کسی ملک میں بہت ساری خرابیاں پیداہوں یا ریاستی رٹ کمزور پڑ جائے تو کسی بڑے انقلاب کی راہ ہموار ہوجاتی ہے لیکن جہاں مختلف شہروں میں مختلف قسم کے مسائل جنم لیں وہاں اللہ لوگ طرح کے انسان پیدا ہوجاتے ہیں جو معاونین قدرت کہلاتے ہیں ۔یہ دو طرح کے ہو تے ہیں ایک وقتی طور پر اپنا کام کر جاتاہے دوسرا وقتی طور پر تو کچھ زیادہ پذیرائی کے قابل نہیں ہو تا ۔مگرا س کا کیا ہوا کام بعد میں آفاقی کہلاتا ہے لیکن یہ دونوں قسم کے لوگ تاقیامت امر ہوجاتے ہیں ان میں سے ایک ستار ایدھی بنتاہے تو دوسرا مست توکلی کی طرح انسانیت سے محبت اور عشق کو دوام بخشتا ہے ۔
ستار ایدھی ۔سادہ سا آدمی۔ دستگیری میں بے مثال۔ سماجی ہنر میں باکمال۔ باوصف مجاہد۔ منفرد پہچان جسے سوچو تو انسانیت جاگ اٹھے جسے پرکھو تو اعتبار ہی اعتبار ملے۔جسے دیکھو تو رہنمائی کاہر دعویدار بونا لگے۔اپنے کاز میں چٹان والدہ سے محبت کا کوہ سلیمان۔ کروڑ پتی برادری کا باغی سلطان۔ ارادوں میں ہمت میں جوان۔
اس جذباتی لگاؤ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بڑا اور قابل قدر آدمی اسے سمجھا جاتاہے جو کرفر سے زندگی گزاررہاہو۔ جس کے آگے پیچھے دولے شاہ کے چوہے چکر کاٹ رہے ہوں جس کے خوف اور خاندانی پس منظر کے سامنے پاؤں چھونے کا عمل جاری ہو ۔ جو باکمال چور ڈاکو اور لٹیرے کا لقب رکھتے ہوں۔ یہ عجیب بات نہیں کہ ہمارے ہاں حقیقی بڑا انسان مرنے کے بعد پہچانا جاتاہے ۔جب وہ آنکھیں موند لیتا ہے ایوانوں میں اس کی شان میں تعریفی کلمات کم پڑتے ہیں ۔ویسے ناخو اندہ خود غرض بے حس معاشروں کے لئے کسی بڑے انسان کی موت محض چند لمحوں اور چند دنوں کے لئے پانی کا وہ چھینٹا ثابت ہو تا ہے جو بے ہوشی سے نکلنے کا سبب بنتاہے اگلے لمحے اگلے دن وہ ایسے انسان دوبارہ اپنی اصلی حالت میں پھر سے سیاسی جگالیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں ایسی مثالیں لاتعداد ہیں ۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی ۔ بے نظیر بھٹو کا قتل۔ نواب اکبر بگٹی اور حکیم سعید کے دلدوز اموات ۔ فیض احمد فیض کی بے فیض رخصتی۔ اسی طرح بعض سانحات اور حادثات کے پیش آنے کے وقتی صدمات کو لے لیجئے ۔ مشرقی پاکستان کا الگ ہو نا ۔ ضیاالحق کا انجام ۔ سانحہ کار ساز۔ بلوچستان وویمن یونیورسٹی کا حادثہ۔ ہزارہ برادری پر حملے۔ مساجد مدارس کا قتل ۔ یونیورسٹی اورکالجوں میں بم دھماکے سکولوں میں معصوم بچوں کا قتل عام۔ کراچی میں نہ ختم ہو نے والا موت مداری۔ قدرتی آفات و حادثات۔ اگر جاگنے والی قوم ہو تی اگر دھڑکتے دلوں کے مالک انسان ہو تے تو ان واقعات و حادثات میں سے ایک ہی کافی ہو تا ۔ چلو رعایتی نمبر دینا چاہیں تو دوچار ہی کافی ہو تے ۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو آج ستار ایدھی کے انسانوں سے جذباتی لگاؤ کے طفیل ترقیاتی ڈگر پر چل رہا ہوتا ان کے نام ہسپتال تعلیمی ادارے اور اسٹیڈیم ہو تے ۔ مگر تعصب بیگانگی اور مکاری کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کے بیچ یہ بڑا آدمی لاشوں کے انبار اٹھانے کے علاوہ کر ہی کیا سکتا تھا اگر سب درست ہو تا تو صبح شام ہمارے طفیل ملک میں ایمبولینسوں کے ہوٹر بجنے کا رواج نہ پڑتا۔ ایسے ہی معاشروں کا نام نیکی برباد گناہ لازم پڑتا ہی تو ہے خدا کرے کہ ستا ر ایدھی کی موت اس بے حسی کے چہرے پر آخری پانی کا چھینٹا ثابت ہو ۔مگر موت سے سیلفیا ں بنوانے والوں سے توقع کم ہی رکھنی چاہیے۔ ہمارے ہاتھ تو ملک اور بیرون ملک ہمیشہ نیچے ہی رہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ بدعنوانی بھی ہے اگر ایسا نہ ہو تا تو یہاں چند گھرانے جو اوپر والا ہاتھ رکھتے ہیں ان کے جنازے دھوم دھام سے اٹھا ئے جاتے ۔ان کی زندگیاں بھی قابل فخر و قابل تقلید ہو تیں۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اشخاص نہ سہی ریاستی فلاح و بہبود کے محکمے سوشل سیکورٹی کے اداروں کی موجودگی میں ستا ر ایدھی جیسا شخص یہ درد سرہی کیوں پالتا۔ اگر ادارے اور محکمے درست کام کر رہے ہوں تو ان کا قلم دان ستار ایدھی جیسے شخص کے پاس ہوں ۔ اس پر سوچا جاناچاہیے۔ اگر پھر بھی ایسا نہیں ہو تا۔ کیا ستار ایدھی کے کام کا تسلسل انہیں جذبات احساسات اور ہمدردی کے ساتھ جاری رہے گا ؟۔ یقیناًاس کا جو اب نا ممکن ہی ہو گا کیونکہ ہمارے جن جن شعبہ جات سے بڑے لوگ اٹھ گئے ہیں ان میں بہتری کی بجائے تنزلی آئی ہے۔یہ ہو سکتاہے ۔بڑوں کے اٹھ جانے سے جس طرح سیاسی پارٹیاں تقسیم درتقسیم کا شکار رہی ہیں جس طرح ہر سنجیدہ مشن کا سودا کرنے والے اس کا تسلسل لئے آگے بڑھے ہیں لگتاہے آگے چل کرچیریٹی کے نام پرنیوستا ر ایدھی ایمبولینس سروس حقیقی ستار ایدھی فاؤنڈیشن پاک سرزمین ایدھی چیریٹی ہو م وغیرہ وغیرہ کے نام سے خدمت خلق کے ادارے کھلیں گے کیوں زیادہ تنظیموں کے بننے سے کچرہ کنڈیوں میں اضافہ کا سبب بننے والوں کے لئے بھی مزید آسانیاں پیدا ہو ں گی بہرحال جوپارٹیاں اور رہنما ء انتخابات کے دوران بلارنگ و نسل قوم کی خدمت کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں انہو ں نے ایسا کبھی نہیں کیا جو ستار ایدھی بغیر کسی رجسٹرڈ منشور اور نعرے کے اس کام کو اکیلا کر تے رہے۔حکمرانوں کی زبان میں کہا جاسکتاہے شرم و حیا بھی کوئی شے ہے ۔ کیا اس ملک میں چیریٹی کے نام پر کروڑوں کا بینک بیلنس رکھنے والا کوئی آدمی ایک پرانی قراقلی ٹوپی اور دو جوڑے ملیشاء سے گزارہ کرسکتا ہے۔ یہ ماں بہن کی گالیاں دینے والے رہنماء کبھی کسی قسم کی زیادتی ثابت ہونے کے باوجود معذرت نہ کرنے والے لوگ بھلا میلے ۔ کچیلے ۔ لاوارث بچوں کو گلے لگا سکتے ہیں جو قوم کے نا م پر پرمٹ لے کر عیش و عشرت کی زندگی گزا ر تے ہیں ۔ برداری ازم ۔ قبائلیت ۔ علاقائی ازم۔ فرقہ پرستی اور جھوٹی انا کے خول میں پرفریب زندگی گزارنے والوں کو یا د رکھنا چاہیے کہ ان کے جنازوں میں پانچ فیصد لوگ بھی نہیں ہوں گے اور نہ ہی انہیں اچھے ناموں سے یاد کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے بچے معاشرے میں آنکھ اٹھاکر جینے کے قابل ہو سکیں گے۔ستار ایدھی جیسی شاندار اننگ کوئی کوئی کھیل سکتا ہے ۔وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنا مقدر اپنی محنت۔ ایمانداری اور اخلاقی اقدار اپناکر بنا تے ہیں۔ اس بات کا غم مجھے ضرور ہے کہ لوگ دوچار یتیم چھوڑ نے پر پریشان ہوتے ہیں ان لاکھوں انسانوں کا سیارہ اب ستارایدھی کے جانے کے بعد کون بنے گا ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے