھی غلامو ں سے لیا جا تا رہا ۔رومہ میں غلا مو ں کو کھیتی باڑی کے کام میں لگایا گیا۔ غلاموں کے مالک اشرافیہ طبقے کے لوگ بڑے بڑے قطعات اراضی کے مالک تھے۔ ان قطعات میں ہزاروں غلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔ غلاموں کی محنت بے حد سستی تھی۔ وہ ہزار روں کی تعداد میں اپنے آقاوں کی زمینو ں کو کاشت کرتے تھے ۔ان کی محنت سے زرعی اجناس بہت پیداہو نے لگیں ۔ چھو ٹی خو د کاشت کسان ان بڑے مالکوں کا کھیتی باڑی میں مقابلہ نہ کرسکتے تھے۔ اس لیے خودکاشت ختم ہوگئی اور خود کرنے والے کسان غلامو ں کی صفو ں میں شامل ہو تے گئے یا شہرو ں میں غریب اور بیکار لو گو ں کی تعدادمیں اضافہ کا با عث بنے ۔
ابتدائی سما ج سے غلام داری کا سماج تک کے عبو ری دور اور دیہات کا تضاد ابھر آیا تھا اور جو ں جو ں غلام داری کا سماج مستحکم ہو تا گیا ۔ یہ تضادگہراہو تا گیا غلامو ں کے آقاء اشرافیہ طبقہ کے لو گ ۔تا جر ،سود خور اور ریا ست کے اہلکار شہروں میں جمع ہو گئے یہ سب دیہاتی آبادی کو لو ٹنے تھے اس وجہ سے شہرو ں ااور دیہات کے تضادمیں شدت پیداہو ئی ۔
اس عہد میں معیشت اور ثقافت میں خاص تر قی ہو ئی ۔چو نکہ اس عہد میں غلام آسانی سے دستیاب ہو جاتے تھے اس لئے ٹیکنیکل تر قی بہت کم ہو ئی ۔غلامو ں کی محنت کی امتیازی خصو صیت یہ تھی کہ ان میں پیداوار بڑ ھا نے میں کو ئی دلچسپی نہیں تھی وہ کا م سے جی چراتے تھے ۔غلامی کی زندگی کے خلاف وہ گا ہے گا ہے اپنے غم و غضے کا اظہا ر آلات تیار کئے اور غلامو ں سے ان کے ذریعے کام لینے لگے ۔
یہی وجہ ہے طریق پیداوار غلام داری سماج میں بہت پست رہا ۔سائنسی امو ر میں جو تھو ڑی بہت تر قی ہو ئی اس عہدمیں اسے بھی پیداواری عمل میں نہیں لا یا گیا البتہ جنگ کے ہتیھیارو ں اور تعمیرات میں کام آنے والے آلات میں ضرور تر قی ہو ئی ۔ غلام داری سماج کے طر یقہ پیداوار میں کئی صدیو ں کے بعد بھی تبدیلی نہ آئی اور ایسے ایسے آلات اور پیداواری عمل میں استعمال کئے جاتے رہے جو بھا ری اور بھدے تھے ۔پیداوار کی بیادی قوت غلامو ں اور مو یشیو ں کی جسمانی قوت ہی رہی ۔چو نکہ پیداوار کے تمام شعبو ں میں غلامو ں سے کام لیا جا تا تھا اس لئے آقاہرقسم کی محنت و مشقت سے آزاد تھے اور تمام کام غلام ہی کرتے تھے ۔غلامو ں کے آقا جسمانی محنت کے نام پر ناک بھو ں چڑھا تھے اور ان کے نزدیک یہ کام صرف غلامو ں کا تھا ۔غلام داری سماج میں غلاموں کے آقاؤ ں کا کام ریا ست کا کام چلاتااور عملی مشاغل میں حصہ لینا تھا۔اس طبقے کے پا س فر صت ہی تھی اس لئے اس نے سیاست اور سائنس میں دلچسپی لی جس سے سائنس اور علم و ادب میں خاصی ترقی ہو ئی ۔
غلام داری سماج میں ذہنی اور جسمانی کا م کرنے والو ں میں تفریق پیداہو ئی اورتفریق بہت بڑھ گئی ۔غلام داری سماج کے پیداواری رشتو ں کی خصو صیت یہ تھی کہ اس میں آقاغلامو ں کا استحصال کر تے تھے ۔ایشیا ئی ملکو ں میں معیشت کی فطری حیثیت غالب رہی فطری معیشت کی خصوصیت یہ تھی کی اس میں پید اوار مقامی استعمال کے لیے ہو تی تھی لیکن یو رپ میں معیشت کا یہ پہلو زیا دہ غالب نہ تھا ۔یہا ں غلام ریاست ۔آقاو ں اور معبدو ں کے لیے کام لیا جا تاتھا ۔چین ، ہندوستا ن اور مصر میں صرف غلامو ں کا استحصال ہی نہیں ہو تا تھا خو د کاشت کسانو ں کی آبا دیو ں کو بھی لو ٹاجا تا تھا ۔خو د کا شت کسان اکثر قر ض لینے پر مجبو ر ہو تے تھے اور ان میں سے جو قر ض ادانہ کر سکتے تھے سود خوروں کے غلام بن جاتے تھے ۔
ایشیا ء میں اس عہد میں زمین کی مشترکہ ملکیت تھی ۔ریاست کی ملکیت میں بڑے بڑے قطعات اراضی ہو تے تھے ۔چو نکہ ان ملکو ں میں قدرتی وسائلِ آبپاشی کم تھے اور با رش ساراسال نہ ہو تی تھی ۔اس لئے مصنوعی آبپاشی کا نظام وجو د میں آیا اور نہر یں کھو دی جا نے لگیں۔ نہریں بنانے، تالاب کھو دنے اور بندات باندھنے کے لیے لا کھو ں انسانو ں کی ضرورت تھی ۔وسائل آبپاشی کی تکمیل اور دیکھ بھا ل کا کام ریاست کے ذمہ تھا۔ مصنو عی آبپاشی زراعت کے لیے شر طِ اول تھی ۔ اور یہ کام مرکزی حکو مت ہی سر انجام دے سکتی تھی ۔ان ملکو ں میں کسانو ں پر بھا ری ٹیکس عائد کئے جاتے تھے اور انہیں مختلف قسم کے فر ائض بیگا ر میں سرا نجام دینے پڑتے تھے ۔ ان کسانو ں کی حالت غلا مو ں سے کسی طر ح بہتر نہ تھی۔ غلام داری سماج میں یہ بستیا ں مطلق العنان شہنشاہیت کی بنیاد بنیں ۔
غلام داری سماج میں غلامو ں کے آقاپیداوار کو اپنی ذاتی عیاشی میں صرف کر تے تھے ۔ وہ سو نا چاندی اور جو ہرات جمع کرتے اور عظیم الشان محلات بناتے ،قلعے تعمیر کرتے اور معبد بناتے تھے ۔اہرام مصر جو آج بھی قائم ہیں لا تعداد غلامو ں کی محنت کا نتیجہ ہیں اور ان کا وجو د اس با ت کی دلیل ہے کہ ان گنت غلامو ں کی بے پناہ محنت اس کام پر صرف کی گئی تھی ۔غلامو ں کی محنت سے پیدا کی گئی پیداوار کا بہت تھو ڑاحصہ ذرائع پیداوار کو تر قی دینے کے لیے خر چ کیا جا تا تھا ۔ اس عہد میں تبا ہ کن جنگیں لڑی گئیں جن میں پیداواری قوتیں تباہ ہو ئیں شہر اور بستیا ں اجڑ گئیں ۔
غلام داری سماج کے معاشی نظام کا بنیادی قانون یہ تھا کہ غلامو ں کی محنت سے پیدا کی گئی پیداوار غلامو ں کے آقا اپنی عیاشیو ں پر خر چ کرتے تھے اور آقاؤں کو اس پیداوار پر مکمل اختیا ر تھا ۔اس عہد میں دستکا رو ں اور خو د کا شت کسا نو ں کو بھی غلام بنایا گیا ۔ اور دوسرے ملکوں پر فوج کشی کی گئی اور مفتوحہ علاقے کے لوگوں کو بھی غلام بنایا گیا۔
تجار ت کو ترقی
تا جر و ں اور سود خورو ں کا سر مایہ
غلام داری سما ج میں پیداوار غلامو ں کے آقاؤ ں، ان کے ملازمو ں اور خدمت گا روں کے کام آتی تھی اور ابتدامیں یہ پیداوار تبادلے کے لیے نہیں کی جا تی تھی۔ لیکن اس کے با وجو د تجارت کو فر و غ ہوا اور پیداوار کا ایک حصہ جنسِ تجارت بنا اور منڈی میں جا کر فر وخت ہو نے لگا ۔جو ں جو ں تجارت کو فر و خ ہوا زر کا نظام پھیلا۔ چر واہی قبیلو ں میں پہلے پہل مو یشی تبادلے کا ذریعہ بنے لیکن مو یشی آہستہ آہستہ چاندی اور سونے میں تبادلے کا پیمانہ بن گئے ۔اور قدیم ایشیائی ملکو ں میں دھا ت نے سکے کی صورت اختیار کر لی ۔ کا نسی ،چاندی اور سو نے کے سکے استعمال کیے جانے لگے ۔یہ رواج تین ہزار سال قبل مسیح میں ہوااور ساتو یں صدی قبل مسیح میں ان دھاتوں کے باقاعدہ سکے ڈھالے جانے لگے۔ یونان میں آٹھویں صدی قبل مسیح،رومہ میں پا نچویں صدی قبل مسیح میں تا نبے کے سکے بنتے تھے ۔ لو ہے اور تا نبے کے سکو ں کی جگہ چاندی اور سونے کے سکوں کا رواج بہت بعد میں ہو ا ۔یو نان کی شہری ریاستیں دور دراز تک تجارت کرتی تھیں ۔بحر روم کے ارد گر د کے صو بو ں سے غلام ،اون اور مچھلی حاصل کی جا تی تھی ۔ان کے علا وہ تعیش کے سامان کی بھی تجا رت ہو تی تھی ۔ حکمران مفتو حہ علا قوں سے خراج کی صورت میں یہ چیزیں حاصل کر تے تھے ۔اس زمانے میں تجارت ، رہزنی ،غارت گر ی اور لو ٹ ما ر میں کو ئی زیا دہ فر ق نہ تھا ۔
غلام داری سماج کے عہد میں زر محض اشیا ئے صر ف کی خریدوفر و خت کا ذریعہ نہ تھا ،سود کی صورت میں دوسروں کی محنت کو لو ٹنے کا ذریعہ بھی بن گیا تھا ۔تا جر اور سو د خورو ں کے پا س تجا رت اور سود سے بے پناہ دولت جمع ہو گئی۔ تا جر و ں نے اس سر مائے کو تجا رت میں استعما ل کیا ۔ تا جر غلامو ں ، کسانو ں اور صنعت کا روں کی محنت سے پید ا کی گئی اشیا ء کو اپنے سر مائے کی مدد سے لوٹتے تھے اور سودخوار رو پے اور آلات پیداوار چھو ٹے کسانو ں ، دست کا روں اور دوسر ے ضرورت مند افراد کو قرض دے کر سو د لیتے تھے ۔سود خو ر آقا ؤ ں کو بھی قرض دیتے تھے اوراس طر ح اس لو ٹ میں حصہ داربن جا تے تھے جو غلام کے آقا غلامو ں کی محنت کی کمائی کر تے تھے ۔