مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحات: 125
قیمت: 250 روپے
مبصر: عابدہ رحمان
اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے میں سوچتی تھی کہ تحریک شاید وہی تھی کہ جب برصغیر کی سر زمین پر ہندو مسلمان سو سال ایک ساتھ گزارنے کے بعد جانے کیوں ایک دوسرے کو برداشت نہ کر پائے اور الگ وطن کا مطالبہ شروع کر دیاکہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ اپنے مذہب کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے۔ یا پھر تحریک شاید وہ تھی جو ، ہندوستان چھوڑ دو، کے عنوان سے ہندوؤں اور مسلمانوں نے انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے کے لئے کی تھی۔
اس سارے میں بلوچستان کے بلوچوں اور پٹھانوں کی قربانیاں کس عرصے میں فٹ ہوتی ہیں؟ اور وہ کونسی جدوجہد تھی جو انھوں نے کی، سچی بات ہے کہ شاہ محمد مری کی کتاب ، عبدالعزیزکرد، کو پڑھنے سے پہلے مجھ پر واضح نہیں تھیں۔میں حیران رہ گئی کہ کیا تاریخ ہے ہمارے بلوچستان کی اور کیا ہیرو تھے اس سر زمین پر۔۔۔! ۔ اور جب اس پر تبصرے کے لئے قلم اٹھایا تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اتنے بڑے لوگوں کے اتنے بڑے کاموں کو میں صرف ایک تبصرے میں کیسے سمیٹ پاؤنگی ۔لیکن اس خیال کے ساتھ آگے بڑھی کہ یہ تو بہت آسان ہے کہ ان سب کی جدوجہد تو ایک سی تھی ، ایک ہی منزل کی جستجو رہی، ایک ہی طرح کے مطالبات تھے، ایک سی قربانیاں تھیں۔ سب ہی نے اپنی زندگیوں کا آدھا حصہ جیل کی کال کوٹھڑیوں کو دے دیا۔ سب ہی نے اپنی تحریر اور اپنی تقریر سے عوام میں سیاسی شعور اجاگر کیا اور ظلم و استحصال اور نا انصافی پر آواز بلند کرنا سکھایا۔
یہ طویل جدوجہد جو ایک تنظیم ، ینگ بلوچ، کے نام سے ایک ظاہری طور پرکم لکھے پڑھے نوجوان عبدالعزیز کرد نے1920میں شروع کیا اور جو مدرسے سے پڑھے ہوئے نظامانی نے 1996 تک جاری رکھی۔ اس زنجیرکی پہلی کڑی ینگ بلوچ ہے اور پھر اس کے بعد قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی، کسان مزدور تحریک، کمیونسٹ پارٹی ، ورور پشتون ، نیشنل پارٹی، انجمن تحریک بلوچاں، استمان گل، سندھ بلوچ پشتون فرنٹ کے نام سے ایک طویل زنجیر بنائی۔ وقت کے مطابق مطالبات کی تبدیلی کے ساتھ وہ چند بنیادی مطالبات کو لئے یہ سفر طے کرتے رہے۔ وہ مطالبات انگریز سامراج سے آزادی، بلوچستان میں آئینی تحفظ، سرداری نظام کا خاتمہ، ظلم و جبر، نا انصافی کے خلاف جنگ، بلوچستان میں اصلاحات اور علاقوں کا ریاست قلات میں دوبارہ شمولیت کا مطالبہ شامل تھا۔ اس وقت کے سیاہ و سفید کے مالک ظلم و جبر کے سمبل شمس شاہ کے خلاف ، شمس گردی، کے نام سے پمفلٹ جاری ہوااورو ہی ان قومی ہیروز کی پہلی کامیابی تھی کہ جب عوضانہ خون، زر سر اور زر شاہ کی معافی، بیگار کی بندش اور مالی، پرس اور بجارکے خاتمے کے اُن کے مطالبات منظور ہوئے۔
مارکس کے نظرئیے کے یہ متاثرین عبدالعزیز کرد، میر محمد امین کھوسو، عبدالصمد اچکزئی، محمد حسین عنقا، قادر بخش نظامانڑیں، پرنس عبدالکریم آغا، میر عبدالرحمان بگٹی، ماسٹر نسیم تلوی، محمد اسلم اچکزئی اور ملک فیض محمد یوسفزئی میں ایک عجیب جوش وخروش ،قربانی کا جذبہ اور ایمانداری تھی۔ کسی نے اپنے باپ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، محراب گردی، لکھ ڈالی کہ جب اس نے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا چاہیں تو کبھی کسی نے اس مقصد کے لیئے جائیداد تک رہن رکھوا دی۔
ان کی دوستی بھی ہم خیال ہونے کے تحت مثالی تھی کی جب عبدالصمد اچکزئی نے کرد کے بارے میں کہا ، ’’میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ سوائے آزادئی وطن کے ایک بے صبر عاشق کے اور کچھ بھی نہیں ‘‘ اور یہ کہ’’ مجھ سے اب بھی میٹھی اور مضبوط دوستی ہے‘‘۔ تو دوسری طرف کرد امین کھوسہ عبدالصمد اچکزئی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’عبدالصمد اچکزئی بلوچستان میں نہ ہوتا تو پھر کوئی موافقت کرے یا مخالفت اس قوم بلوچستانی کو گورنری قطعاَ نہیں مل سکتی تھی‘‘۔ اور پھر یہ کہ ’’اسے بلوچستان سے پیار ہے۔ وہ بلوچستان پر عاشق ہے۔ مجھے صمد خان کی ایمانداری پر یقین کامل ہے‘‘۔
پارے کی طرح بے قرار سوشلسٹ نظرئیے کے حامی یہ دوست لڑتے رہے کہ ہمیں تحریر و تقریر کی آزادی چاہیے، تعلمی اقتصادی اور سیاسی ترقی، خواتین کی تعلیم، جرگہ سسٹم کا خاتمہ مثبت روایات اور ثقافت کا تحفظ، عا م انتخابات ، جرح و اپیل کا حق جیسے محاذوں پر۔ اور اسکے لیے انھوں نے تحریر وتقریر دونوں کا سہارا لیا۔ تقریباً تمام ہیرو آل انڈیا بلوچ و بلوچستان کانفرنس، کے سالانہ جیکب آباد اور حیدرآباد اجلاس میں شریک ہوئے۔ بے شمار اخبارات، روزنامے اور ماہنامے شائع کیے گئے جو ’’آزادی،، اور’’ انقلا ب‘‘ کی تکرار سے بدکے ہوئے حکمران بند کرتے رہے۔ شمس گردی، بلوچستان جدید، استقلال ،ینگ بلوچستان، بلوچ، ندائے بلوچستان، کلمتہ الحق، نجات کس کس کا نام لیا جائے۔ انگریز سرکار نے صرف محمد حسین عنقا کے17 اخبارات ضبط کر لیے۔
عدم تشدد کے یہ علمبردار آدھی زندگی جیلوں میں سڑتے رہے۔ پر تشدد اور پر مشقت جیل کاٹی، بم کے دھماکوں میں شہید ہوتے رہے، ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مرتے رہے لیکن اپنے مقدس مقصد سے روگردانی نہیں کی۔ ریلے ریس کی طرح اپنے مقصد کی شمع ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے رہے۔ بے شک جیلوں نے ا نکے دل و دماغ، لپک، جھپٹ سب جیل کی دیواروں کی اینٹیں کھا گیءں۔ بے شک مردہ لاشیں سماج کو واپس کر دی گئیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے ماتھے کے زخم کے نشان ہمارے لئے اس روشنی کی مانند ہے کہ جس میں ہم کان کے ان اندھیرں میں اپنے مقاصد اور ان کے حصول کو بہت واضح اور روشن دیکھ سکتے ہیں ۔ڈاکٹر شاہ محمد مری کا ہم جیسے بے خبر لوگوں پر احسان ہے کہ جنھوں نے ہماری ایک مضبوط پوشیدہ تاریخ کو ہم پر آشکار کر دیاکہ جن پر ہم بجا طور پرفخر کر سکتے ہیں۔