لی شوئی کی گلی کے آخری سرے پر اس کٹیا نما مکان میں کوئلے کی پرانی انگیٹھی سے دھواں لہراتا ہوا ٹوٹے دروازے کی درزوں سے نکل کر باہر آرہا تھا۔ خاموشی سے اپنے لکڑی کے تختوں سے بنے پلنگ نما تخت پرلیٹے ہوئے لیو ڑینگ نے سوچا ” مارچ ختم ہونے کو آیا، لیکن سردی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ، تین رضائیاں اوڑھ کر بھی گرمائی کا احساس نہیں اور ہو بھی کیسے۔۔ کتنے سال پرانی ہو گئی ہیں ، اب تو ان کا رنگ بھی دھل دھل کرختم ہو چکا ، زوئی آئے گی تو اس سے کہوں گی کچھ پیسے ڈال کر مجھے نئی رضائی لا دے” ، اس نے ایک بار پھر تکیے کو سر کے نیچے رکھتے ہوئے بے چینی سے کروٹ بدلی لیکن ہڈیوں میں اتر جانے والی سردی نے نیند کو جیسے کوسوں دور بھیج دیا تھا ، آخر تنگ آ کر رضائی کو ایک طرف دھکیلا ، سرہانے رکھی ہوئی خستہ سی تپائی پر نظر پڑی تو خوش ہو گئی "آہا زوئی میری بیٹی” صبح کارخانے جانے سے پہلے اس کے لئے چاول کی پیچ سیبنا سوپ اور رات کی بچی ہوئی مچھلی کے کچھ ٹکڑے رکھ گئی تھی خود کلامی کے انداز میں بڑ بڑائی "چلو ناشتہ اور کھانا سب کچھ ہی نمٹ گئے”، اس نے جھک کر ستلیوں سے بنے بڑے سے تھیلے کو پلنگ کے نیچے سے گھسیٹا اور کام پر جانے کی تیاری کرنے لگی
________
آج کی صبح کچھ زیادہ خوش گوار نہ تھی ، سردی اور حد سے بڑھی ہوئی نمی نے لیو ڑینگ کو ایک چڑ چڑا ہٹ سے دوچار کردیا تھا وہ بڑبڑا رہی تھی” ہنہ ۔۔ یہ موسم مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔۔، ہر چیز گلگلی اور چپچپی ہو جاتی ہے ، کچرے کے بڑے ڈھیر سے بھی کچھ ہی ڈھنگ کی پلاسٹک اور گتے کے ٹکڑے مل پائے ہیں” ، اس نے چڑ کر جوس کا خالی ڈبہ اپنی کمر کے پیچھے لٹکے ہوئے تھیلے میں ڈالتے ہوئے سوچا ، ” کیا ہو گیا ہے لوگوں کو، اب تو ڈھنگ کا کچرا پھینکنے میں بھی کنجوسی برتنے لگے ہیں، اس پر طرّہ یہ کہ ری سائکل والے چن کے دماغ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ اس تھیلے سے اسے کیا ملے گا اگر اسی رفتار سے بوتلیں اور گتے جمع ہوئے تو سارا دن گلیوں کی خاک چھان کر بھی اتنا نہیں ملے گا کہ شام کے کھانے کے لئے چاول اور سبزی خرید سکوں "۔
اپنی انہی سوچوں میں غلطاں لیو ڑینگ پوری تن دہی سے کچرے کے بڑے ڈرم میں اندر تک گھس کر پلاسٹک ڈھونڈنے کی سعی میں لگی تھی اچانک ہی اس کا ہاتھ کسی نرم سی چیز سے ٹکرایا
” ارے ۔۔۔یہ کیا ہے، مجھے جلدی کرنی چاہیے” اس کے ہاتھ تیزی سے اس پر پڑی بچے کچے کھانیکے ڈبوں اور دوسری بے کار چیزوں کو ہٹانے اور اس نرم لجلجی چیز کو جاننے کی کوشش کرینگے، ” اوہ ! آج پھر کوئی آفت کا مارا یہ معصوم بچہ یہاں پھینک گیا ہے
"یہ بچہ ایک دن کا ہے یا شائد دو دن کا” اس نے بچے کو گود میں اٹھا کر اسے ٹٹولتے ہوئے خود سے پوچھا اسے بچے کی حالت پر رحم آنے لگا ” معصوم ۔۔۔ اس کی تو آونال بھی ٹھیک سے نہیں کٹی ہوئی ، یہ تو بالکل بیہوش سا ہو رہا ہے پتہ نہیں اسے کبھی ماں کا دودھ بھی ملا ہے کہ نہیں” لیو نے بچے پر سے لگی ہوئی گندگی ہٹاتے ہوئے تاسف سے سوچا ،” یہ تو اتنا لاغر لگ رہا ہے کہ اپنا ازلی کام یعنی رونا تک بھول چکاہے” ، کسی جام جیلی کی بوتل سے جام بچے کے کپڑوں اور چہرے کو آلودہ کر چکا تھا اور نہ جانے کیا کیا کچھ اس سے آ چپکا تھا کہ ٹھیک سے محسوس بھی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کوئی انسانی بچہ ہے، ” اس کو تو بہت زیادہ صفائی کی ضرورت ہے بلکل کوڑے کی پوٹلی بن گیا ہے یہ تو” ، ایک ساتھ بہت سی باتیں اس کے دماغ میں گونج رہی تھیں ، ایک جھنجناہٹ نے اسے آ لیا تھا ، ایک لمحے کے لئے تو اس کا جی چاہا ” چھوڑو، اب کیا کسی بچے کی دیکھ بھال میں باقی عمر کھپانی، کمر میں ویسے ہی درد رہنے لگا ہے اور گردوں کی تکلیف بھی بڑھتی جا رہی ہے ، نہ اب ہاتھ پیروں میں اتنا دم ہے کہ نئے سرے سے ایک ننھے بچے کی پرورش کر سکوں”
” بچے کو دیکھ کر اسے کچھ زیادہ حیرت نہ ہوئی تھی یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہ تھی جو اس کی ستر سالہ زندگی میں پہلے کبھی پیش نہ آئی ہو پہلے بھی کئی بچوں کو کچرے سے اٹھایا تھا جن میں سب سے پہلی تو زوئی ہی تھی جوکہ گھر کے سامنے ہی ریلوے لائن کے قریب کچرے گھر سے ملی تھی اسے بڑے ہوتے دیکھ کرغربت کے باوجود اور بھی بچوں کو پالنے کا حوصلہ ملا تھا زوئی کے بعد چینگ اور پھر باؤ اب بھی اس کے ساتھ تھے باقیوں کو اپنے جاننے والے بے اولاد لوگوں کو سونپ چکی تھی ، لیکن یہ اس وقت کی بات تھی جب اس کا شوہر لی زندہ تھا اور وہ بھی اتنی بوڑھی اور بیمار نہ تھی، لی کا خیال آتے ہی اس سے وابستہ تمام باتیں ایک ایک کرکے اپنے آپ کو دہرانے لگیں اس کے ذہن میں پرانی یادوں کی فلم سی چلنے لگی جب وہ دونوں مل کر پلاسٹک اور گتے کو کوڑے سے اٹھا کر ری سائکل والے کو بیچنے کا کام کرتے تھے اور اسی کام میں ان کو کئی بارکوڑے میں پڑے نو مولود بچے بھی ملے ، وہ سوچ رہی تھی ” لی کو بچوں سے کتنا پیار تھا، جب بھی زمانے کی نا قدری کے ہاتھوں کوئی ننھا تحفہ مل جاتا اسے گھر لا کر نہلا دھلا کر انسان کا بچہ بنا لیتے اور اپنی ضرورت ایک طرف ڈال کر ان کے لئے دودھ کا بندوبست کرتے تھے” ، لی نے اپنے ہاتھوں سے لکڑی اور کپڑے کا خوب صورت سا جھولا بھی بنا رکھا تھا جو دراصل اپنی لاڈلی بیٹی زوئی کے لئے برسوں پہلے بنایا تھا لیکن اس کا رنگ بد نما اور کپڑا میلا نہ ہوتا تھا ہر بار جب وہ اسے اپنے اکلوتے کمرے کے پیچھے پرانی چیزوں کے ڈھیر میں رکھنے کا ارادہ کرتا ایک نئے بچے کی ضرورت بن جاتا ، اور لی بڑے چاؤ سے نئے سرے سے اس پر محنت کرتا رنگ وروغن کرکے اسے چمکاتا اور نرم کپڑے کے جھالر لگے گدیلے جو لو کے ماہر ہاتوں کی مہربانی ہوتے بچھا کر پھر ایک نئی آن بان سیننھے مہمان کی رہائش گاہ بن جاتا۔
زندگی کی گاڑی یوں ہی ہمکتے کبھی بلکتے چلی جارہی کہ لی کو دمے کی شدت نے بستر سے لگا دیا ڈاکٹر نے اسے کچرے کے کام سے ہونے والی الرجی تشخیص کی تھی ، لو ڑینگ تو جانے کس مٹی کی بنی تھی نہ اسے کوئی الرجی ستاتی اور نہ کبھی بیمار پڑتی ہاں البتہ یہ نم آلود موسم اسے ایک آنکھ نہ بھاتا مگر اپنے محسوسات کسی سے کبھی کہاں شیئر کرتی تھی وہ، جبھی تو محلے والوں نے اس کا نام مشین رکھ چھوڑ ا تھا لیکن لی اتنا سخت جان نہ تھا کچھ دن ہسپتال میں بھی رہا پھر بھی ایک دن زندگی کی بازی ہار گیا ۔ لی کے جانے کے بعد تو گھر اور بھی کاٹ کھانے کو دوڑتا، اس کی یاد بھلانے کو وہ اور بھی زیادہ کام کرتی آج بھی اسی لئے صبح صبح گھر سے نکلی کہ گھر میں رہے گی تو ماضی کی یاد دل میں چٹکیاں لئے جائے گی اگر چہ اس میں کچھ یادیں آج بھی بچوں کی شکل میں مجسم ہو کر اس کا سہارا بنی ہوئی تھیں لیکن غربت کی انتہا نے اسے اس عمر میں بھی کام کرنے پر مجبور کر رکھا تھا اور یہ بہانہ ایسا نہ تھا جسے کسی طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیو ڑینگ کے ہاتھوں کی جنبش کو محسوس کرکے بچہ پہلے تو تھوڑا کسمسایا پھر منہ بنانے لگا ، سورج بادلوں سے جھانکنے لگا تھا ، بچے کو دھوپ کی چمک بلکل اچھی نہ لگی، اوپر سے مکھیاں بھی تنگ کر رہی تھیں یہاں تک کہ اس نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا، پہلے تو اسے بچے کی آواز کسی کنویں سے آتی محسوس ہوئی وہ ابھی بھی ماضی کے دھندلکوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ لی کے ساتھ گزرے نرم گرم دنوں کی یاد نے اسے اپنی تکلیف بھلا دی تھی ، بچہ اب بلک بلک کر رونے لگا ، شائد اس سے بھوک برداشت نہیں ہو رہی تھی یا وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی آخری جنگ لڑ رہا تھا ، اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔ کچرے میں موجود چیونٹیوں نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا اور انہیں میں سے کسی نے اسے زور سے کاٹ لیا تھا، جبھی وہ پوری قوت سے چلایا، اور_____ لو ڑینگ کو جھٹکا سا لگا وہ یکدم ماضی سے حال میں آ کھڑی ہوئی جہاں وہ معصوم اپنے ننھے ہاتھ پھیلا کر اس سے مدد کی بھیک مانگتا محسوس ہوا، وہ جانتی تھی کہ اتنا چھوٹا بچہ ایسا نہیں کر سکتا ، اس نے اپنی منفی فکروں کو پرے دھکیلا ،اپنے تھیلے میں سے نسبتاً صاف رومال نکالا جو وہ کام سے نمٹ کر اپنے منہ ہاتھ پوچھنے کے لئے استعمال کرتی تھی اور بچے کو اچھی طرح لپیٹ کراپنے سینے سے باندھ لیا بچے کا چہرہ سورج کی روشنی سے دمک رہا تھا جس میں ساری گندگی دھندلا گئی تھی ۔
___________
لیو ڑینگ کا یہ سب سے چھوٹا بچہ جسے اس دن وہ اپنے ساتھ اٹھا لائی تھی اب چار سال کا ہو گیا تھا بہت ہی چلبلا اور شرارتی ، ماں نے اس کا نام ” ڑانگ” یعنی انمول رکھ چھوڑا تھا اور وہ تھا بھی ایسا ہی۔ بڑے بھائی بہن کی آنکھوں کا تارہ جو انکے ساتھ اسی ڈیڑھ کمرے کے مکان میں رہ رہا تھا جس کے دروازے بغیر چوکھٹ کے ، پرانے پردوں اور ٹوٹے ہوئے لکڑی کے ٹکڑوں کو جوڑ کر اس کے بڑے بیٹے اپنے ہاتوں سے بنائے تھے، گھر میں فرنیچر نام کو نہ تھا بس ٹوٹے تختوں سے بنا پلنگ اور اس کے ساتھ رکھے گتے کے ڈبوں میں میلے کپڑوں کا ڈھیر، غربت کی انتہائی سطح کو چھوتی میلی دیواریں __ساتھ کے کمرے میں چینگ اور باؤ کی مشترکہ طور پر پرانے سامان سے پرزے جوڑ کر بنائی ہوئی ایک موٹر سائکل رکھی تھی جو کہ ان دونوں کا کاروبار تھا
لیو سے تو اب بستر سے ہلا تک نہیں جاتا تھا اسکے گردے جواب دے چکے تھے اس نے ڑانگ کو پالنے میں محنت جو اتنی کی تھی ہر وقت کچرے میں چھپے زہریلے کمیکلز اور جراثیم نے اس کے اندر گھر کر لیا تھا، ڈاکٹروں کے منع کرنے باوجود پہلے سے زیادہ کام کر رہی تھی انجام کار رفتہ رفتہ چلنے پھرنے سے معذور ہوتی گئی یہاں تک کہ ایک دن گر کر بیہوش ہو گئی ، سرکاری ہسپتال تک کے خرچے برداشت کرنے کو پیسے کسی کے پاس نہ تھے ، یوں گھر میں ہی زندگی کے دن بستر پر پڑے پورے کر رہی تھی
زوئی ہی زیادہ تر اس کی اور ڑانگ کی دیکھ بھال کرتی تھی اس نے اگر چہ کچھ سال پہلے شادی کر لی تھی لیکن اس کا شوہر کچھ زیادہ ہی نکما ثابت ہوا تھا اور یہ شادی چند مہینوں میں اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی اور وہ ایک بار پھر لو ڑینگ کے گھر کے ایک چھوٹے سے برامدے نما کمرے میں آن بسی تھی اور اپنی گزر بسر ایک کارخانے میں کام کر کے پوری کر رہی تھی۔ یوں تو چائنا میں اس کے سب ہی ساتھی اکلوتے تھے لیکن وہ اپنے آپ کو خوش قسمت گردانتی کیونکہ اس کے دو بھائی اور بھی تھے جو کہ اس کے والدین نے کوڑے سے ہی اٹھائے تھے لیکن حالات کی ستم ظریفیاں برداشت کرتے کرتے کافی بدمزاج اور چڑچڑی ہو گئی تھی ، آج بھی ماں سے اسے کی بحث ہو رہی تھی
"بس__ اب بہت ہو گئی _میں اتنا کام نہیں کر سکتی ، میں نے بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے میں ڑانگ کا نام لکھوا دیا ہے ”
لیو نے بستر پر لیٹے لیٹے غصہ سے جواب دیا ” یہ کیسے ہو سکتا ہے ڑانگ تمہارا بھائی ہے”
"اماں ، یہ کوئی نئی بات نہیں ، آخر پہلے بھی تو تم نے بچے لوگوں کو دیے ہیں ”
"اچھا ہو گا ، ڑانگ کو کوئی امیر آدمی اپنا لے
"ہم تو اسے نہ پڑھا سکتے ہیں ، نہ کچھ اچھا کھلا پلا سکتے ہیں ، دیکھو تو کتنا کمزور ہو گیا ہے ”
اور پھر ہمیں بھی تو اتنے پیسے مل جائیں گے کہ تمہارا علاج کروا سکیں ”
لیو تڑپ اٹھی ، لیکن اتنی طاقت نہ تھی کہ زوئی سے بحث کر سکتی ، اس کی آنکھوں میں وہ دن گھوم گئے جب ڑانگ کو گھر لائی تھی اسے پیٹھ پر باندھ کر اپنے ساتھ کام پر لے جاتی اور اس کے لئے صبح سے شام تک کچرے میں سے پلاسٹک اور بوتلیں اکھٹا کرتی اب اسے وہ گلگلا موسم بھی برا نہ لگتا ، کتنی بار شیشے کی کرچیاں اس کے ہاتھوں کو زخمی کر جاتیں مگر وہ کپڑوں کی کترنیں باندھ باندھ کام میں جتی رہتی ، کبھی ڑانگ کو اپنے سے الگ نہ کیا، بھائی بہنوں نے بھی اس کے لئے لکڑی کی کھلونے بنا بنا کر اسے بہلایا ، لیکن اب جب وہ بستر پر پڑی تھی ڑانگ کیسے سب کو کھلنے لگا تھا ” وہ خاموش تھی لیکن اندر ایک شور برپا تھا ” آہ وہ کیسے یہ سب برداشت کر سکتی ہے، ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کام کیا لیکن آج محتاج ہو کر پڑی ہے ، زوئی کو بھی تو اسی طرح پالا ، چینگ اور باؤ کو بھی اگر وہ اسے کوڑے سے نہ اٹھاتی تو آج یہ سب ۔۔۔۔اس سے آگے اس سے سوچا نہ گیا، اس کی نظر کھلے دروازے سے جھانکتی ہوئی ریلوے لائن پر ٹک گئی تھی۔۔
دبلا پتلا ، منحنی سا ڑانگ آنگن میں مرغیوں سے کھیلنے میں مگن تھا ، شرارت اس کے چہرے پر کھیل رہی تھی لگتا تھا بس ابھی مرغی کی شامت آنے ہی والی ہیزوئی آج اتفاق سے گھر پر ہی تھی اور ڑانگ کی ٹوٹی ہوئی سائکل کو جوڑنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ، باہر دروازے پر لگے پردے کو جنبش ہوئی، سامنے درمیانی عمر کے مرد و عورت کھڑے تھے جو چہرے سے کھاتے پیتے گھر کے معلوم ہوتے تھے ،
"جی ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں” ،جواب کا انتظار کیے بغیر وہ زوئی کے پیچھے اس کمرے میں جا پہنچے جہاں لیو ڑینگ بستر پر دراز تھی عورت کن انکھیوں سے گھر کا جائزہ لے رہی تھی ساتھ ہی ڑانگ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگی ، ڑانگ نے ان کی طرف لاپرواہی سے دیکھا اور مرغی کے پیچھے بھاگتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا
ملگجے اندھیرے میں بستر پر دراز لیو کا چہرہ صاف نظر نہیں آرہا تھا ،زوئی نے ماں کو ان دونوں کی آمد کی وجہ بتاتے ہوئے انہیں کمرے میں ایک طرف رکھے لکڑی کے کھوکھوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا جسے مرد نے نرمی سے منع کر دیا جب کہ عورت نے پہلے تو ناک سکوڑی پھر ذرا سنبھل کر شائستگی سے انکار کرتے ہوے کہا ” ہمیں ذرا جلدی ہے ، یہ بچہ ہمیں گود لینا ہے۔۔ اور۔۔ اس کے لئے جتنی بھی رقم چاہیے ہم دینے کو تیار ہیں” اس نے جلدی سے اپنے ہینڈ بیگ سے نوٹوں کی گڈی نکالی اور لیو کے بستر کے کنارے پر رکھ دی ” ہم آپ کا علاج بھی بہت اچھے ہسپتال میں کروائیں گے” ، عورت مسلسل بولے جا رہی تھی ،
لیو کو یہ خود پسند عورت اچھی نہ لگی ابھی وہ کچھ کہنے ہی کو تھی کہ زوئی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا لیو نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے تکیے کے سہارے اٹھنے کی کوشش کی ، اس کا سانس پھول رہا تھا کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن کمزوری کی وجہ سے آواز اندر ہی گھٹ کر رہ گئی اس نے پھر ہاتھ کے اشارے سے زوئی کو قریب بلایا او ر کان میں کچھ کہا ، آنے والی عورت اور مرد ابھی بھی وہیں کھڑے تھے ،عورت کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ واقع ہوئی تھی ،مغرور لہجے میں بولی ” میں اور بھی پیسے لائی ہوں اگر کم ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر بیگ سے نوٹوں کی ایک اور گڈی نکالی،آدمی کے چہرے پر ناگواری البتہ صاف محسوس ہو رہی تھی لیکن دونوں بدستور کھڑے رہے ، اسی اثناء میں ڑانگ دوبارہ مرغی کے پیچھے بھاگتا ہوا کمرے میں آگیا ، زوئی نے اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار سے اس کے گال تھپتھپانے لگی ،آدمی آگے بڑھا اور ڑانگ کو گود میں لینے کی کوشش کرنے لگا
ڑانگ نے جانے کچھ محسوس کر لیا تھایا ویسے ہی وہ جلدی سے زوئی کی گود سے اترا اور لیو کے بستر پر چڑھ گیا اور اس کے جھریوں بھرے ہاتھ کو بوسہ دینے لگا ، لیو میں نہ جانے کہاں سے طاقت آگئی وہ بغیر کسی سہارے کے بستر سے اٹھ کر بیٹھی اپنے سرہانے سے نوٹوں کی گڈی اٹھائی اور عورت کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولی ،” یہ سچ ہے” ماضی میں کئی بچوں کو میں نے آپ جیسے ضرورت مندوں کو دے کر انہیں ایک مضبوط سہارا دینے کی کوشش کی ہے”
اس نے ایک نظر زوئی کی طرف دیکھا اور نرم لیکن مضبوط آواز میں بولی ” جب ہم کوڑے کو دوبارہ قابل استعمال بنا سکتے ہیں تو انسانوں کو کیوں نہیں۔۔۔۔۔
ہم اسے آپ کی طرح آرام دہ زندگی تو نہیں دے سکتے، ۔۔۔ لیکن وہ ہمارے ساتھ بہت خوش ہے ۔۔۔میرے جگر کا ٹکڑا ۔۔۔
میں ڑانگ کو اپنے سے الگ نہیں کروں گی،
ویسے بھی میرا بڑا بیٹا چینگ اس کی دیکھ بھال کا ذمہ لے چکا ہے "،
کمزوری نے اسے گھیر لیا پھر بھی پوری قوت مجتمع کر کے دروازے کی طرف اشارہ کیا ” کبھی بھول کر بھی یہاں نہ آنا "۔
یہ کہتے ہوئے اس کی بوڑھی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں ،زوئی حیران تھی ، مشین رو جو رہی تھی۔
*********
ہمجولی چڑیا ۔۔۔ سبین علی
سنہرے پروں والی چڑیا پکڑنے کی دھن میں اک ننھی بچی بستی سے بہت دور نکل گئی_ شام ہونے کو آئی’ فلک پر بادل چھا گئے_ ہوا سرد ہوئی تو جنگل کی باڑ پر اداس بیٹھی سوچنے لگی اب واپس کیسے جاؤں_
چلتے چلتے جب پاؤں تھک گئے تواسے اپنے ماں باپ بہت یاد آئے_
اْس کی یہ بیچارگی دیکھ کر سنہرے پروں والی چڑیا دلاسہ دینے آئی،”اداس مت ہو پیاری ہمجولی”_
اس چڑیا کو اپنے سامنے پا کر ننھی بچی کے دل میں اسے پکڑ لینے کی خواہش نے دم توڑ دیا 150
تب جا کر احساس ہوا کہ اتنی دور نکلنے کی133..اسے پکڑنے کی کیا ضرورت تھی133133..
یہ چوں چوں کرتی سنہری چڑیا تو روز اس کی کھڑکی پر آ کر سریلے نغمے سناتی ہے_

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے