میں اپنا جسم لیے پھرتا ہوں زمانے سے
یہ بوجھ کیسے اتاروں گا اپنے شانے سے

ہوا میں آج تری بے بسی پہ ہنستا ہوں
چراغ اور جلے ہیں ترے بجھانے سے

ہلا کے پاؤں کی زنجیر مسکراتا ہوں
میں کوئی ڈرتا نہیں تیرے قید خانے سے

سحر ہوئی تو مری آنکھ سے لہو ٹپکا
لپٹ کے رہ گئے سپنے مرے سرہانے سے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے