بند کمرہ میں پارٹی کا اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس پارٹی کے اندر ڈسپلن قائم رکھنے اور ناراض کارکنان کی شکایات کے ازالے کی خاطر بلوایا گیا ہے۔ کارکنان کو شکایت ہے کہ ممبر حضرات ان کے حصے کا کوٹا بھی خود کھاجاتے ہیں۔
دو جواب، لو جواب جیسی کشمکش نے ماحول کو انتہائی تکراری بنا دیا ہے۔ معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے صوبائی سطح کا پارٹی لیڈر ساری مصروفیات چھوڑکر فیصلے کے لئے پہنچ گیا ہے۔ وہ دونوں گروپوں کے مابین صلح کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا پورا زور اس بات پر ہے کہ کسی بھی طرح کارکنان کے درمیان پیدا ہونے والی بیچینی اور بے اعتمادی کو دور کیا جائے۔
ایک جوشیلا ورکر اپنے ساتھ کی جانے والی ناانصافی پر ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔
جوشیلا ورکر: ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو رہا ہے! خاص طور پر نوکریوں سے صرف ممبر حضرات کے بیٹوں، پوتوں، بھتیجوں اور بھانجوں کو نوازا جارہا ہے۔ ہمیں تو دیگ میں سے کھرچن بھی نصیب نہیں ہوتا۔ کیا ہم پارٹی ورکر نہیں ہیں جو ہمیں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟
نوجوان ورکر اپنی قربانیاں بھی یاد کرواتا ہے۔
جوشیلا ورکر: جب سڑکوں پر نکلنے اور قید و بند کی صعوبتیں سہنے کا وقت آتا ہے تو کون ہوتے ہیں جو ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن سے ٹکرا جاتے ہیں، جو پولیس کی لاٹھی چارج اور گولیوں کا نشانہ بنکر پارٹی کی ہستی کو زندہ رکھتے ہیں؟ انہی قربانیوں کا صلا یہ ہے کہ جب تقسیم کا وقت آئے تو انھیں یاد ہی نہ کیا جائے۔ کیوں؟ یہ ناجائزی آخر کب تک برداشت کریں؟
کمرے میں بیٹھے باقی کارکنان اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ممبران کے خلاف نعرے بازی کرتے ہیں اور ایسے ممبران پر لعن طعن کرتے ہیں جو ان لوگوں کے حقوق ہڑپ کر چکے ہیں۔ صوبائی لیڈر کھڑا ہوتا ہے اور کارکنان کو شور شرابے سے روکتا ہے۔
صوبائی لیڈر: خاموش! خاموش!۔۔۔۔ کوئی ایک بولے!۔۔۔۔ سنو!۔۔۔۔ چپ کرو!۔۔۔۔۔ میں کہتا ہوں خاموش ہوجاؤ!
چند لمحوں کے لئے خاموشی چھاجاتی ہے اور پھر لیڈر اپنے لہجے میں انتہائی نرمی لاتے ہوئے کارکنان سے مخاطب ہوتا ہے۔
صوبائی لیڈر: آپ ہمارے بازو ہو، ہماری طاقت ہو، ہمارے سر کا تاج ہو! معمولی باتوں کی وجہ سے انتشار اور توڑپھوڑ کا شکار مت بنو! غلط فہمیاں ہوتی ہیں، وہ ہوتی ہی اس لئے ہیں تاکہ ان کا خاتمہ ہو سکے۔ مٹا دو ساری غلط فہمیاں!
جوشیلا ورکر: سائیں! وہ معمولی غلط فہمیاں نہیں ہیں!
ناراض کارکن اسی جوشیلے انداز میں گفتگو کر رہا ہے۔
جوشیلا ورکر: ہم گریجوئیٹ، پوسٹ گریجوئیٹ بھی بیروزگاری کا عذاب بھگت رہے ہیں مگر ہمیں کسی بھی حساب کتاب میں لایا ہی نہیں جاتا! آپ علی محمد سے پوچھیں کوئی ایک آرڈر بھی کسی کارکن کو ملا ہے؟ آپ اِن سے پوچھیں؟
لیڈر کارکنان کا غصہ اور غضب دیکھ کر ممبران کی طرف شکایتی انداز میں دیکھتا ہے۔ممبر بتانا شروع کردیتا ہے۔
ممبر: سائیں! میں مانتا ہوں! میں مانتا ہوں کہ اپنوں کو نوکریاں دی ہیں! اب انشاء اللہ ان لوگوں کو بھی ملیں گی! مگر اس کے لئے تھوڑا صبر کرنا ہوگا!
جھوٹ جھوٹ، شیم شیم کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ممبر پھر ناک کی پکائی سے بولتا ہے۔
ممبر: سائیں! ان سے پوچھیں کہ یہ بھی جھوٹ ہے کہ ان لوگوں کو سلائی مشینیں اور نل نہیں دیے ہیں؟ ان سے معلوم کریں کہ وہ نل کہاں گئے؟ کیا وہ نل اپنے چچا اور ماموں کے گھروں میں نہیں لگوائے ہیں؟
کارکنان سخت ردِعمل دِکھاتے ہوئے پھر سے بولنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیڈر ان کو ہاتھ کے اشارے سے روکتا ہے۔ کارکنان بڑی مشکل سے رکتے ہیں۔ ممبر اپنی بھاری اور دکھ بھری آواز میں کمرے کے سیاسی ماحول پر حاوی پڑجاتا ہے۔ وہ تقریباً روتے ہوئے کہتا ہے:
ممبر: سائیں! آئے ہو تو ان لوگوں کو سمجھاؤ!۔۔۔۔ ان کو سمجھاؤ کہ ہماری بے عزتی نہ کریں، ہمارے خلاف بلاوجہ نعرے بازی بند کریں! کیا ہماری عزت یہ ہے کہ ہمیں اپنے حلقے کے لوگوں میں رسوا اور بے عزت کیا جائے؟ ہماری تقریروں پر ہوٹنگ اور نعرے بازی کرواکہ لوگوں میں ہمارا امیج خراب کیا جائے؟ سائیں! پچھلے سال سیلاب کا امدادی سامان کچھ بانٹنے سے رہ گیا تو اسے اسکینڈلائیز کرانے کے لئے نام نہاد تنظیموں کے نام پر چاکنگ کرائی گئی! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کھلا چھوڑدیں تاکہ لکڑ ہضم، پتھر ہضم کرتے رہیں! کیوں ہمیں پیٹ نہیں؟ یاد رکھو ہم نل اور سلائی مشینوں پر سمجھوتا نہیں کریں گے! جب تک ہمیں ہمارا پورا حصہ دیا نہیں جاتا تب تک آپ کے پول کھولتے رہینگے۔ ظالمو! ہمیں کھانے کے لئے نہیں ہے اور تم اسٹور کی ہوئی کھانے کی چیزیں سال گذرنے کے بعد راستوں پر پھینک دیتے ہو! آپ لوگوں کو کچھ بھی نہ کہا جائے؟
دوبارہ نعرے بازی شروع ہو جاتی ہے۔ لیڈر اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کہتا ہے:
صوبائی لیڈر: خاموش، خاموش!۔۔۔۔ انھیں سنو!۔۔۔ انھیں سنو پھر فیصلا کرتے ہیں!۔۔۔۔ توجہ دیں!۔۔۔۔ آپ کے ساتھ انصاف ہوگا!۔۔۔۔ ہوگا انصاف آپ کے ساتھ!
ممبر: سائیں! میری کردار کشی کی مہم شروع کی گئی ہے! مختلف طریقوں سے مجھے پریشان کیا جا رہا ہے! اخباروں میں بیان بازی کی جا رہی ہے کہ میں نے اتنا یا اتنے کروڑ بنائے ہیں! میرے متعلق کھلی کچہریوں میں کہا جاتا ہے کہ پانچ برس پہلے شہر کے فٹ پاتھ پر پکوڑے بیچتا تھا اور اب کروڑوں میں کھیل رہا ہوں! سائیں! انھیں سمجھائیں کہ اندر کی باتیں اندر میں سلجھائیں! ان کو باہر لانے سے پارٹی کی حیثیت متاثر ہوگی!
ایک مرتبہ پھر شور بڑھ جاتا ہے۔ ناراض کارکنان الزاموں کی لمبی فہرست کھولکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ممبر کی طرف داری میں ممبررکن اسمبلی کے دوست اور چاہنے والے بولنے لگتے ہیں۔
ممبر کے دوست: میری بات سنو!۔۔۔۔ سنو!۔۔۔ جلدبازی مت کرو! ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں!
لیڈر ان کا دل جیتنے کے لئے انہیں سمجھاتا ہے۔
لیڈر: آپ سب ہماری طاقت ہو! ہم اپنی طاقت کو کمزور ہونے نہیں دینگے!
تالیاں بجتی ہیں۔ لیڈر کی تقریر جاری ہے۔ وہ کارکنان کی طرف ہاتھ اٹھاکر کہتا ہے:
لیڈر: میرا آپ کو کہنا ہے کہ کوئی بھی مسئلا، کوئی بھی شکایت ہو تو سیدھا میرے پاس چلے آؤ! میں ہوں نا آپ کا بڑا!
لیڈر کے حق میں نعرے گونجنے لگتے ہیں۔ پھر کارکنان جیب سے نوکریوں، پلاٹوں اور پرمٹوں کی درخواستیں نکال کر لیڈر کی طرف بڑھاتے ہیں۔ لیڈر کارکنان کے ہجوم میں پھنس جاتا ہے۔ وہ ہر ایک کارکن سے خیر سگالی کے طور پر چند الفاظ بھی کہتے ہیں اور لائی ہوئی درخواستوں پر حکم بھی صادر کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی وقت باہر والی گیٹ سے ایک لونگی اور بنیان پہنے دیہاتی شخص پولیس کو چکما دیکر اندر داخل ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں عرضی نامہ پکڑا ہوا ہے جس میں اس کے نوجوان بیٹے کو ڈاکو قرار دیکر مارنے پر نوحہ لکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے بے گناہ بیٹے کی ایف آئی آر داخل کرانے کے لئے لیڈر سے حکم جاری کرانے کے لئے آیا ہے۔ جیسے ہی اجلاس والے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو مضبوط جسامت رکھنے والا سپاہی دوڑکر اس تک پہنچ جاتا ہے۔ کمرے میں کارکنان، ممبران اور لیڈر کی آواز میں اب پولیس کی چلائی ہوئی لاٹھیوں کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے۔ اجلاس کی آخری رسم پوری ہوتی ہے۔ نوجوان بیٹے کی شہادت کا نوحہ سرکاری لانگ شوز کے نیچے دھنس جاتا ہے اور بوڑھے باپ کو پولیس لاٹھیاں اورٹھڈے مارکر باہر گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔