شاعری انسانی ذہن کی اولین جمالیاتی سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔گو کہ ثروت زہرا نے ہم بلوچوں کے بقول ’’ گاڑا گوڑا ‘‘ والی ابتدائی شاعری بچپن سے شروع کی تھی مگراُس کی پختہ شاعری 1988 سے شروع ہوئی ۔ بینکروالد چونکہ مذہبی شاعری سے وابستہ تھا اورچونکہ وہ خودبھی شاعر تھا اس لیے ثروت فیملی کو بچپن ہی سے شاعری ادب اور فلسفہ میسرتھے ۔ ماں ایجوکیشنسٹ، نرمی و ملائمت کی دیوی حلاوت و شیریں سخن۔لہٰذا سب بہن بھائی ادب دوست ہیں۔ (وہ کل پانچ بہنیں ہیں اور ایک بڑا بھائی ہے۔ اولاد میں ثروت سب سے بڑی ہے)۔
اُس کی حالیہ شاعری کی،اگر پوری نہیں تو بہت واضح اکثریت،ماہنامہ سنگت کوئٹہ میں چھپتی رہی، ٹائٹل جیسی جگہ پر۔ اکثر تو وہ خود ہی بھیج دیتی ہے مگر کبھی کبھی میری طرف سے ایک تلخ فقرہ یہ کام کر جاتا ہے۔
پھر، ایک باراُسے دورہ پڑا کہ اُس کے کلام کا انگلش میں ترجمہ ہو۔ ( بھلا دورے بغیر اسباب و علل کے بھی کبھی پڑتے ہیں؟) ۔ترجمہ نگار اُس نے خود ڈھونڈ لیاکہ یہ انتخاب اُس کے اپنے دماغ یا دل کا تھا۔اتنے زیادہ تراجم تو نہ ہوئے مگرجتنے بھی اب تک ہوئے، اچھے اور رواں ہیں۔ ترجمہ تو ایک بہت ہی نازک فن ہوتا ہے، بالخصوص شاعری کا ترجمہ ۔ قسمت والوں کو ہی کوئی فٹس جیرالڈ مل جاتا ہے۔
جب اُسے پردیس میں ہونے کے سبب اِس ترجمہ کے چھپتے رہنے کے لیے کسی اچھے رسالے کی تلاش میں دقت ہوئی تو ماہنامہ ’’سنگت ‘‘نے اُسے اپنے انگلش سلیکشن میں چھاپنے کی پیشکش کردی ۔ثروت کے مزاج کے ٹھہراؤ ، نہ ٹھہراؤکے بارے میں مجھے معلومات نہیں ہیں مگر سنگت مستقل مزاجی سے ایسا کیے ہوئے ہے: اردو سیکشن میں اردو کلام ،اور انگلش سیکشن میں اُس کی شاعری کا انگلش ترجمہ۔
اُس کے پہلے شعری مجموعہ کا نام ’’ جلتی ہوا کا گیت‘‘ ہے۔جلتی ہوا؟ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ثروت اپنی شاعری کی اِس زرتشی دائمی آگ میں ڈالنے کو ایندھن کی مسلسل سپلائی کا انتظام کیسے کیے رکھتی ہوگی۔شاعرانہ جواب تو ہوگا:بھئی دل جلا جلا کر۔
پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ جلتی ہوا کے ایندھن کے بطور وہ کیا استعمال کرتی ہوگی۔ ہواتو محض آکسیجن نامی ایندھن کی ترسیل کا میڈیم ہوتی ہے۔ آکسیجن؟ اچھا تو پھر ثروت کی شاعری کے لیے آکسیجن کے معدنی ذخائر کہاں واقع ہیں؟۔ ظاہر ہے کہ معروض ہی کی طرح ، موضوع میں بھی اس کو تلاش کرنا ہوگا۔یہ ایندھن خواہ جہاں سے بھی میسر ہو اُس کا ڈپو تو محبت کی جانب،( اور محبت کی جانب سے) ایک محتاج شدہ یا محتاج کردہ دل ہی ہوتا ہے!!، محبت کی سکرات میں پڑاہوا دل ۔
میڈیکل سائنس سے ہٹ کر بات کریں تو دانش ہمیشہ سے معروض کے بیانیے کے لیے دو’’د‘‘ کی محتاج رہی ہے : د ، دماغ۔ اور د، دل۔ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ شاعرہ ثروت کا دل بہت بڑا پاور ہاوس ہوگا۔ اُس کے دل کا Catchmentایریا کتنا وسیع اور متنوع ہوگا۔ہمارے خطے میں تودل،فیوڈل پنجرہ میں ہوتا ہے۔ مگر اُسے تو اُس نے پہلے ہی تنکا تنکا کر ڈالا تھا۔اوریہی اس کی سب سے اچھی بات تھی۔دل و دماغ کی ہر ہتھکڑی پر لعنت ہو خواہ وہ چُبھتی رسی کی بنی ہو یاحسین لگتے سونا چاندی کی۔
یہ تو قانون ہے کہ شاعر اپنے دل کو یکسانیت اورفرسودگی سے بہر حال بچاتا رہتا ہے۔چنانچہ اس کے دل کی چراگاہ مختلف براعظموں پر مشتمل ہوگی۔ متنوع کلچروں کی کشید ہی شاعری کو متنوع بنا دیتی ہے ۔ یوں نئے نئے حروف،نئے نئے الفاظ،اور مصرعے میسر آتے ہوں گے جنہیں وہ اس آتش کدہ میں جھونکتی جاتی ہوگی۔
اُس کا’’ جلتی ہوا کا گیت‘‘ نامی یہ مجموعہ2003 میں آیا۔ یہ ایڈیشن اسلاما باد میں چھپا تھا۔ اب تو خیر اِس کا دوسرا ایڈیشن بھی پڑھنے والوں نے مارکیٹ میں ناپید کردیا ہے جو 2009 میں شائع ہوا۔ میرے ہاتھ یہی دوسرا ایڈیشن لگا۔
یہ ایڈیشن فلیپوں سے اٹا ہوا ہے۔ اور مجھے فلیپوی یا دیباچوی انداز سے گھن آتی ہے۔ اس لیے کہ وہاں مغز و جذبہ و احساس کے منظم و مرتب ریوڑ کی خوبصورتی کو لفاظی کے ’’ ہُم ہُم ‘‘ کوڑے بن کر لگتے ہیں۔سو، میں نے جو کتاب پوری پڑھنی ہوتی ہے اُس کے فلیپوں، تعارفوں، دیباچوں کو پھلانگ کر اصل دریا میں کود جاتا ہوں۔
اس مجموعے میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ اب تو چانڑکیہ بننے میں بہت دیر ہوچکی ہے مگر، اگر میں اُس کی شاعری بہت پہلے پڑھ پاتا تو ضرور مشورہ دیتا کہ نظم و غزل میں اُسے نسرین انجم بھٹی کی صف میں ہی رہنا چاہیے ۔ اُس کی جینیاتی بُنت ہی نظم والی ہے۔ وہ بے شک آل راؤنڈر بننے کا کم سنی والا شوق ابھی بھی کرتی رہے(اِس لیے کہ ’’ ٹین ایچ فِناں مناں‘‘تو زندگی بھر ساتھ رہتا ہے)۔ مگر بالآخر اُسے نظم ہی کو اپنا میدانِ اظہار رکھنا ہوگا۔نظم جسے کل الامر کو صدا دینا بھی آتا ہے، یہ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کی میٹنگ کی رپورٹر بننا بھی جانتی ہے، نشاط و کیف کا تاج بھی اوڑھ سکتی ہے، اور despairکا نغمہ بھی تخلیق کرسکتی ہے۔نظم آنے والے کل کی شاعری کی میڈیم ہے۔ وہ کل جو بقول ثروت گمنام و سنسان و انجان و ویران ہے۔ اُسی غیب میں پڑے کل کو روشن کرنے کو جو طریقے استعمال ہوں گے نظم اُن میں بہت اہم ہوگی۔نظم ’’ ام الکلام‘‘ ہے۔
آئیے اب یہ دیکھیں کہ ہماری یہ ممدوحہ شاعری کونسی کرتی ہے۔مگرہشیار رہیے کہ ا صطلاح سازی کرنے کی صلاحیت رکھنے والی واحد مخلوق، انسان نے اب اصطلاحات اس قدر زیادہ کردیے ہیں کہ اچھے خاصے عاقل و دانا لوگ اُن کی بھول بھلیوں میں خود اپنی عادتیں ، حلیے اورشخصیت تک گم کرجاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ ساختیات و پیش و پس جدیدیت و ۔۔۔۔۔۔ گم کرو، ہم نے اِس طوطا گیری میں نہیں جانا ۔
سماجی طور پر تو بس یہ اہم ہے کہ شاعر اپنی جمالیاتی تخلیق کاری کے دوران کہیں کوئی بنیادی سماجی بات ضرور کرلے ۔ دیکھیے ناں ہم آپ ’’ اپنی مجال سے زیادہ جنون‘‘ پانے والے لطیفؔ اور توکلیؔ کے مرید اس لیے ہیں کہ وہ اپنی بھرپور عینیت پرستی کے باوجود سماج کی کسی ایک نقص سے متاثرہ انسان کی دلجوئی اشک شوئی کرتے رہے ۔ اس کے باوجود کہ مست و لطیف کے ادوار اور معروض کچھ اس طرح کے تھے کہ و ہ سرکار سردار سے کوئی خاص جھگڑے بھی نہ تھے۔مگر، حیرانی حِیات میں غوطہ زن اِن ہر دو،دُور بین اور ہمدرد روحوں نے محض ایک آدھ بڑے سماجی تضا د کو موضوع بنایا اور ساری حیاتی، زور آور کے نظریات میں سے اِس ایک پہلو کے بازو مروڑنے میں لگے رہے۔ اسی لیے تو ہمارا سماج تین صدیاں گزرنے کے بعد، آج بھی لطیفؔ و مست ؔ نامی یوٹوپیائی سوشلسٹ شاعروں کے کلام پر قناعت کی حد تک انحصارکرتا ہے ۔
ثروت خود بھی اس سوال کو گول کر جاتی ہے ۔وہ جواب کو اِدھر اُدھر گھما کر ، اُس کی دھار کو بہت ہی کُند کرکے پیش کرتی ہے۔ جیسے محبت کی حامی بھرنے کا شرمیلا پن کسی دو شیزہ کو مجبور کیے رکھے کہ وہ اپنے محبوب سے مکالمے میں ’’ محبت‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے ’’ عزت‘‘ کرنے کے لفظ کی جگالی کرتی رہے ۔جس طرح بزنجو صاحب نے آئینِ پاکستان میں سوشلزم لکھنے کے بجائے۔۔۔۔۔۔’’ ہر ایک کو اُس کی صلاحیتوں کے مطابق کام ملے گا، اور کام کے مطابق معاوضہ ‘‘لکھا تھا ۔
ثروت زہرا کہتی ہے ’’۔۔۔۔۔۔ میں کسی بھی نظریے کے بجائے زندگی پر یقین رکھتی ہوں ، ہر وہ نظریہ جو زندگی کو بحیثیت کُل اور اِس کائنات کے ساتھ ملا کر دیکھنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے میرے لیے قابل قبول ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔ پنجابی ’’ ٹوٹا‘‘ لگانے سے میری تحریر کی روانی میں ’’ رخنہ‘‘ پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا میں فوراً لکھ مارتا ’’ ایتھے رکھ‘‘ ۔ یہی فقرہ تو ہم سب کے نظریے کی ماثو ( گرینڈ مدر ) ہے۔بس،اب ہمارے تبصرے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔
اور یہ زندگی ہے کیا ؟ شاید فلسفہ والے لمبی چوڑی بات کہہ پائیں۔مگر ہم کسی بھی طرح کی خودغرضی کو ہٹا کر، اور کارل ساگان کی روح سے معافیاں مانگ مانگ کر، یہی کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کا جوہر بھی’’ انسان‘‘اور جوہری بھی ’’ انسان‘‘ ہے۔ انسان ذات موجود تو زندگی زندگانی موجود۔ انسان ہی ہے جوفطرت سے اپنی ہم آہنگی کو فروغ دیتا رہتا ہے۔ فرد نہیں، انسان۔انسان واحد صیغے میں نہیں بلکہ انسان جمع میں، اجتماع میں، مجموعے میں۔ اس لیے کہ میں محض اُس وقت ایک شخص کاہوں جب ایک اور شخص بھی موجود ہو۔ اُس شخص کے بنا میں ایک شخص نہیں ہوں۔ اُسی دوسرے شخص کی بدولت میں ایک زبان جانتا بولتا ہوں۔ اور اُسی زبان سے ’’ سوچ‘‘ ممکن ہو سکی ہے اور اُسی سوچ سے بشریت ممکن ہوسکی ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم اشخاص ہیں، چیزیں نہیں۔اب یا تو ہم دوسرے کے موجود کا احترام کریں گے یا ہم سب ختم ہوجائیں گے۔
زندگی؟۔ہاں سارے انسانوں کے وجود کا مجموعہ زندگی۔ثروت زندگی کو اپنا نظریہ قرار دیتی ہے۔رواں دواں، ارتقا پذیر زندگی۔اور اُس کا قاری گواہ ہے کہ اولین مصرع سے لے کر آج تک کی شاعری میں وہ اپنی اس بات پہ قائم ہے۔
یہ حقیقت ضرور ذہن میں رکھیے کہ ثروت کی طالب علمی کے زمانے کی زندگی کی بہ نسبت آج زندگی بہت بدل گئی ہے،صفتی طور پربدل چکی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی تیز رفتاری زندگی کی سبک گامی کو لاکھ گنا تیز رفتاری کے ایڑلگاتی جاتی ہے۔ ماضی کا انسان ایک ہزار برس میں جومادی یا روحانی سفر طے کرتا تھا آ ج کا انسان وہ مسافت ایک گھنٹے میں طے کرتا ہے۔زندگی ہمیشہ کی بہ نسبت زیادہ زندہ ہے،زیادہ چلبلی ہے ۔۔۔۔۔۔ طربیہ، بزمیہ، رزمیہ، اور مرثیہ ہر صورت میں گہرائی گیرائی لیے۔ہنگامہائے زندگی اپنی رفتار اور انواع میں خود کو ہزار سے ضرب دے چکے ہیں۔ ایسی زندگی جو سوال در سوال پہ مشتمل ہے۔
سیمابی بے چینی ہے زندگی۔ اپنی اساس تک کو چیلنج کرنے والی ہے زندگی۔ابھی حال ہی میں، مشرقی یورپ سرمایہ داری نظام سے اپنی ’’بے بندگی ‘‘کی ’’تابندگی ‘‘ والی زندگی کو مسترد کر چکا ہے۔اور یوں اب ایک آدھ جزیرے کو چھوڑ کر بقیہ ساری دنیا سرمایہ کی’’ با بندگی ‘‘کی ’’ شرمندگی‘‘ قبول کر چکی ہے ۔ لگتا ہے کہ زندگی کا مرکزی دھارا ہی اپنے محور سے سُرک گیا ہو۔ جب فلسفہِ زندگی’’ بشرمرکزیت‘‘ سے’’ روکڑمرکزیت ‘‘کی طرف چلا گیا ہو تو سمتِ سفر اور منزِل سفر تو بے کیفی اور بے معنویت کی چغلی کھائیں گے ہی ۔چیلنج کتنا بڑھ گیا ہے زندگی کی دانشوری کرنے والوں کے لیے!!
سرمایہ کی طرف سے ترقی پذیر دنیا کواتنے بڑے بڑے معاشی، سیاسی اور فوجی کچوکے دیے گئے کہ یہاں سماج کا تاروپودشل ہوکر رہ گیاہے۔ ابھی تو خیر ،یو رپی یونین ٹوٹے گا ۔ پھر،سرمایہ اور اس کے مالک کو اپنے جسم سے غیر ضروری اعضا کی بھل صفائی کا ایک اور دورہ پڑنا ہے
۔ یورپ تبدیل ہورہا ہے۔
سرمایہ داری کا بوڑھا بدن تیسری دنیا والی تپدق کے جرثومے کے حملوں کی زد میں ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اِس پہ قابو پالے گا ۔مگر قیمت؟۔ نظام نہیں تو جغرافیائی تبدیلیاں تو حتمی اور ناگزیر ہیں۔ ہم دیکھیں گے ،حتماً دنیا ایسا ہوتا دیکھے گی۔
ہماری عمر کے لوگوں کے تئیں چالیس سال قبل کے مقابلے میں آج زندگی کی حسرتیں بے ذائقہ ہوچکی لگتی ہیں، زندگی کی تلخیاں تلخ تر ہونے کے باوجود بھاری قدر نہیں ہوئیں۔ہوائیں گرم ہوں یا سرد، پیاس ہی بانٹتی جاتی ہیں۔ کنزیومرزم نے آج کے انسان کو زندگی بس بِتانے اور برتنے کے ہی لائق چھوڑا ہے، زندگی جینے کی پر کیفی و پرلطفی کہیں کھوسی گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔’’ اس زندگی کو بحیثیت کل اور اِس کائنات کے ساتھ ملا کر دیکھنے میں مدد گار نظریہ‘‘ کی پیروکار ہے ، ثروت۔
فکری چوکھاٹ کے بعد دانشور کے لیے سب سے ضروری چیز ہوتی ہے: عصری شعور۔ جس مظہر کو عصری شعور کہتے ہیں ، وہ اب بھی دانشور کی تخلیقات میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ آگاہی وادراک آپ کو گہرائی، دوام اور انکساری بخشتی ہے ۔ آپ کے کلام میں بھاری پن سے پُر، تاثیر عطا کرتی ہے۔ یوں آپ کی شاعری محض حروف کی رکھیل نہیں رہتی بلکہ شعور کی ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے۔سماجی آگہی انسان کو مقروض بوسوں،اور ضرورت سے وابستہ بے نام دھوکوں سے نجات دلوا کر اندرسے بھی قد آور بناتی ہے اور باہر سے بھی بلند مرتبت۔
مگر اب اِس عصری شعور کا حصول بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔یوں، کہ ایک تو عصری شعور کا اپنا دامن پٹ فیڈر جتنا وسیع ہوگیا ہے ۔ناقابلِ تصور وسیع خلا میں بلیک ہولز کی نیرنگیاں ہیں، اِن نیرنگیوں میں خلا نوردوں کی پیراکیاں ہیں، جینیٹکس کی ہوش ربا اہلیتیں ہیں، ان اہلیتوں کے دم سے کلوننگ کی کُفرکاریاں ہیں، انفارمیشن ٹکنالوجی کی برق رفتاریاں ہیں، ہندسوں نمبروں کے بے ہنگم رقص ہیں، حسن و عشق کے معیارات میں سُرعتی تبدیلیاں ہیں، عام فزیالوجی میں فزیالوجیکل تغیرات ہیں۔ ہر گھڑی حاملہ ہے، ہرلمحہ نومولودگی کا بگلچی ہے۔
الغرض،آج دانشور کے ذہن کا بیس لائن ہی وہیں سے شروع ہوتا ہے جو گزرے کل کے دانشور کے ذہن کی معراج ہوا کرتی تھی۔عمروں میں محض ایک دہائی کا فرق شعور میں ایک ملینیم کا فرق پیدا کرتا ہے۔آج آواز ، تحریر،دیداور،اپنائیت ، کی ساری حسیات کا ذائقہ بدل چکا ہے۔ اور اگر آپ اِسی ہاوُ ہو میں تفکر و تجزیہ کرنا بھی چاہیں تو ’’عارضی طور پر نا مقبول‘‘جدلیاتی چوکھاٹ کی غیر موجودگی میں سب کچھ رائیگاں جاتا ہے۔ آج ذات اور موضوعیت زن کندن میں ہے کہ اُن کا بریڈنگ گراؤنڈ تو جاگیرداریت ہوتی ہے۔۔۔۔( اور جاگیرداریت محض پاکستان جیسے آثار قدیمہ کی الماریوں میں وجود رکھتی ہے)۔
پھرانفارمیشن حملہ آور فوجوں کے گھڑسوار دستے، سنبھلنے اور کلمہ پڑھنے تک کی مہلت نہیں دیتے۔بریکنگ نیوز کے ہر لمحہ کی ہتھوڑا بازی تفکر کی فیکلٹی کو بلڈوز کرچکی ہے۔مانو یا نہ مانو، ٹی وی، فیس بک، ٹوئٹراور واٹس اپ کے بھاری بوجھ عوام الناس کی بڑی اکثریت کے فکر اور تفکر کو دفن کیے جاتے ہیں:اور بقول اقبال:
گفت: مرگِ عقل؟ گفتم:ترکِ فکر
لہٰذا ، ہم ترکِ فکر کی جان لیوا بیماری کے حوالے ہیں۔