(27 نومبر1927۔۔۔۔۔۔3جولائی2002)
ابھی ماضی قریب میں پاکستان کے اندر کمیونسٹ سیاست کی مست جوانی دیکھنی ہوتی تو میں آپ کو فیصل آباد جانے کا کہتا۔ وہاں کچہری بازار میں ’’ گلی وکیلاں‘‘ نام کی ایک تنگ گلی ہے۔ ایک سادہ مگر کشادہ دو منزلہ مکان میں ادھیڑ عمر کا ایک شخص، چھڑا چھانگ رہتا تھا۔اپنی مجرد حالت کو شادی شدہ مرد حضرات کی زن مریدیوں پرمصنوعی قہقہے لگاتا ہوا چھپا دیتا تھا۔یہ شخص اپنے شہر کا مشہور وکیل تھا۔ چھوٹا قد، فربہ جسم، سر تقریباً گنجا، موٹے ہونٹ اور موٹی آنکھیں،چھوٹے ہاتھوں پہ چھوٹی انگلیاں، کلین شیو۔۔۔۔۔۔ سنجیدہ سنجیدہ سا، مگر باوقار طور پر سنجیدہ۔ کم آمیز مگر عام انسانوں کے ساتھ خوش خلق۔ اگر پتلون میں نہ ہوتا تو ہمیشہ سفید موٹی قمیص شلوار میں ہوتا۔ یہ تھا ہمارے انقلاب کا ہیڈ ماسٹر، میاں محمود احمد۔
اور وہ پارٹی ڈسپلن کے بارے میں واقعی ایک ہیڈ ماسٹر تھا۔ وہ مارشل لا اور رجعت کے سخت ترین مخالفوں میں سے تھا۔ غصے میں ہوتا تو اس کا پورا بدن کانپتا ، خوش ہوتا تو گول چہرے پر وسیع مسکراہٹ ، آنکھیں چمک اُٹھتیں ۔وہ بہت ہی کھلے ڈلے دل کا آدمی تھا دوستوں میں ہوتا توخوب چہکتا۔ لطیفے، مسکراہٹیں، قہقہے، بے تکلفیاں۔ تکیہِ کلام تھا ’’ لالے‘‘۔ یا ، پھر پیار بھرا لفظ’’ بے ایمانا‘‘ اور ، یا ’’ اوئے کمینے‘‘۔ کبھی کبھی ’’ اوئے ملتانی ‘‘ یا ’’ جااوئے بلوچی‘‘ کہہ ڈالتا ، اِس صورت میں کہ آنکھوں میں چمکدار پانی بھر جاتا، چہرہ ہلکے سرخ رنگ سے منورہوجاتا اور ایک وسیع مسکراہٹ چہرے پر پھیل جاتی ۔۔۔۔۔۔ اِس افق سے اُس افق تک ۔۔۔۔۔۔ میاں محمود احمد۔
وہ طالب علمی کے زمانے میں ہی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوا تھا اور اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک ایک غیر متزلزل کمیونسٹ ہی رہا۔کمیونسٹ تحریک میں وہ ایک اور مستقل دریا،سی آر اسلم کا ایسا دست و بازو رہا کہ یک جان و دوقالب والی بات مکمل طور پر صادق آتی تھی۔
سماج کی جس تبدیلی کو اُس نے اپنا مقصد و مرکزِ حیات بنا رکھا تھا اُس کی تکمیل ابھی تک تشنہ ہے ۔ وہ پاکستان کو ایک جمہوری ملک بنانا چاہتا تھا ۔ اس کے نزدیک جمہوریت کوئی مبہم لفظ نہ تھا۔ وہ جمہوریت کو دو باتوں سے مربوط مشروط سمجھتا تھا۔ ایک تو سامراج سے نجات کی شرط تھی کہ پاکستان ایک غلام ریاست کی حیثیت سے کبھی جمہوری بن نہیں سکتا ۔ اس لیے کہ جمہوریت ہوتی ہی آزاد ملک میں ہے۔ جمہوریت کے لیے دوسری لازمی شرط و ہ جاگیرداری اورسرداری کے خاتمے کو سمجھتا تھا۔ یہ دونوں اھداف ، یہ دونوں فریضے ابھی طبعی طور پر زندہ لوگوں کے لیے باقی ہیں۔
میاں محمود اپنی ساری زندگی مارشل لاؤں کے خلاف جدوجہد میں رہا، میدان خواہ جلسہ ہوتا یا جیل۔ اس کا موقف تھا کہ جس جمہوریت میں ہمیں مبتلا کردیا گیا وہ تو بہت بڑا فراڈ ہے۔ اصل میں آئی ایم ایف اپنے قرضوں کی وصولیابی کے لئے پاکستان میں اپنے نائب مقرر کرتا رہتا ہے۔ کبھی ڈنڈے بردار فوجی نائب اور کبھی ووٹ کا ڈرامہ سجا کر ’’ منتخب‘‘ نائب۔ میاں محمود نے لیاقت علی خان سے لے کر پرویز مشرف تک سب امریکی نائبوں کو بھگتا۔ وہ ایوبی دور میں جیل گیا، ضیاء الحقی زمانے میں جیل گیا اور بقیہ ادوار میں جسمانی و نظریاتی مصیبتیں جھیلیں۔ حالیہ زمانے میں امریکہ کی نائب بے نظیر بھٹو تھی۔ اس نے امریکہ کے قرض کی وصولی اور اُسے بھجوانے کے فریضے کی تکمیل کے لئے بڑی عرق ریزی اور بڑی جاں فشانی سے محنت کی ۔ اس نے پرائیویٹائزیشن کے نام پر عوامی املاک کی فروخت شروع کی، مگر سود درسود والے قرضوں کی ایک قسط تک ادا نہ ہوسکی ۔ تب آئی ایم ایف نے اس کو برخاست کیا اور دوسرا نائب مقرر کردیا،نواز شریف کے نام کا‘تاکہ اس کے قرضوں اورسود کی ادائیگی کی سیوریج لائن کھلی رہے۔ اس نے بھی اس ڈیوٹی کی بجاآوری میں اپنی چالاکی،بازاری مہارت، اور کاروباری تجربات والی ساری صلاحیتیں جھونک دیں مگر ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ بری طرح ناکام ہوا اورقرض کی ادائیگی نہ ہوسکی۔ چنانچہ اُسے بھی برطرف کردیا گیا اور جنرل پرویز مشرف عنانِ حکومت پہ قابض ہوا۔ چہرے ایک بار پھر بدل گئے۔ الفاظ،فقرے،اصطلاحات بھی بدل گئیں۔ کرپشن،غنڈہ گردی اور افراتفری کی نوعیت بدل گئی۔ مذہب اور فرقہ کے نام پہ قتل قتال کا سلسلہ کبھی کم کبھی زیادہ ہوتا رہا۔گھٹن اوربنیاد پرستی بھی چلتی رہیں مگر اولین ترجیح وہی کی وہی رہی۔ آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی تکمیل۔ چنانچہ احتساب شروع ہوا اور احتساب سے حاصل کردہ رقوم کو قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کرنے کے اعلانات ہوئے۔ جنرل سیلز ٹیکس نافذ ہوا،بجلی ،پیٹرول،ڈیزل،گھاسلیٹ،گیس اور ٹیلی فون کے ریٹ بڑھے،لاکھوں افراد کو بے روزگار بنایا گیا اورمختلف انتخابی و انتظامی اصلاحات کے اعلان ہوئے۔ یہ سارے اقدامات آئی ایم ایف کے ماحول اور کلچر کی مطابقت میں لئے گئے۔
آئی ایم ایف سے عقل،منطق،استدلال،انسانیت اور دور اندیشی کی کوئی توقع نہیں ہوسکتی۔ قرضوں کی غلامی کا یہ تسلسل میاں محمود کے اس تصور کی ضد تھی جس کے تحت پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہوتا،اور جس کے لئے اس نے زندگی بھر جدوجہد کی۔ اس کا نظریہ تھا کہ پاکستان ہی کو ’ یک طرفہ طور پر‘ قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرنا ہوگا۔
سامراجی قرضوں سے انکار کرنے والے جس کام کابیڑہ میاں محمود احمد نے ربع صدی قبل اُٹھایا تھا وہ اب دنیا بھر کے مدبروں دانشوروں کے سمجھ میں آگیا ہے۔ یہ اب ایک عالمی تحریک بن چکی ہے،ایک عوامی ،پاپولر اور زندگی موت کے مسئلے کی تحریک۔ اس تحریک کی کامیابی ہرشریف انسان،ہر عقل سلیم کے مالک فرد کا فریضہ ہے۔
میاں محمود احمد کی زندگی اور جدوجہد کا دوسرا بڑا محور کسانوں کی آزادی تھی۔ وہ کسانوں کو منظم کرنے،ان کی کمیٹیاں بنانے، اور ان کی کانفرنسیں منعقد کرنے کا ہمہ وقتی کام کرتا رہا۔ وہ کسانوں کی زندگی کے مصائب سے بہت واقف تھا اور اس بڑی اکثریت کی نجات اور ترقی کو ملک بھر کی آزادی اور نجات گردانتا تھا۔ اس طرح وہ جاگیرداری نظام کا بدترین مخالف بن گیا جو کسانوں کی لوٹ اور استحصال کی سب سے بڑی وجہ اور سبب ہے ۔ اس کا استدلال تھا کہ سندھ،سرحد،پنجاب اور جنوبی بلوچستان میں ہزاروں ایکڑ نہری زمینوں کے مالک جاگیردار کسی صورت بھی اپنے کسانوں کو آزادی نہیں دیں گے۔ لاکھوں کروڑوں کی یہ آبادی صرف معاشی دست نگری کا ہی شکار نہیں ہے بلکہ یہ تو سماجی اور سیاسی طور پر بھی جاگیردار کے تابع ہے۔ اس طرح جمہوریت کا پورا تصور ان جاگیرداروں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ میاں محمود ان زمینوں پہ بلا معاوضہ قبضہ کرکے انہیں بے زمین کسانوں میں مفت تقسیم کرنا چاہتا تھا ۔ اس طرح وہ جاگیرداری نظام کے معاشی سیاسی اور ثقافتی اثرات سے پاک معاشرہ قائم کرنا چاہتا تھا جہاں کسان آزاد ہو ،اس کا ضمیر آزاد ہواور ضمیر کی رائے آزاد ہو،اس کا ووٹ آزاد ہو۔
وہ جاگیرداری اور سرداری نظام کی موجودگی میں ہر طرح کے الیکشن کو SHAM الیکشن اور SHAM جمہوریت کہتا تھا۔ مشرف کی فوجی حکومت نے جاگیرداری نظام کے بارے میں وہی چپ، سادھ رکھی تھی جو پچھلی فیوڈل حکومتوں نے اپنا رکھی تھی۔ اس حکومت کا خیال تھا کہ جب تک چاقو چھریوں سے لیس ،ہانپتے،غصہ سے لرزتے ہوئے،جنگ پہ آمادہ لوگ جاگیرداری کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کرتے اور جب تک ان کے مطالبات اور قوت سے حکومت کو خطرہ لاحق نہ ہوجائے اُس وقت تک جاگیرداروں اور ان کے نظام کو کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم یہ حکومت جاگیرداری نظام کو ختم نہیں کرے گی اور نہ ہی بنیادی زرعی اصلاحات کرے گی۔ اور وہ یہ اقدام نہ کرکے ایک اور SHAM اور جعلی جمہوریت قائم کردے گی۔ پاکستانی عوام کے دونوں بنیادی مسئلے یعنی سامراجی بالادستی اور جاگیرداری اسی طرح برقرار رہیں گے۔میاں محمود کی زندگی اُن دو باتوں کے خاتمے پر ہی تو وقف تھی۔
ذاتی زندگی میں بھی وہ مجسم انقلابی انسان تھا ۔ آپ آنکھیں بند کرکے کسی ’’ سخی‘‘ کا تصور کرلیں، میاں محمود کی تصویر خود بخود اُبھرے گی۔ ایک اچھے انقلابی ہی طرح میاں محمود بھرپور یاری کرتا تھا ۔ شفاف، مکمل، اور استقامت بھری یاری۔۔۔۔۔۔ پیسہ ، محبت وقت، تکلیف سب کچھ جھونک دیتا تھا دوستی میں۔ مگر یار میں اگر اُسے معمولی بھی کھوٹ ، ہلکی سی بھی ملاوٹ نظر آجاتی تو نہ صرف دھڑلے سے دوستی توڑ ڈالتا تھا بلکہ اس شخص سے اتنا دور بھاگتا تھا جتنا کہ ہندو گائے کے گوشت سے۔ پھر خواہ وہ شخص سوچیؔ کاروح افزا پانی سو سال تک بھی پیتا، کریملن کے بڑے شخص سے نیکی کا سرٹیفیکیٹ بھی لاتا اور مست توکلی سے آئندہ کی نیک چلنی کی ضمانت بھی لے آتا، میاں محمود اس شخص کو سچا، اچھا سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ کمیونزم میں تو معمولی سی ملاوٹ کرنے والا بھی اس کا کٹر مخالف ہوتا۔ اپنے نظریے کی بنیادی چوکھٹ پہ کبھی چوٹ لگانے نہیں دیتا تھا ۔ وہ اپنی صفوں میں کسی آزاد خیال، کسی ترمیم پسند کو قبول نہیں کرتا تھا۔ اتنا کھرا، اتنا سچا اور اٹل شخص تھا میاں محمود۔
میاں محمود احمد فیصل آباد میں تین جولائی2002 کو 70برس کی عمر میں انتقال کرگیا ۔وہ لدھیانہ کے وکیل گھرانے میں پیدا ہوا۔ کالج کا زمانہ لدھیانہ میں گزارا اور وہیں انقلابی خیالات سے روشناس ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد میاں محمود احمد کا گھرانہ لائلپور میں آکر آباد ہوگیا۔ یہاں آنے کے بعداس نے یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لیا۔ قانون کی تعلیم کے حصول کے دوران اس نے طلباء سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ پھر وہ کمیونسٹ پارٹی کے قریب آگیااور1949 میں اس کا ممبر بن گیا۔50سال تک میاں محمود نے بھرپور طور پرانقلابی سیاست کی اور آخری سانس تک عہدِ و فا کو نبھائے رکھا ۔ پارٹی مقاصد کے حصول کے لیے اُس نے نہ کبھی اپنے تن کی پروانہ کی نہ من کا خیال رکھا اور نہ دھن کو بچایا۔ اس کو انقلابی آدرش سے اتنا عشق تھا کہ اس نے اپنا کنبہ بھی نہ بسایا۔وہ کارکنوں کو ہی اپنے خاندان کا حصہ سمجھتا تھا۔ وہ ایک سچا مارکسسٹ اور عظیم انقلابی تھا اور اسے مارکسی فلسفے کی حقانیت پر آخری دم تک یقین رہا۔
جب 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی تو اُس نے کسان فرنٹ میں زور وشور سے کام جاری رکھا۔1957 میں نیشنل عوامی پارٹی بنی تو وہ اُس کے بنانے والوں میں شامل تھا۔
بیرونی سطح پر وہ اور اُس کے دوست خواہ جس پارٹی میں بھی رہے، انہوں نے کسان فرنٹ اور مزدور فیڈریشن سے اپنی توجہ کبھی نہ ہٹائی۔ کمیونسٹ پارٹی سے نیشنل عوامی پارٹی اور وہاں سے میاں محمود1971 میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی تشکیل کے وقت اُس کے تاسیسی ممبروں میں شامل رہا۔ پارٹی کی تنظیم بنانے اور اسے عوام میں روشناس کرانے کے لیے اُس نے خیبر سے کراچی تک شہر شہر نگر نگر جا کر پارٹی بنائی۔
سی آر اسلم، ملک اسلم، محمد علی بھارا اور میاں محمود ساری زندگی بے چین الیکٹران کی طرح جا بجا بھاگتے پھرتے رہے، پارٹی بناتے رہے، سٹڈی سرکلیں منظم کرتے رہے کسان کانفرنسیں منعقد کرتے رہے، طالب علموں مزدوروں تک رسائی کرتے رہے، کج فہمیاں دور کرتے رہے، انسان کی تکریم والی سیاسی پارٹی منظم کرتے رہے ۔ ملک میں کونسی ایسی کسان کانفرنس تھی جس میں میاں محمود کا وقت، توانائی اور فنڈ شامل نہ رہا۔ مزدوروں کا کوئی ایسی اکٹھ نہ تھی جس میں یہ نظریہ آنے والا شخص محنت نہ کرتا۔
1970 اور1980کی دہائیوں میں منعقدہ سارے کسان اور مزدور کانفرنسوں کو کامیاب بنانے میں اس کا اہم کردار رہا۔
یہ کمال شخص کانفرنس شروع ہونے سے کئی دن قبل ساتھیوں کو ساتھ لے کر اس علاقے چلا جاتا۔ ڈیرے ڈالتا، رابطے کرتا، تیاری کی معمولی سے معمولی باتوں کود دیکھتا، پنڈال سے لے کر حاضرین کے ٹرانسپورٹ کے لیے ٹریکٹر ٹرالیوں کے انتظامات کرواتا، مقرروں کی لسٹوں سے لے کر قراردادوں کے الفاظ تک، حکومتی جبر کے ہتھکنڈوں کے تدارکی راستوں سے لے کر اخراجات کی آخری پائی کی ادائیگی تک سمجھو ہر چیز کا انچارج ہوتا۔ مگر جب جلسہ شروع ہوتا تو سٹیج پہ وہ کبھی بھی نظر نہ آتا۔ دور کہیں غیر اہم جگہ پر چکر لگاتے جلسہ پہ نظر رکھتا۔ دوست دشمن کی حرکتوں سے خبردار رہتا اور یقینی بناتا کہ جلسہ ڈسپلن، پرامن اور کامیاب رہے۔میاں محمود کی سفید رنگ کی ٹویوٹاکار تو سوشلزم کیلئے گدھا گاڑی بن چکی تھی۔کاش پاکستانی انقلاب کے کسی چوک پرمیاں محمود کا ایک مجسمہ ہوتا ‘اور فیصل آباد کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی اس کی موٹر کاربھی وہاں رکھ دی جاتی ۔۔۔۔۔۔۔
کتنے کم لوگوں کو معلوم ہے کہ1970میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس ختم ہونے پر جب کرسیوں اور خیموں کا کرایہ باقی تھا، تو میاں محمود ، جو اپنی ساری پونجی اس کانفرنس کی کامیابی پر پہلے ہی قربان کرچکا تھا ، تعجب میں پڑ گیا کہ یہ پیسہ کیسے ادا ہو۔ وہیں اُس بڑے انسان نے اپنی کار موٹر بیچ دی، بقایا جات اداکیے اور خود بس میں بیٹھ کر فیصل آباد آیا۔
لاہور کے دل یعنی میکلوڈ روڈ پر ایک عمارت خرید کر انقلابی پارٹی کے بطور وقف کرنا انقلاب کے اسی ’’ نوذ بندغ‘‘ سخی کی جیب سے عمل میں آیا تھا۔
میاں محمود پارٹی کے بیرونی رابطوں کے لیے اکثر و بیشتر، محنت کشوں کی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوکر پارٹی کی نمائندگی کرتا تھا۔ اس سے پارٹی کو عالمی حالات اور فکر و عمل سے آگہی رہتی۔
وہ وکالت میں ٹیکسیشن لاء کی پریکٹس کرتاتھا۔اس کا بنیادی حلقہ اثر فیصل آباد کے مزدور اور ضلع فیصل آباد اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کسان تھے۔ وہ دوبارفیصل آباد کی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر بنا۔ پنجاب بار کونسل کا فنانشل سیکرٹری بھی رہا۔
اس نے نصف صدی قبل جس راستے کا انتخاب کیا آخر دم تک ثابت قدمی سے اسی پر گامزن رہا۔ اس کو یقین تھا کہ ہر سیاسی کارکن کی شخصیت، افکار اور عمل کا انحصار اسی تاریخی عہد پر ہوتا ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ اس نے سیاسی و معاشی دنیا کو آگے لے جانے والے قوانین کو سمجھ لیا تھا۔ اس کی جدوجہد کا مقصد سماج میں موجود انقلابی طبقات کے شعور کوتیز کرکے انہیں ایسی منزل تک پہنچاناتھا، جہاں ان کی نجات ہوجائے اور سماج آگے بڑھ سکے۔ سچ ہے کہ بڑا آدمی وہ ہے جو ان معروضی قوانین کو سمجھ لے اور ان پر عمل پیرا ہوجائے۔
میاں محمود احمد ایک ہر دلعزیز اور محبوب انسان تھا۔ ایثار و قربانی کی یہ مجسم مثال نام و نمود اور شہرت سے بہت دور رہتا تھا۔ وہ دوسرے کامریڈوں سے بھی یہی توقع رکھتا تھا ۔ ہم نے دیکھا تھا کہ اس کی کبھی بھی ان پارٹی لیڈروں سے یاری نہ رہی جو بیوروکریٹک طرز کی لیڈری کرتے تھے۔
اور کارکنوں کی عزت نہ کرتے تھے۔ میاں محمود ایک سچا اور کھرا انسان تھا۔ اس کے یہ سارے اوصاف اس کے نظریات ہی کی بدولت تھے۔ اسے انسان اور بالخصوص غریب انسان سے بے حد وابستگی تھی۔ اس کا شخصی دشمن کوئی تھا ہی نہیں،سوائے ان لوگوں کے جو غریبوں کے دشمن تھے۔ میاں محمود اپنی پارٹی کے ساتھیوں پر تو جان دیتا ہی تھا مگروہ اپنی پارٹی سے باہربھی ہر ترقی پسند جمہوری سیاسی ورکر کا ہر دلعزیز ساتھی تھا ۔ وہ خود دار اورباوقار شخص تھا، اپنے نظریات کی طرح پاکیزہ،منظم،واضح‘ کھلا ڈالا اور اٹل انسان۔
میاں محمود جیسا خوش خوراک شخص شاید ہی کوئی ہوگا۔ مگر وہ خوش خوراک صرف اُس وقت تھا جب کوئی مہمان ساتھ ہوتا۔۔۔۔۔۔ اور بہت کم ایسا ہوتا کہ وہ بغیر مہمان کے ہو۔ خواہ لاہور کے چوبر جی والا’’ خان بابا‘‘ ہوٹل ہو، لاہور کے چائنیز ہوں یا پھر لاہور میں پنجابی کلچر کا شاہکار ولیج ہوٹل ہو، میاں محمود اپنے دوستوں کے جلو میں یہاں نظر نہ آتا تو سمجھیں وہ لاہور آیا ہی نہیں ہوا۔
ضیاء الحق کمیونسٹوں سے سخت چڑتا تھا ۔ سختیاں ، مار کُٹائی، کوڑے، جیلیں، موت ۔۔۔۔۔۔ یہ سب چھکے چوکے ضیاء مارتا رہا، دائیں بائیں ، افغانستان میں ،ایران میں، کشمیر میں اور خود پاکستان میں۔۔۔۔۔۔ اور اس پورے دور میں جتنے بھی کمیونسٹ اجتماعات ہوئے، جتنی بھی کسان کانفرنسیں ہوئیں، جتنے بھی ٹریڈ یونین جلسے ہوئے، جتنے بھی افغان ثور انقلاب کی حمایت اورمارشل لاء کی مخالفت میں میٹنگیں ، جلوس اور ریلیاں ہوئیں، ان سب کے پیچھے میاں محمود ہی کا کھڑ پیچ والا رول ہوتا تھا۔
پارٹی اور اُس کی عوامی تنظیموں کی کانفرنسوں میں میاں محمود ضرور بالضرور موجود ہوتا ۔چنانچہ پارٹی کے منچلوں کا یہ نعرہ بہت مقبول ہوا تھا ’’ ہر جگہ موجود۔۔۔۔۔۔ میاں محمود، میاں محمود‘‘۔
میاں صاحب واقعتاً عالمی سوشلسٹ انقلاب کا ہول ٹائمر تھا ۔ شہرت کے لیے باؤلا ہونے والے لیڈروں والے ملک میں اتنی ’’ بے لیڈری‘‘ سے بھرپور شخصیت صرف اور صرف میاں محمود احمد کی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء دورمیں دوسرے پارٹی لیڈروں کے ساتھ اُسے بھی پابند سلاسل کیا گیاتھا ۔ جیل میں رہ کر بھی اسے پارٹی کارکنوں اوران کی بہبود کا خیال رہتا تھا۔ وہ نوجوان سیاسی کارکنوں کو ہمیشہ انسپائر کرتا اور انہیں ڈسپلن کی پابندی سکھاتا۔ وہ ان کی ہر طرح سے دلجوئی بھی کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کارکنوں میں بہت ہردلعزیز تھا۔
اسی زمانے میں سوویت یونین سے اپنی ہی خوشحالی آبادی دیکھی نہ جاسکی اور بلا کسی وجہ کے محنت کرنے والے انسانوں کی حکومت والے اس اخلاقی سپر پاور نے خودکشی کرلی۔ میاں محمود احمد کو سوویت یونین کے ختم ہوجانے کا بہت صدمہ ہوا ۔ وہ بہت دلبرداشتہ اور نڈھال ہوگیا اور سچی بات یہ ہے کہ وہ پھر کبھی سنبھلا ہی نہیں۔ محبوب نہ رہے تو زندگی کی رمق ختم ہی ہوجاتی ہے۔
پھر ایک اور بم اُس پر گرا۔ آرگنائزیشن پر جان نچھاور کرنے والے اس شخص کی اپنی پارٹی میں اچانک پیٹی بورژوا رحجانات ابھرے اورخود پرست ’’ آئی ایم‘‘ کے مارے ہوئے تقریر چیوں کی جانب سے لفاظی کا مینہ برسا ۔وہ اور اُس کی ٹاپ لیڈر شپ مغلظات کا شکار ٹھہرے۔ پریس ریلیزیں، بیانات، مسودے الغرض دائیں بائیں جو بھی کیچڑی الزامات اُس وقت میسر تھے وہ اِن پاک متحرک و فعال انسانوں پہ لیپ دیے گئے۔ اور باقاعدہ پارٹی توڑ دی گئی۔
ایک طرف سوویت یونین مرگیا اور دوسری طرف اس کی زندگی بھر کی پونجی، پاکستان سوشلسٹ پارٹی ٹوٹ گئی۔ شادی ، بچے، جائیداد سب کچھ تو اُس کی پارٹی تھی۔ جن پیٹی بورژوا رحجانات کے خلاف وہ ساری عمر لڑتا رہا، آج وہی رحجان خود اُس سے لڑچکا تھا۔
گو کہ کچھ ہی عرصہ بعد پاکستان سوشلسٹ پارٹی سے بچھڑا گروہ بغیر کسی وجہ کے دوبارہ اصل سے مل گیاکہ اور راہ نہ تھی۔مگر نقصان تو پہنچ چکا تھا۔ایک فیملی کے اندر ’’ آئی ایم‘‘ کا نرگسیت بھرا بھینسا گھس کر سارے برتن توڑ چکا تھا۔
اِن دو بڑے جھٹکوں کے نتیجے میں یا اِن کے ساتھ ساتھ میاں محمود احمد عمر کے آخری حصے میں بہت بیماریوں کا شکار رہا ۔ وہ عرصے سے بلڈ پریشر اور شوگر کا مریض تھا ۔ پھر گردے فیل ہوگئے ، اور پھربرین ٹیومبر تشخیص ہوئی۔
بستر مرگ پر بھی وہ ہر وقت پارٹی اور اس کے کارکنوں کی بہبود کے بارے میں فکر مند رہتا ۔اس لکھ پتی وکیل کے بنک میں ٹکہ تک نہ تھا۔ لیڈر لیڈری کرتے رہے اور وہ ہسپتال میں پڑا موت کی دہلیز پر پارٹی پارٹی کررہا تھا۔ مگر سلیم بھٹہ جیسے کالے موٹے اکھڑورکر چوبیس گھنٹہ ساتھ رہ کر موت کے ڈائنٹر کو ہر مل کا دھواں دیتے رہے۔ غفور جیسا ورکر گھر کا آخری روپیہ بھی اپنے کامریڈ پر خرچ کر چکا۔ احسان یوسف ’’ اللہ رکھی ٹرسٹ‘‘ کے سارے بٹوے نذر کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مگر حسین زندگی پر کوجھی موت بالآخر کالا پردہ ڈال گئی۔3 جولائی2002 میں میاں محمود فوت ہوگیا۔
میاں محمود احمد ، اب فیصل آباد میں نہ رہا ، کسی کسان کانفرنس میں محنت و محبت و مال لٹا کر جلسے سے دور کھڑے انتظامات کے دیکھنے کو پختہ انتظام کار موجود نہ رہا ، بے تکلف مزدور یاروں کے مزاح و مذاق کا نشانہ بنا شرماتا ہوا میاں محمود اب طویل خاموشی کی دنیا میں منتقل ہوگیا۔۔۔۔۔۔ آزادخیالی، بے ڈسپلنی اور لفاظی بواسیری بیماری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہٹ گئی۔
اتنا بڑا صدمہ ’’ یار رکھنے والوں ‘‘ کو نہ ملے شالا۔ بے برکت دھرتی کے اُجاڑ شہروں میں سے، ایک آئیڈیل فوت ہوگیا ۔ کس یار نے اپنے دو آنسو اُس پہ نہیں وارے ہوں گے( کسی نے مجمعے میں، کسی نے کونے میں، کسی نے دل کی گہرائی میں)۔ یہ آنسو ، یہ بزدلی، یہ ماتم انہی لوگوں کے حصے میں آئی جو میاں محمودکے پیروکار تھے۔ جس دوست کو بھی اس کی موت کی خبر ہوئی، ایک وقت کا چولہا نہیں جلا اُس کے گھر ، اُس پہر کا کھانا نہیں گزرا اُس کے حلق سے۔ کون کس سے تعزیت کرے؟۔ کون کہاں فاتحہ پڑھے، کہ محمود تو ہر گھر کا فرد تھا، ہر شخص اُس کے غمناک گھرانے ہی کا تو تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ جس شخص نے بغیر ڈگمگائے، بغیر پھسلے، بغیر’’ اگر مگر‘‘ ، اور بغیر ’’ میں میں‘‘ کہے اپنی زندگی کے مسلسل60 برس انسان کی خیر خواہی کے نظریے کی نذر کردیے ہوں، اُس بڑے انسان کی فاتحہ ایک شخص، ایک گھر،اور ایک فیملی میں ہوبھی نہیں سکتی، پورے سماج ، پوری آبادی کے ساتھ تعزیت کی جائے۔ لہٰذا مزدورو کسانو، جمہوریت پسند و، آزادی کے متوالو! ہماری طرف سے میاں محمود کی تعزیت قبول کرو۔۔۔۔۔۔ تمہاری طرف سے ہم قبول کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہمارا سانجھا چلتن پہاڑگرگیا۔۔۔۔۔۔ بڑے انسان مرکر بڑی خلا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم زندگی بھر ہر برس اُس کی برسی منائیں گے۔
ہاں، مگر کوئی کہے کہ اُس کی موت سے کوئی خوش نہ ہوا ہوگا، غلط ہے۔ طبقاتی دشمنوں کا تو پتہ ہے، مگر بعد میںیسوع کے اپنے تعزیتی جلسے میں غم کی تصویر بنے حواری مقرروں کے دل میں پھوٹتے لڈو بھی منوں کے وزن سے موجود تھے۔
میاں محمود احمد کی مقدس یادیں اس کے شاندار نظریات کی طرح ابدی ہیں۔ ایسے بے لوث لوگوں کی یاد انقلابی عمل کے لئے ایک قوت متحرکہ ہوتی ہے۔ اس کے دوست ،اُس کے پیروکار اُسے بھولے نہیں ہیں۔ اورایمانداری کی بات یہ ہے کہ جب بھی اس کی یاد ڈنگ مارتی ہے تو اس کے دوست سامراجی زور آوری اور جاگیرداری نظام کے خلاف اپنی جدوجہد تیز ترکرتے ہیں۔ جی ہاں ،یہی کرتے ہیں میاں صاحب کے ساتھ وفا اور دوستی نبھائے رکھنے کی قسم کھائے ہوئے لوگ۔
میاں محمود کی پیداکردہ خالی جگہ شاید ایک دو افراد سے بھری نہ جاسکے۔ ایک مجمع، ایک اجتماع پیدا کرنا ہوگااہلیانِ فیصل آباد کو ہماری اس جائز خواہش کی تکمیل کے لیے کہ ۔۔۔۔۔۔ مزدوروں، کسانوں، انقلابی دانشوروں اور انسان دوست انسانوں کو میاں محمود چاہیے، فیصل آبادہی سے ۔۔۔۔۔۔ ۔ہاں، وہی میاں محمود جو ڈاک سے موصول شدہ ’’ سنگت‘‘ رسالے کا نیا شمارہ پڑھ کر کوئٹہ فون کرکے شفقت سے بھری ، مگر ہیڈ ماسٹری والی آواز میں کہے’’ اے کی لکھیائی کمینے‘‘ ، یا پھر مسرت سے مرتعش آواز میں کہے’’ بہت اچھا شمارہ ہے، لالے‘‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے